• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انٹرنیٹ کی انقلابی ایجاد نے جہاں پلک جھپکتے دنیا بھر میں اطلاعات اور معلومات کی منتقلی ممکن بنادی ہے وہیں سائبر کرائم کے عنوان سے جرائم کی نئی اقسام کو بھی جنم دیا ہے ۔سوشل میڈیا انٹرنیٹ ہی کا مرہون منت ہے جس کے ذریعے کوئی بھی شخص کروڑوں افراد تک اپنے خیالات، تصاویر، فلمیں وغیرہ برائے نام مالی وسائل خرچ کرکے پہنچاسکتا ہے۔ اس طرح جہاں صحت مند علم کے فروغ کی نئی راہیں ہموار ہوئی ہیں وہیں بلیک میلنگ، برائیوں کی ترغیب، علاقائی و لسانی اور مذہبی و مسلکی منافرت نیز فرقہ واریت کے پھیلاؤ اور اس کے نتیجے میں لامحدود پیمانے پر انسانی زندگیوں کی تباہی کے راستے بھی کھل گئے ہیں۔ان جرائم سے نمٹنے کے لیے نئے قوانین ضروری ہیں جس کا پوری دنیا میں اہتمام کیا جارہا ہے ۔ پاکستان میں اس حوالے سے اہم پیش رفت گزشتہ روز سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اجلاس میں ایک مسودہ قانون کی متفقہ منظوری کی شکل میں ہوئی جس میں سائبر کرائم کے مقدمات کے لیے خصوصی عدالتوں کے قیام نیز سائبر دہشت گردی ،کسی کے خلاف مذہبی، نسلی یا فرقہ وارانہ منافرت پر مبنی مواد ڈالنے یا چلانے ،چائلڈ پورنو گرافی ، موبائل فون کی ٹیمپرنگ ، انٹر نیٹ ڈیٹا کے غلط استعمال اور ددیگر جرائم پر لمبی قید اور بھاری جرمانوں کی سزائیں مقرر کی گئی ہیں۔ نفرت انگیز تقاریر کے مقدمات میں کمپیوٹر، موبائل فون اور دیگر الیکٹرانک آلات کی گواہی کو قابل قبول ٹھہرایا گیا ہے۔بل کے مطابق سائبر کرائم قانون کا اطلاق پاکستان کے اندر ہی نہیں بلکہ ایسے افراد اور گروہوں پر بھی ہوگا جو وطن سے باہر کسی دوسرے ملک میں بیٹھ کر پاکستان کی سالمیت کے خلاف کام کررہے ہوں۔ اس مفصل مسودہ قانون کو جامع بنانے کی پوری کوشش کی گئی ہے جسے سراہا جانا چاہیے۔ تاہم اس قانون کو آزدی اظہار کے جائز حدود میں ہرگز دخیل نہیں ہونے دیا جانا چاہیے ۔ سینیٹ اور اس کے بعد قومی اسمبلی میں حتمی منظوری سے پہلے امید ہے کہ سائبر کرائم کی روک تھام کے اس قانون کو ہر اعتبار سے مکمل بنایا جائے گا تاکہ یہ حقیقی معنوں میں مثبت نتائج کا ذریعہ بن سکے۔



.
تازہ ترین