• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ترکی، 1684 جرنیل اور افسر فارغ، ہنگامی قانون کے تحت 131 اخبارات، ٹی وی چینلز اور میڈیا ہائوسز بند، 16000 افراد گرفتار

انقرہ (اے ایف پی، رائٹرز) ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد باغی عناصر اور ان کے سہولت کاروں کی گرفتاری اور انہیں ملازمت سے برطرف کیے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ ملک میں تین ماہ کیلئے نافذ ایمرجنسی کے تحت حکومت نے 149؍ جرنیلوں سمیت 1684؍ افسران کو برطرف کر دیا گیا ہے جبکہ نئے فوجیوں کی تقرریوں کیلئے اعلیٰ فوجی قیادت کا اجلاس بھی ہوا جس میں مختلف اقدامات پر غور کیا گیا۔ ملک میں نافذ ہنگامی قانون کے تحت 131؍ اخبارات، ٹی وی چینلوں اور میڈیا ہائوسز کو بند کر دیا گیا ہے جبکہ اب تک مجموعی طور پر 16؍ ہزار افراد کو باغیوں کی معاونت اور ہمدردی رکھنے کے الزام کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق جمعرات کو سینئر ترک فوجی قیادت کا اجلاس ہوا جس میں آدھے سے زیادہ برطرف کردہ جرنیلوں کی خالی اسامیوں پر بھرتیوں کے معاملے پر غور کیا گیا۔ جلد بازی میں طلب کیے گئے اجلاس میں ترک جرنیلوں کی مجموعی تعداد 358؍ کی تقریباً آدھی تعداد 149؍ جرنیلوں کو برطرف کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اتنی بڑی تعداد میں کی جانے والی گرفتاریوں پر بین الاقوامی برادری کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ بغاوت کے بعد کی صورتحال کے پیش نظر سپریم ملٹری کونسل (وائی اے ایس) کا اجلاس فوجی ہیڈکوارٹرز کی بجائے وزیراعظم کے محل میں ہوا اور یہ پانچ گھنٹے تک جاری رہا جس میں وزیراعظم بن علی یلدرم اور فوجی رہنمائوں کے درمیان مختلف آپشنز پر غور کیا گیا۔ اجلاس کے بعد وزیراعظم یلدرم صدر رجب طیب اردوان سے مشاورت کیلئے صدارتی محل روانہ ہوگئے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس کے نتائج کے حوالے سے جلد ہی اعلان کیا جائے گا۔ دوگان نیوز ایجنسی کے مطابق اجلاس سے قبل لینڈ فورسز چیف آف اسٹاف جنرل احسان اویر اور ٹریننگ اینڈ ڈاکٹرائین کمان کے سربراہ جنرل کامل باسگولو نے استعفیٰ دیدیا جبکہ دیہی علاقوں کی حفاظت پر مامور فورسز (جینڈارمیری) اور کوسٹ گارڈز کو جنرل اسٹاف کنٹرول سے لے کر وزارت داخلہ کے ماتحت کر دیا گیا ہے۔ اے ایف پی کے مطابق خالی عہدوں کو پر کرنے کیلئے نچلے رینک کے فوجی افسران کو ترقی دیئے جانے کا امکان ہے۔ گزشتہ روز ہٹائے گئے فوجیوں میں سے 149؍ جرنیل، 436؍ جونیئر افسران اور 1099؍ افسران شامل ہیں۔ دریں اثناء حکومتی اقدامات کے تحت 3؍ نیوز ایجنسیاں، 16؍ ٹی وی اسٹیشنز، 23؍ ریڈیو اسٹیشنز، 45؍ اخبارات، 15؍ میگزین اور 29؍ پبلشرز کو بند کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ سرکاری گزیٹ میں ان اداروں کے نام نہیں بتائے گئے لیکن سی این این ترک چینل کی جانب سے حاصل کی گئی فہرست کے مطابق ان میں کچھ صوبائی ادارے ہیں لیکن ان میں کچھ مقبول قومی میڈیا میں بھی شمار کیے جاتے ہیں۔ بند کیے جانے والے اخبارات میں اپوزیشن کے مقبول اخبارات زمان اور طرف شامل ہیں۔ حکام نے 42؍ صحافیوں کو رواں ہفتے گرفتار کیا گیا تھا جبکہ زمان اخبار کے 47؍ اسٹافرز کی گرفتاری کے وارنٹ بھی جاری کیے گئے تھے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ صحافیوں کو پکڑنا اور میڈیا ہائوسز کو بند کرنا برسوں کی سرکاری پابندیوں کا شکار میڈیا پر ایک اور حملہ ہے۔ دوسری جانب امریکا نے ترکی کو مطلوب مذہبی رہنما فتح اللہ گولن کی حوالگی کے متعلق محتاط رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ترکی اس بات کے شواہد فراہم کرے کہ ملک میں ہونے والی بغاوت میں گولن کا ہاتھ ہے۔ ترکی کے وزیر برائے انصاف باکر بوزداگ کا کہنا ہے کہ گولن کی امریکا بدری ہنگامی معاملہ ہے کیونکہ ترکی کے پاس انٹیلی جنس معلومات ہیں کہ فتح اللہ گولن ممکنہ طور پر آسٹریلیا، میکسیکو، کینیڈا، جنوبی افریقا یا پھر مصر فرار ہونے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ مصر کا کہنا ہے کہ اسے فتح اللہ گولن کی طرف سے پناہ کی کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی۔ امریکا اور یورپی یونین نے ترکی سے کہا ہے کہ وہ گولن کے مشتبہ حامیوں کیخلاف کریک ڈائون کے معاملے میں صبر و تحمل کا مظاہرہ کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ گرفتار شدگان کو میرٹ پر انصاف ملے۔
تازہ ترین