• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سندھ کے سائیں قائم علی شاہ وزیر ا علیٰ کے عہدے اور منصب سے فارغ کئے جارہے ہیں۔ وزارت اعلیٰ کے ہیٹ ٹرک کرنے والے سائیں کے سیاسی اعمال نامہ کے مطابق وہ مسلسل اور متواتر پیپلز پارٹی میں شامل رہے ہیں۔ پارٹی کے ساتھ ان کی وفاداری مسلمہ اور مستقل ہے مگر یہ وفاداری کافی نہیں ہے۔ وفاداری کے علاوہ ان سے کچھ اور توقعات بھی تھیں جو شاید وہ پوری نہیں کرسکے یا صحیح انداز میں پوری کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ خٹک صاحب کے سیاسی مستقبل کے بارے میں کچھ اچھی خبریں نہیں آرہیں۔ ان کی اپنی پارٹی کے اندر سے ہی ان کے خلاف مہم چل رہی ہے جو کسی بھی نتیجہ تک پہنچ سکتی ہے۔ خٹک صاحب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ شریف آدمی ہیں مگر سیاست میں صرف شریف ہونا بھی کافی نہیں ہوتا۔ شرافت کسی کو اس کی مسند یا منصب پر ہمیشہ کے لئے قائم نہیں رکھ سکتی ۔ شرافت اور وفاداریوں کی پرواز میں ایسے ہچکولے آسکتے ہیں کہ جن میں شرافت اور وفاداری کچھ زیادہ موثر نہیں ہوتی۔ کہنا نہیں چاہتا مگر کہا جاسکتا ہے کہ سیاست میں احتجاجی مظاہرے اور دھرنے بھی کچھ زیادہ زندگی نہیں پاتے چنانچہ ان سے بھی گریز کی ضرورت ہے۔ ایک اور دھرنا گزشتہ دھرنے جیسا لاحاصل ثابت ہوا تو تیسرا دھرنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہوسکتا ہے۔سائیں قائم علی شاہ کی جگہ مراد علی شاہ کو سندھ کی عنان حکومت سنبھالتے وقت سوچنا پڑے گا کہ یہ تبدیلی محض چہروں یا شاہوں کی تبدیلی ہی ثابت نہ ہو پالیسیوںاور کارکردگیوں کی تبدیلی بھی ظاہر کی جائے۔ سندھ کے عوام اور خواص یہ محسوس کریں کہ کوئی مثبت تبدیلی وجود میں آئی ہے جس کے دور رس نتائج بھی برآمد ہوسکتے ہیں۔آزاد کشمیر کے حالیہ انتخابات کے نتائج تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی کو خبردار کرتے ہیں کہ محض انتخابات میں دھاندلی کچھ موثر بہانہ نہیں ہوگا۔ دھاندلی اتنی دھاندلی بھی نہیں ہوتی کہ حکمران پارٹی محض پانچ نشستوں تک سکڑ جائے اور سیاسی سونامی بھی ایک جوہڑ تک محدود دکھائی دینے لگے۔ آزاد کشمیر میں تحریک انصاف کی انتخابی کارکردگی میں اس کے باغی یا ناراض عناصر کی بجائے عام ووٹروں کا دخل بہت ز یادہ ہے اور ان کی عدم دلچسپی میں تحریک کے بانی چیئرمین عمران خاں کی’’سولو فلائٹ‘‘ کا دخل سب سے زیادہ ہے اس رویے پر خان صاحب کو نظر ثانی کرنی پڑے گی۔پاکستان پیپلز پارٹی اپنے نئے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی ضرورت سے زیادہ توجہ کی طالب ہے۔ چند سال پہلے تک کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ چند مہینوں میں پورے پاکستان میں سب سے بڑی سیاسی جماعت کے طور پر ابھرنے کا معجزہ دکھانے والی پارٹی آزاد کشمیر کے انتخابات میں بہت ہی مایوس کن کردار ادا کرے گی۔ حکمران جماعت صرف پانچ نشستوں تک سکڑ کر رہ جائے گی۔ کہا جاتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو عدالت نے سزا سناتے وقت کہا تھا کہ انہیں وفات پا جانے تک پھانسی پر لٹکایا جائے۔ انہیں پھانسی پر لٹکایا گیا مگر انہوں نے وفات نہیں پائی، چنانچہ انہیں لٹکائے جانے کا سلسلہ طویل ہوگیا لیکن گزشتہ چند سالوں میں انہیں پھانسی سے اتار کر قبر میں لٹانے اور اوپر مٹی ڈالنے کا کام مکمل کرلیا گیا۔ بلاول بھٹو زرداری اپنے نانا کی پارٹی کو قبر سے باہر نکال کر ’’پیپلز ‘‘ کے حوالے کرنے کا فریضہ کس خوش اسلوبی سے انجام دے سکتے ہیں یہ وقت بتائے گا اور کوئی نہیں بتاسکتا۔آنے والے چند مہینے پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف دونوں متبادل سیاسی جماعتوں کے لئے نہایت اہم مہینے ہوں گے جن سے پتہ چلے گا کہ مستقبل کا مورخ پاکستان کی قومی سیاست کے بارے کیا کہتاہے کہ کیا امید دلاتا ہے اور کن آزمائشوں کے راستے میں آنے کی پیش گوئی کرتا ہے؟
تازہ ترین