• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مہانہ گجرات کے دامود داس کا ریلوے اسٹیشن پر چائے کا ٹھیلہ تھا ،گاہے وہ ٹرین میں سوار ہوکر بھی چائے فروخت کیا کرتا تھا۔ کسمپرسی کی زندگی گزارنے والے دامود کی اہلیہ ہیرا بین جی گزر بسر میں مدد کیلئے لوگوں کے گھروں میں کام کرتی تھیں۔ اس غریب خاندان میں 17ستمبر 1950ء کو پیدا ہونے والے بچے کا نام نریندر مودی رکھا گیا۔ دامود کے بیٹے نے بچپن میں اپنے والد کے ساتھ ٹرینوں میں چائے فروخت کی۔ ماضی کے چائے فروش بچے نے گزشتہ روز بھارتی شہزادے راہول گاندھی کو چاروں شانے چت کر دیا۔ جب وہ چائے فروخت کرتا تھا ،اس وقت اس کے سینے میں ایک خواہش پنپتی تھی کہ سنیاسی بن کے لوگوں کی صحت اور اپنے حالات بہتر بنائے گا،اس کے سوانح نگار نے لکھا کہ اس مقصد کی خاطر وہ ’’راما کرشن مشن‘‘ بھی جا کر رہے۔ سنیاسی بن کر وہ بیمار لوگوں کا علاج تو نہ کر سکے مگر پہلے گجرات اور اب مرکز میں لینڈ سلائیڈ وکٹری حاصل کر کے انہوں نے اپنے آپ کو سیاسی حرکیات کا ماہر سنیاسی ثابت کیا ہے۔ مودی ہندوستان کا متنازع ترین کردار رہے ہیں۔اس کے چاہنے والوں کی کمی ہے نہ اس سے نفرت کرنے والے کم ہیں۔حمایت اور مخالفت کرنے والے ہر دو گروہ توازن سے کام نہیں لیتے،محبت کرنے والے اسے اوتار سے کم ماننے پر تیار نہیں اور مخالف اسے نفرت ابھارنے والا رہنما گردانتے ہیں۔ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے دلوں میں مودی سے متعلق خوف اور نفرت موجود ہے ۔ذرائع ابلاغ میں شہ سرخیوں میں رہنے والے مودی کی ذاتی زندگی سے لوگ کم کم ہی واقف ہیں۔ وہ سترہ سال کے تھے تو ان کی شادی جشیودا بین سے کر دی گئی مگر میاں بیوی زیادہ دیر اکٹھے نہ رہ سکے، انکے بھائی نے علیحدگی کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ مودی نے اپنی زندگی قوم کیلئے وقف کر دی ہے۔ مودی کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگے ہیں، مسلمانوں کے خلاف نفرت ابھارنے میں اس کا اہم کردار ہے۔ وہ ہندو انتہا پسند تنظیم ’’آر ایس ایس‘‘ کے رہنما کیساتھ ساتھ ’’پرچارکیا‘‘ تنظیم کے مبلغ بھی رہے۔آرایس ایس سے تربیت پائی مگر اس کے’’سودیشی‘‘ تصور کے برعکس عملی زندگی میں وہ کاروبار نواز اقتصادی نظریئے کے بڑے رہنما کے طور پر ابھرے۔ گجرات میں انہوں نے صنعتوں کا جال بچھا کے غریب و بے روزگار کی دادرسی کی۔ کل کا غریب مودی آج کے ’’کارپوریٹ انڈیا‘‘ کا پردھان مانا جاتا ہے،کئی بڑے صنعتی خاندانوں کی اسے قربت حاصل ہے جنہوں نے اس کی جیت میں کلیدی کردار ادا کیا ہے مگر ’’سودیشی‘‘نظریئے کی حامل آر ایس ایس اپنے ’’نظریاتی باغی‘‘ مودی کی حمایت میں پھر بھی صف اول میں رہی۔ موجودہ انتخابات بی جے پی کے نام پر نہیں مودی کے نام پر جیتے گئے۔ انتخابی مہم کے دوران مودی نے کشمیریوں کی تحریک اور پاکستان کے خلاف بلند آہنگ میں بات کی۔بیماری و صحت کی کیفیات مختلف ہوتی ہیں ۔سیاسی بخار چڑھا ہو اور درجہ حرارت بڑھا کے اپنی حمایت بڑھانے کیلئے بعض اوقات سیاستدان ’’سیاسی میدان‘‘ سے باہر بھی نکل کر کھیلتے ہیں۔ہمارے ادارے اور بعض رہنما بھی تو غلط دعوے اور نعرے بلند کرتے ہوئے لال قلعے پر پرچم لہرانے کی بات کرتے رہے۔بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ مودی کی آمد سے پاک بھارت کشیدگی میں اضافہ ہوگا مگر عمل کی دنیا میں ہم نے دیکھا کہ گجرات میں فرقہ وارانہ فسادات کی آگ جب آسمان کو چھو رہی تھی تو بہت سے صنعت کاروں نے ٹھان لی تھی کہ وہ گجرات کو خیر باد کہہ کر اپنی صنعتیں پُرامن جگہوں پر منتقل کر دینگے۔ گجرات کے ’’معمار مودی‘‘ نے دن رات ایک کر کے صنعت کاروں کے ارادوں کو تبدیل کیا۔مودی کا انتخابات میں سب سے بڑا نعرہ ہی ہندوستان میں صنعتی انقلاب کا تھا۔ وہ جنگی جنون بڑھائے گا تو اس کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے گا؟ ہر گز نہیں۔آج اس موقع پر قاضی حسین احمد مرحوم بہت یاد آرہے ہیں جنہوں نے پندرہ سال قبل میری موجودگی میں پریس ٹرسٹ آف انڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’بھارتی نیتا انتہا پسندی اور ہٹ دھرمی کا رویہ ترک کرتے ہوئے کشمیر کا مسئلہ حل کر دیں تو بھارت کو اس کا سب سے زیادہ فائدہ ہو گا۔ پاکستان بھارت کی تجارت کیلئے ’’ٹریڈ گیٹ‘‘ ثابت ہو سکتا ہے اور بھارتی مصنوعات کی پہنچ وسط ایشیائی ریاستوں تک ہو سکتی ہے،،۔ان سطور کی اشاعت تک مودی وزارت عظمیٰ پر فائز ہونے کے قریب تر ہونگے مگر انتخابات میں آستینیں چڑھا کر تقریریں کر کے لوگوں میں جوش ابھارنے کے دن لد چکے، اب ان کا امتحان شروع ہو چکا، انہیں اپنے آپ کو پُرجوش کے بجائے ہوشمند رہنما ثابت کرنا ہوگا۔اب دیکھا یہ جائے گا کہ وہ اپنے بلند بانگ دعوئوں پر عمل کرکے عوامی توقعات پر کیسے پورے اترتے ہیں، مذہبی منافرت کو جو ان کے کردار کیساتھ جڑ چکی ہے کو اپنے جسم و خیالات سے کیسے دور کرتے ہیں۔اب انہیں مذہبی جنونی نہیں ایک مدبر رہنما کا کردار ادا کر کےان تجزیہ نگاروں کو غلط ثابت کرنا ہوگا جو کہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ان کے آنے سے خلیج بڑھے گی اور وہ کشمیریوں کی تحریک کو کچل دیں گے۔ مودی ان حقائق سے ناواقف کیسے ہو سکتے ہیں کہ ظلم و جبر اور حرص و لالچ کشمیر کی تحریک کو نصف صدی سے ختم نہ کر سکے۔ موجودہ انتخابات میں بھی کشمیریوں کی اکثریت نے ووٹ نہ دیکر ثابت کیا کہ ’’لاٹھی گولی کی سرکار‘‘ نہیں چلے گی۔ انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد کشمیر کے بزرگ رہنما سید علی گیلانی نے کہا کہ ’’کانگریس اور بی جے پی دونوں ایک ہی کھوٹے سکّے کے دو رخ ہیں، سیکولر ہندوستان کی نقاب کشمیریوں نے خون دے کر اتاری۔ بھارت کے جنگی جنون کی وجہ سے اس کے کروڑوں لوگ خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ کانگریس اور بی جے پی کے رہنمائوں کے ہاتھ کشمیریوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں،،۔ میر واعظ عمر فاروق نے کہا کہ ’’مودی کی جیت سے اقلیتوں باالخصوص مسلمانوں میں تشویش کی لہر بڑھ گئی ہے۔ وقت بتائے گا کہ مودی معاملہ فہمی کا رویہ اختیار کرتے ہیں یا محاذ آرائی کا‘‘۔ مودی کی بربریت کی وجہ سے ہندوستان کے سرپرست امریکہ تک نے ان کو ویزہ نہ دیا۔ ممبئی سے شائع ہونیوالے روزنامہ اردو ٹائمز نے انکشاف کیا ہے کہ انتخابی تقاریر کے برعکس بی جے پی کے بعض رہنما پاکستان سے بہتر تعلقات کی راہ استوار کرنے کیلئے متحرک ہو چکے ہیں، اس سلسلے میں امریکہ میں پاکستانی سفارتخانے کے تعاون سے آر ایس ایس کے ایک اہم رہنما نے گزشتہ دنوں اسلام آباد کا دورہ بھی کیا ہے۔ ان کے اس دورے میں دونوں ملکوں کی حکومتوں کے درمیان مستقبل میں بہتر تعلقات کار بھی زیر بحث آئے۔ دہلی میں تعینات پاکستان کے ہائی کمشنر عبدالباسط نے مودی کے ایک ٹی وی چینل پر پاکستان سے متعلق خیالات کو بھی حوصلہ افزاء قرار دیا ہے۔بھارت کی نئی قیادت کو یاد رکھنا چاہئے کہ 1970ء اور 2014ء میں بہت فرق ہے۔ ستّر میں بھارتی ریشہ دوانیوں سے پاکستان دولخت ہوا مگر 45سالوں میں بہت کچھ تبدیل ہو چکا ہے،کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ پاکستان کو کچل کر آگے بڑھے گا تو اس کی خام خیالی ہوگی۔نیو کلیئر پاکستان کے متعلق بھارتی نیتائوں کو اپنے رویّے میں عملی تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ وزیراعظم نواز شریف نے مودی کو نہ صرف انتخابات میں کامیابی پر مبارکباد دی بلکہ انہیں پاکستان کے دورے کی بھی دعوت دی جس میں پیغام مضمر ہے کہ ہم پڑوسیوں سے بہتر تعلقات چاہتے ہیں۔ دونوں ملکوں کی قیادت کو یاد رکھنا چاہئے کہ مصنوعی تدابیر سے خطے میں امن آئے گا نہ ہم آگے بڑھ سکیں گے ۔ہر دو ملک حقیقی پیش قدمی اسی وقت کر سکیں گے جب وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کی منشاء کے مطابق مسئلے کا حل نکالیں گے۔
پس تحریر! سونیا گاندھی نے کھلے دل سے انتخابی شکست تسلیم کر کے بی جے پی کو کانگریس کی جانب سے تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔ہماری سیاسی رہنمائوں بالخصوص عمران خان سے گزارش ہے کہ وہ ایک صوبے میں بہتری کارکردگی اور مرکز میں بہترین اپوزیشن کا کردار ادا کر کے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا کے مستقبل میں ہونیوالے انتخابات میں اتریں اور جیتنے کی کوشش کریں۔
تازہ ترین