• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’مشرقی ہوائیں مغربی ہوائوں کا پیچھا کر رہی تھیں اور ایشیا سرخ تھا‘‘یہ جملہ معراج محمد خان نے اپنے اس عہد کیلئے کہا تھا جب انکی پاکستان کے سیاسی اسٹیج پر ایک دھوم مچی ہوئی تھی اور وہ اس ملک میں بائیں بازو کی طلبہ سیاست کے ایک روشن ستارے کی طرح چمکے تھے۔ کشمور سے کشمیر تک انکی تنظیم این ایس ایف یا نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا طوطی بولتا تھا۔ ایوب خان کی لاٹھی گولی کی سرکار تھی اور سامنے اسکے معراج محمد خان اور انکے وہ ساتھی تھے جنکے سر میں انقلاب کا سودا سمایا ہوا تھا۔ انیس سو ساٹھ، ستر، اسی اور نوے کی دہائیاں اور چاہے یہ دوہزاروی کے سارے سال جب سے معراج محمد خان نے ہوش سنبھالا و تادم آخر اپنی ہر ایک سانس اپنے اس وعدے پر قائم رہے جسکی گولی ہمیں فیض احمد فیض نے دی تھی کہ وہ دن کہ جسکا وعدہ ہے جو لوح قلم میں لکھا ہے۔ مگر خان صاحب اس گواہی پر قائم رہے۔ وہ جنہیں بھٹو نے ایک دفعہ اپنا سیاسی جا نشین قرار دیا تھا۔ ’’میں ایشیائی انقلابی ہوں اور اینگلو سیکسن پارلیمنٹیرین اگر میں گرفتار ہو گیا تو میری جگہ پر میرا سیاسی وارث معراج محمد خان ہوگا اور پارلیمان میں میرا وارث غلام مصطفی کھر۔" لیکن ا گر آج میں پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر نظر دوڑاتا ہوں مجھے بھٹو کی پارٹی میں بھٹو کے وارثوں سے زیادہ ضیا کے وارث نظر آتے ہیں۔‘‘بات بھٹو کی نہیں ہورہی بات معراج محمد خان کی ہور ہی ہے۔ لیکن کیا کیجیے کہ جب معراج محمد خان کی بات آتی ہو تو بھٹو کی بات لامحالہ آجاتی ہے۔ کیا کیجیے کہ انیس سو ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں پاکستان کی سیاست پر دو ہی کرشمہ ساز شخصیات ابھری تھیں۔ کرشمہ سازی میں کہیں کہیں تو معراج بھٹو سے آگے نکل جاتے ہیں۔ آج معراج محمد خان اس سیارہ زمین پر نہیں رہے ۔ معراج محمد خان تھڑے والوں، تانگے والوں، طلبہ ، مزدور کسانوں، خوانچـے والوں ، اخبار والوں ( بیچنےوالے ہاکروں) کی بات کرنے والا متوسط طبقے کا انقلابی۔ وہ اس لیے کہ برصغیر میں برطانوی استعماریت کے خلاف لڑنے والے علماء کے ساتھی مولانا تاج محمد کا بیٹا تھا۔ منہاج برنا ، سراج الدین با المعروف دکھی پریم نگری بھی انکے بھائی تھے۔ پورے کا پورا کنبہ انقلابیوں کا۔ سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے ، دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے۔‘‘ کاکوری سے کلکتہ تک جو مشرقی ہوائیں مغربی ہوائوں کا پیچھا کر رہی تھیں وہ کوئٹہ سے کراچی تک آن پہنچیں جب معراج محمد خان بڑے ہو رہے تھے۔ اور بقول نکے ایشیا سرخ ہورہا تھا۔ جب دنیا میں نوجوانوں اور طلبہ کا ابھار پیدا ہو رہا تھا۔ پیرس کے شانزے لیزا سے کراچی اور لاہور کے ریگل چوک تک۔۔ ایوب خان کی بدنام زمانہ بنیادی جمہوریتیں اور یونیورسٹی آرڈیننس۔ مسلم لیگ کا کنونشن جس پر قبضے سے وہ ان بارہ شہر بدر طلبہ میں شامل تھے جو پھر پورے ملک میں طلبہ تحریک کا ہر اول دستہ بن گیا۔ انہی شہر بدر طلبہ کے نام حبیب حالب نے کہا تھا:
فضا میں جس نے بھی اپنا لہو اچھال دیا
ستم گروں نے اسے شہر سے نکال دیا
یہی تو ہم سے رفیقان شب کو شکوہ ہے
کہ ہم نے صبح کے رستے پہ خود کو ڈال دیا
اسی کنونشن میں معراج کے ساتھی سید سعید حسن اور ایوب خان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہوئے تھے۔ پھر اسی بھٹو نے جب ایوب خان سے علیحدگی اختیار کی تو معراج محمد خان سید سعید حسن سمیت اپنے ساتھیوں کے ساتھ اسکی پی پی پی میں شامل ہوئے۔ اب بھٹو لیفٹسٹ سے زیادہ لیفٹسٹ نظر آتے تھے۔ بھٹو انہی نوجوانوں کے کاندھوں پر چڑھ کر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچے اور پھر سب سے زیادہ مار بھی اپنے ان ہی ساتھیوں سمیت بائیں بازو کے لوگوں اور قوم پرستوں کو لگائی۔ کیا معراج محمد خان، کیا جے اے رحیم، ، کیا سید سعید حسن اور عبدالوحید عرشی اور خورشید حسن میر۔ وہ وزیر ہوتے ہوئے بھی بانی پاکستان کے مزار پر ہڑتالی اساتذہ کے ساتھ یکجہتی کے طور ہر انکے احتجاج میں شامل تھے جب پولیس نے لاٹھی چارج میں انکا سر شدید زخمی کردیا تھا۔ اور انہیں گرفتار کرلیا تھا۔
انیس سو تہتر میں بلوچ سرکشی کے دوران معراج کے کئی ساتھی پہاڑوں پر بلوچ مزاحمت میں شامل ہوئے اور معراج خود نیپ اور بلوچ پشتون لیڈروں سمیت حیدرآـباد سازش کیس میں قید۔ یہ بھی معراج محمد خان ہی تھے جن پر بند کمرے میں مقدمہ چلانے والے جج کو ضیاء الحق کی حکومت میں سبکدوش کردیا گيا تھا ۔
ضیاءالحق نے جب ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹا تو انہوں نے حیدرآباد ٹربیونل توڑا جسکے نتیجے میں معراج محمد خان رہا ہوگئے تھے لیکن 1978میں پھر مساوات اخبار پر بندش کے خلاف تحریک میں وہ گرفتار کئے گئے ۔ انہیں جیل سے فوجی آمر ضیاءالحق نے راولپنڈی ملاقات کیلئے بلایا تھا اور مارشل لاء کی حمایت کرنے کو کہا تھا جسکے عوض انہیں وزارت کی بھی پیشکش کی تھی۔ لیکن انہوں نے ضیاءالحق سے کہا ’’بھٹو نے ملک کیلئے بہت کچھ کیا تھا اور اسے رہا کردیں۔‘‘پھر یہی معراج محمد خان تھے جو جنرل ضیاءالحق کے خلاف ایم آر ڈی یا تحریک بحالی جمہوریت کے کنوینر تھے اور کئی بار گرفتار بھی ہوئے۔یہ بھی معراج محمد خان جیسے سیاستدان کا خاصہ تھا کہ وہ بائیں ـبازو سے تعلق کے باوجود دائیں بازو کی پارٹیوں اور رہنمائوں کے ساتھ اتحاد قائم رکھتے تھے۔ پھر وہ جے یو آئی کے قاری شیر افضل ہوں کہ جے یو پی کے مولانا شاہ احمد نورانی یا پی ڈی پی کے نوابزادہ نصراللہ خان۔ معراج محمد خان سندھ کے حقوق کیلئے جی ایم سید کی سرکردگی میں بننے والے سندھ قومی اتجاد کے جلسوں میں بھی شامل رہے تھے۔ اور وہ اپنی شعلہ بیانی اور بے دھڑک سچائی کی وجہ سے سندھ کے نوجوانوں اور سیاسی کارکنوں میں بے حد مقبول تھے۔
وہ تمام زندگی جمہوریت اور سیکولرازم کے داعی رہے۔آج جب نہیں رہے تو کراچی سے لیکر کشمیر تک لوگ انکے سوگ میں ہیں۔ کوئی مجھ سے کہہ رہا تھا کہ کشمیر میں تو ایسے لگتا ہے کہ ایک بار پھر بھٹو مرگیا ہے۔ کیونکہ معراج محمد خان دونوں اطراف کے کشمیریوں میں کشمیر پر اپنے موقف کی وجہ سے این ایس ایف کے دنوں سے مقبول تھے کہ فقط کچھ سال قبل تک وہ کشمیر اجلاسوں میں شرکت کرتے رہے تھے۔ وہ کہتے تھے ’’ کشمیر نہ کبھی بھارت کاا ٹوٹ انگ تھا اور نہ پاکستان کی شہہ رگ ہے۔ کشمیر کشمیریوں کا ہے۔ ‘‘جب انکی صحت بہت خراب رہنے لگی تووہ ان اجلاسوں میں میرے دوست اور انکے دیرینہ ساتھی مومن خان کو بھیجا کرتے تھے۔ خرابی صحت کے باوجود انکی آخری شرکت انکے ساتھی رشید حسن خان کی یاد میں پی ایم اے ہائوس کراچی میں تعزیتی جلسے میں تھی جہاں وہ اپنے گھروالوں سےڈاکٹر ادیب رضوی سے اپنے طبی معائنے کا کہہ کر پہنچے تھے۔مومن خان انکے ساتھ تھے، میری یہ خوش قسمتی اور انکی بڑائی اور محبت تھی کہ وہ میرے ناقص کالم جنگ میں باقاعدگی سے پڑھا کرتے اور مجھے اپنی محبت بھری رائے بھی بھیجا کرتے تھے۔ انکی اولاد انکے بیٹے خاقان معراج اور بیٹی نتاشہ ہے، نتاشہ کہتے ہیں کہ اپنے ابا کی سیاسی بصیرت کی جھلک رکھتی ہیں۔ ایم کیو ایم کی خدمت خلق کمیٹی نے انکے آخری سفر کے انتظامات رضاکارانہ طور پر سنبھالے ہوئے تھے۔جبکہ انکے آخری سفر میں انکے بھی پرانے کئی ساتھی بھی شریک تھے۔ بس بقول فیض صاحب :
ہر خار رہِ دشت وطن کا ہے سوالی
کب دیکھئے آتا ہے کوئی آبلہ پا اور
آنے میں تامّل تھا اگر روزِ جزا کو
اچھا تھا ٹھہر جاتے اگر تم بھی ذرا اور



.
تازہ ترین