• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیراعلیٰ پنجا ب کا دماغ ہر وقت کسی نہ کسی پروجیکٹ کی نقشہ بندی میں مصروفِ عمل ہوتا ہے ۔عمل پر یقین رکھنے اور ترغیب سے متاثر ہونے کی صفت خوشبو کی طرح کسی بھی شعبے میں کسی بھی ملک سے بہتری کی خبر کو ان تک پہنچا دیتی ہے اور وہ فوراً اُسے پاکستان میں آزمانے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ بھلا ہو ان کے ساتھ کام کرنے والے افسران کا جو اتنی تیز رفتار اسکیموں کو باقاعدہ لائحہ عمل اور قانونی شکل میں ڈھال کر منصوبے کا آغاز کر دیتے ہیں۔ پچھلے دنوں انہوں نے روڈ سیفٹی کے حوالے سے ایک نہایت اہم منصوبے کا افتتاح کیا جس سے براہِ راست ہر شہری مستفید ہو گا۔ ہر شخص جانتا ہے کہ پاکستان میں ٹریفک حادثات کی سب سے بڑی وجہ سڑک پر ایسی گاڑیوں کا ہجوم ہے جو تکنیکی حوالے سے بہت سی خرابیوں کی حامل ہیں۔ اکثر بریک فیل ہونا اور انجن کی خرابی کے باعث گاڑیاں بے قابو ہو کر موت کی کھائی میں جا گرتی ہیں۔ اگر گاڑیوں کی جانچ پڑتال کی جائے تو پاکستان میں موجود پچاس فیصد سے زائد گاڑیاں تو فوراً بند کر دی جائیں۔ یہ بات صرف کاروں یا چھوٹی گاڑیوں تک محدود نہیں بلکہ پبلک ٹرانسپورٹ، ٹرکوں اور ٹرالوں کا بھی یہی حال ہے البتہ کئی گاڑیاں ایسی بھی ہوں گی جنہیں بیچ کر نئی شاندار سائیکل حاصل کی جا سکے گی۔ دوسرے نمبر پر ڈرائیونگ کے اصولوں سے بے بہرہ ہونے کی وجہ سے ٹریفک حادثات ہوتے ہیں۔ اکثر کم پڑھے لکھے لوگ جعلی ڈرائیونگ سرٹیفکیٹ لائسنس بنوا کر لوگوں کی زندگیوں سے کھیلتے ہیں۔ حکومتِ پنجاب نے سویڈش حکومت کے تعاون سے روڈ سیفٹی کا منصوبہ شروع کیا ہے جس کے مطابق ہر ضلع میں جدید آلات پر مشتمل کمپیوٹرائزڈ ادارہ قائم کیا جائے گا۔ ہر گاڑی کی مکمل چیکنگ کے بعد اسے کارڈ ایشو کیا جائے گا تبھی وہ سڑک پر لائی جا سکے گی۔ اس سے نہ صرف دھواں دیتی بوسیدہ اور کھٹارا گاڑیوں سے نجات ملے گی بلکہ بہت سے لوگوں کو روزگار بھی ملے گا۔ یہ سسٹم گاڑی کا ایکسرے کر کے اس کا تمام شجرہ بیان کرے گا اور اس میں موجود نقائص کی نشاندہی کرتے ہوئے اسے ٹھیک کرانے یا بند کرنے کا فیصلہ صادر کرے گا کیوں کہ گاڑیوں کی بھی ایک میعاد مقرر ہے۔ کاش انسانوں کے دل و دماغ کے لئے بھی کوئی ایسا سسٹم موجود ہو جو وحشت اور درندگی کی موجودگی کو منظر عام پر لا کر ان کے علاج کو دریافت کر سکے یا ان پر اس حد تک پابندی عائد کر سکے کہ ان کے قول و فعل سے دوسرے لوگوں کے احساسات مجروح نہ ہوں۔
تمام صوبوں کے وزیر اعلیٰ صاحبان روٹین کے مطابق اور روایتی حوالے سے اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔ وہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی طرح خواہ مخواہ نئے نئے initiative لینے کی بجائے طریقے سے کام چلا رہے ہیں اور اس میں نہ صرف پوری طرح کامیاب ہیں بلکہ مطمئن اور خوش بھی ہیں۔ بس انہیں ایک ہی گلہ ہے کہ لوگ بھلے ان پر جتنی مرضی تنقید کریں مگر میاں شہباز شریف سے ان کا موازنہ کرنے کی کوشش نہ کریں۔ اس سے ان کا مورال پست ہوتا ہے اور یہ کوئی اچھی بات نہیں نیز اس صورت حال کے پیش نظر کسی نہ کسی حوالے سے انہیں بھی پنجاب کی تقلید کرتے ہوئے دیر سے ہی سہی وہ منصوبے اپنے ہاں شروع کرنے پڑتے ہیں جن کے بارے میں وہ شروع میں شدید مخالفانہ بیانات دے چکے ہوتے ہیں۔
وزیر اعلیٰ نے انجان ڈرائیوروں کے حوالے سے کہا کہ ہر فرد کو وہی کام کرنا چاہئے جس میں اسے مہارت حاصل ہو۔ بھلا ایک چارٹرڈ اکائونٹنٹ جہاز کیسے اڑا سکتا ہے۔ (اس بیان سے شیخ رشید صاحب کو سمجھ لینا چاہئے کہ وہ کبھی جنرل بن سکتے ہیں نہ مارشل لاء لگا سکتے ہیں اور نہ ہی کسی محبِ وطن جنرل کو ڈکٹیٹ کر سکتے ہیں) ہمارے ہاں بے کار گاڑیاں وقت سے پہلے انسان کا وقت پورا کر دیتی ہیں اور بے کار ذہن وقت سے پہلے جاری منصوبوں کو ختم کرنے پر تُل جاتے ہیں اور ہم سب اُسے خدا کا لکھا سمجھ کر صبر کرنے پر مجبور کر دیئے جاتے ہیں۔ پاکستان کا سب سے بڑا یہی تو مسئلہ ہے۔ وقت ہی تو پورا نہیں کرنے دیا جاتا۔ ترقی کی موٹر وے پر دوڑتی گاڑیوں کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنا کھیل کا حصہ بنا دیا گیا ہے بلکہ نہ کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے کا نعرہ ہر وقت فضا میں گونجتا سنائی دیتا ہے۔
کچھ بوسیدہ گاڑیوں کی طرح انتشار سے بھرے دماغ بھی خیر کی کوئی خبر دینے سے عاری ہو چکے ہیں۔ ان کی بریکیں مطلب زبانیں اتنی بے قابو ہو چکی ہیں کہ غیر منطقی اورمنفی گفتگو سے چنگا بھلا انسان نہ صرف حیرت زدہ رہ جاتا ہے بلکہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ سیاست نے ان پر کوئی راز افشا نہیں کیا تو یہ کیوں ٹکریں مارتے پھر رہے ہیں۔ سیاست کا مطلب دلیل، حکمت اور سلیقے سے اپنے نظریے اور سوچ کو لوگوں تک پہنچانا ہوتا ہے۔ جن رہنمائوں کو لڑائی، گالی گلوچ اور بدتہذیبی کا مظاہرہ مقصود ہے تو پھر کسی اور شعبے کا انتخاب کرنا چاہئے۔ وہ سیاست سے نئی نسل کو بدظن نہ کریں۔ بہرحال رفتہ رفتہ ایسی گفتگو لطیفہ بازی میں بدلتی جا رہی ہے اور لوگوں نے اسے سیریس لینے کی بجائے اس سے لطف لینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
وزیر اعلیٰ اپنی ہر کامیابی اور کارکردگی کا کریڈٹ وزیراعظم کی رہنمائی سے مشروط کر کے مضبوط ریاست کی حاکمیت کا اعلان کرتے ہیں۔ وزیراعظم ایک شخصیت کا نام نہیں ہوتا بلکہ ایک ادارہ جو تمام صوبوں، قومیتوں اور اداروں کو ساتھ لے کر چلتا ہے۔ ریاست کا قانون اُسے تمام اداروں کی رہنمائی تفویض کرتا ہے۔ ایک قانون کی حکمرانی تسلیم کرنے سے ریاست قائم رہتی اور پھلتی پھولتی ہے۔ خدا کرے دیگر صوبے اور ادارے بھی اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنے فرائض سرانجام دیں اور کوتاہیوں کی باز پرس بھی سڑکوں کی بجائے قانون کے مطابق ہو۔
پریشر گروپ اور تنظیمیں اپنے کردار سے لوگوں پر واضح ہو چکی ہیں۔ اور سچی بات ہے لوگ روز روز کے ڈراموں سے تنگ آ چکے ہیں۔ احتساب کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں کو یہ کام اپنی ذات سے شروع کرنا ہو گا۔ ہم وزیر اعلیٰ پنجاب کے لئے دُعاگو ہیں۔تمام وزرائے اعلیٰ کے لئے بھی دعا ہے کہ خدا انہیں بھی وزیر اعلیٰ پنجاب جیسی بے چینی عطا کرے۔ وہ بھی ڈرائنگ روم سیاست سے باہر نکلیں، معاملات اور مسائل کاادراک کریں تا کہ پاکستان کا ہر گوشہ روشن اور ہر کونا ترقی کی راہ پر گامزن ہو۔ آمین۔



.
تازہ ترین