• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

طالبان کے خلاف آپریشن کے فیصلے کے باعث رہائی ملی ،علی حیدر گیلانی

لندن(مرتضیٰ علی شاہ )افغانستان میں کارروائی کے بعدطالبان کی قید سے رہائی پانی والے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے علی حیدر گیلانی نے کہا ہے کہ پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف 29فروری کو آپریشن ضرب عضب کے تحت وزیر ستان میں انتہا پسندوں کے خلاف آپریشن شروع نہ کرتے تو میری رہائی ممکن نہ ہوتی اور میں آج یہاں نہ ہوتا۔انھوں نے کہا کہ میرے اغواء کا منصوبہ پنچابی طا لبا ن نے بنایاتھا پھر مجھے القاعدہ (عربوں اور افغا نو ں )کے حوالے کردیا گیا تھا، لندن میں نمائندہ جیونیوز مرتضیٰ علی شاہ سے خصوصی بات چیت کرتےہوئے علی حیدرگیلانی نے کہاکہ رہائی کےبعد آرمی چیف سےایک گھنٹہ 15منٹ کی طویل ملاقات ہوئی لیکن سیاست پر کوئی بات نہیں ہوئی، ملاقات کے دوران میں نے طا لبا ن اور القاعدہ کے بارے میں ان کے سوالات کے جوا ب دیئے، میں نے انتہا پسندوں کے خلاف فوجی کارر وا ئی پر ان کاشکریہ ادا کیاکیونکہ پاک فوج کی جانب سے کارروائی کے خوف سے ہی اغوا کاروں نے مجھے افغا نستا ن منتقل کیا جہاں سے مجھے بالآخر رہاکرالیا گیا۔انھوں نے کہا کہ میری رہائی پر جنرل راحیل بہت خوش تھے۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ میرا بیٹا رہا ہوگیا ہے،میں نے جنرل راحیل شریف کو بتایا کہ طالبان ان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں،میں نے انھیں بتایا کہ طالبان صرف ان ہی سے خوف کھاتے ہیں جب جنرل راحیل شریف نے وانا، میر علی اوردتہ خیل کا دورہ کیا تو طالبان خوفزدہ ہوگئے تھے ۔اس بات نےطالبان کے حوصلے پست کردیئے تھے کہ جنرل راحیل شریف ان کے قریب آر ہے ہیں ۔سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کے بیٹے علی حیدر گیلانی نے چند میڈیا ہاؤسز کی جانب سے تاوان کے بدلے رہائی کی خبریں چلانے پر شکوہ کرتےہوئے ان خبروں کو بے بنیاد قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ اغواء کار بھاری تاوان کے علاوہ قیدیوں کاتبادلہ بھی چاہتے تھے ،اپنے مقاصد کے بارے میںان کا ذہن واضح تھا ۔ وہ میرے والد سے انتقام لینا چاہتے تھے، وہ پیپلز پارٹی کو اسامہ بن لادن کی ہلاکت، وانا ،وزیرستان اور سوات میں انتہا پسندوں کے خلاف آپریشن کا ذمہ دار سمجھتے تھے ۔وہ سمجھتے تھے کہ مجھے اغواء کرنے سے ان کو فائدہ ہوگا۔ علی حیدرگیلانی نے کہا کہ فیصل آباد میں مجھےجس جگہ قیدرکھاگیاتھا وہاں ایک ریٹائرڈ بریگیڈیر کوبھی رکھا گیا تھا، اغوا کاروں نے شروع میں فیصل آباد،بعد میں وزیرستان میں رکھا،پاک فوج کی کارروائی شروع ہوئی تو افغانستان منتقل کردیا گیا۔انہوں نے کہاکہ رہائی کے بعد آرمی چیف سے ملاقات میں ملکی سیکورٹی پربا ت ہوئی سیاست پرنہیں،جنرل راحیل شریف نے میری رہا ئی پر خوشی کااظہار کیا۔علی حیدرگیلانی نے کہا کہ طالبان ا نہیں اغواء کرکے پیپلزپارٹی کی قیادت سے سوات اور وزیرستان میں شروع کیے گئے آپریشنز کا بدلہ لینا چاہتے تھے، قید کے دوران دشمنوں کے ساتھ ساتھ دوستوں کی کارروائی میں بھی مارے جانے کا خطرہ رہتا تھا۔انھوں نے کہا کہ 3سال کی قید میری زندگی کے مشکل ترین دن تھے، یہ وہ وقت تھا جب زندہ رہنا مشکل اور مرنا آسان تھا۔میں نے انتہائی مشکل اور سخت دن گزارے، 2 سا ل تک میں زنجیروں میں بندھا رہااور  14ماہ اور 22دن تک تو میں نے سورج کی روشنی بھی نہیں دیکھی ،ان کے حوصلے پست کرنے کیلئے شدید ذہنی اور نفسیاتی تشدد کانشانہ بنایا گیا،مجھ پر جسمانی تشدد نہیں کیاگیا لیکن مجھے اپنے اہل خانہ اوردوستوں سے دور رکھاجانا ہی سب سے بڑا تشدد ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ وہ میرے حوصلے پست کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے لیکن الحمداللہ میں پہلے سے زیادہ مضبوط ہوگیا ۔ اپنے حواس بحال رکھنے کیلئے میں نے ڈائری لکھنا شروع کی۔میں نے اپنی کوٹھری کی دیوار پر 2کوڈ لکھ رکھے تھے یہ دوسروں تک پہنچے اور صبر کے نتیجے میں کامیابی نصیب ہوئی ،انھوں نے کہا کہ اغواء کے  2دن بعد ہی میں نے یہ محسوس کرلیاتھا کہ یہ ایک لمبی لڑائی ہے اور مجھے امید کادامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے۔ میں نے امید کادامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور زندہ بچ گیا۔انھوں نے کہا کہ انتہاپسندوں کے ساتھ بات چیت کے دوران میں نے انھیں امن مذاکرات میں شرکت کا مشورہ دیا تھا لیکن انھیں اپنی طاقت پر بہت زیادہ گھمنڈ تھا اور ان کا خیال تھا کہ پاک فوج ان کاکچھ نہیں بگاڑ سکتی لیکن جب آپریشن شروع ہوا تو وہ چوہوں کی طرح بھاگ کھڑے ہوئے، انھوں نے کہا کہ مجھے ہر وقت اپنے قتل کردیئے جانے کاخطرہ رہتا تھا، یہ خطرہ دو ستو ں اور دشمنوں دونوں کی جانب سے تھا، مجھے بہت زیادہ نقصان پہنچنے کااندیشہ تھا، مجھے ہروقت خطرہ رہتاتھا امریکی ڈرون حملوں سے بھی خطرہ تھا ،افغا ن افواج کی جانب سے ان پر کی جانے والی گولہ باری سے بھی خطرہ تھا پاکستانی فوج گولہ باری کرتی تھی،ہر وقت مجھے موت کا خدشہ رہتاتھا لیکن میں نے امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا ۔انھوں نے کہا کہ مجھے اپنی والدہ اور بیٹے کی یاد بہت آتی تھی، جب میں اغواء کیاگیا تو میرا بیٹا صرف ڈیڑھ سال کا تھا، لاہور میں جب میں اپنے اہل خانہ سے ملا وہ دن میرے لئے سب سے زیادہ خوشی کادن تھا،میں اس کی 3سالگرہوں میں شریک نہیں ہوسکا، میں اس کے اسکول کے پہلے دن  اس کے قریب نہیں رہ سکا۔ اپنے مستقبل کے منصوبوں کاذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ فی الوقت میں اپنی قید کے حوالے سے لکھ رہاہوں جہاں تک سیاست کاتعلق ہے میرے قائد بلاول بھٹو مجھے جو ذمہ داری سونپیں گے وہ میں پوری کروں گا ،علی حیدر گیلانی نے کہا کہ میرے والد یوسف رضا گیلانی ان کے رول ماڈل ہیں۔ میرے والد کبھی ناامید نہیں ہوئے،وہ بہت ہی باحوصلہ ، جرأت مند اور بہت صابر انسان اور میرے رول ماڈل ہیں۔ 
تازہ ترین