• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیااسلام آبادوالوں کابلڈگروپ کراچی سے اچھاہے؟سپریم کورٹ

کراچی ( بلال احمد/اسٹاف رپورٹر) سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اسلام آباد کے سیف سٹی منصوبے پر اربوں روپے خرچ کیے گئے اور کراچی میں کیمروں کے لیے بھی فنڈز نہیں‘کیااسلام آبادوالوں کا بلڈگروپ کراچی والوں سے زیادہ اچھاہے۔جمعرات کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں بنچ نے کراچی بد امنی عملدرآمدکیس کی سماعت کی۔اس موقع پرچیف جسٹس نے کہا کہ شہر میں دو فوجیوں کی شہادت ہوئی اور پتہ چل رہا ہے کہ وہاں بھی کیمرے خراب تھے‘ چیف سیکرٹری نے کہا کہ کیمروں کی اپ گریڈیشن ضروری ہے‘ اس حوالے سے سندھ حکومت نے بجٹ بھی منظور کر لیا ہے جس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ دو میگا پکسل کے کیمروں کی منٹیننس کا مطلب کروڑوں روپے پھر ضائع کرنا ہیں اور پہلے ہی اس مد میں اربوں روپے ضائع کر دیے گئے ہیں ، چیف سیکرٹری کی رپورٹ کا جائز ہ لینے کے بعد جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ چیف سیکرٹری کی رپورٹ بہت الارمنگ ہے‘2010ء میں820 کیمرے لگائے گئے جس میں صرف 17کام کر رہے ہیں‘جسٹس خلجی عار ف حسین نے کہا کہ جو کیمرے ملزم کو شناخت ہی نہیں کر سکتے ان کی منٹیننس کا کیا جواز بنتا ہے ، دوران سماعت آئی جی سندھ نے کہا کہ وہ سندھ پولیس کو کیمرے لگانے کے معاملے سے الگ رکھا جائے کیونکہ ان کے پاس اس شعبہ سے متعلق مہارت نہیں ،چیف سیکرٹری سندھ نے بتایا کہ کراچی کے لیے سیف سٹی کا منصوبہ لایا جا رہا ہے اور اس کے لیے آئی ٹی ڈپارٹمنٹ سے مدد لی جا رہی ہے‘ جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمار کس دیے کہ آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ ایک قیدی کی شناخت کا نظام وضع نہیں کر سکا‘ حکومت کا کوئی ادارہ فعال نہیں‘ آئی ٹی ڈپارٹمنٹ کو بند کرکے اسے آؤٹ سورس کر دینا چاہے‘ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ جب اسلام آباد سیف سٹی کا منصوبہ بنایا گیا تو اس وقت اسلام آباد کے حالات زیادہ خراب تھے یا کراچی کے،اسلام آبا دمیں پہلے سیف سٹی کا منصوبہ بناکر ایک ہزار سے زیادہ کیمرے لگا دیے گئے ،کیا اسلام آباد والوں کا بلڈ گروپ کراچی والوں سے زیادہ اہم ہے ، اسلام آباد اور کراچی کے شہریوں کے خون میں زیادہ فرق نہیں‘ اسلام آباد میں اربوں روپے لگائے جا سکتے ہیں تو کراچی میں کیوں نہیں ، چیف جسٹس کے استفسار پر عدالت کو بتایا گیا کہ 5ہزار ملین کی لاگت سے لگائے گئے کیمرے خراب ہو چکے ہیں جن کی منٹیننس کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا تھا۔
تازہ ترین