• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جنرل راحیل کی مدت ملازمت میں توسیع پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے ،امریکی سفیر

کراچی(ٹی وی رپورٹ)امریکی سفیر برائے پاکستان ڈیوڈ ہیل نے جیو کے پروگرام’’ کیپٹل ٹاک‘‘ میں میزبان حامد میرسے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے اور اس طرح کے معاملات پر کوئی پوزیشن نہیں لیتے۔ ضرب عضب کامیابی سے چل رہاہے، اس کی وجہ سے پورے پاکستان میں امن ہے۔افغانستان میں امن لانے کیلئے روڈ میپ بہت سادہ ہے طا لبان کو قائل کیا جائے کہ پر تشدد ہونا چھوڑ دیں۔بارڈر مینجمنٹ پرپاکستان اور افغا نستا ن کے درمیان مثبت اقدامات کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ پاکستان سے تعلقات مضبوط ، دیرپا اور وسیع ہیں۔ جمہور یت کی مکمل حمایت کرتے ہیں، جمہوریت سے ہی  استحکام پیدا ہوگا۔2018میں یقینا الیکشن ہونگے جن کی ہم بھر پور حمایت کرتے ہیں۔ ایٹمی ہتھیاروں کے حوالے سے دو چیز یں اہم ہیں استحکام اور تحمل اور یہ دونوں چیزیں پاکستان کے اپنے مفاد میں ہیں۔سی پیک کی مکمل سپورٹ کرتے ہیں، اس سے سرمایہ کاری اور معاشی ترقی کے امکانات پیدا ہوں گے اور ہر ایسے منصوبے کی حمایت بھی کرتے ہیں۔کشمیر سے اموات اور تشدد کے جو واقعات منظر عام پر آئے ہیں ہمیں اس پر بے حد تشویش ہے اور ہم نے تشدد روکنے پر زور دیا ہے۔کشمیر پر بات چیت کے خدو خا ل کیا ہونے چاہئے پاکستان اور بھارت کو مل کر اس کا حل نکالنا ہے اور دونوں ممالک کو قریب لانے والے ہر اقدام کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پروگرام کے میزبان حامد میر کے مختلف سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کیا۔ ڈیوڈ ہیل نے بتایا کے وہ 33سال سے سفا رتکار ہیں اور میں جس خاندان سے تعلق رکھتا ہوں وہ سفر و سیاحت کیا کرتے تھے، میں چھوٹا تھا تو وہ مجھے قصے سنا یا کرتے تھے سرحد پار کے، اس سے مجھے احساس ہوا کہ دنیا کے ممالک کے ساتھ امریکا کے تعلقات انتہائی اہم ہیں اورمجھے اس کا حصہ بننا چاہئے۔میں نے زیادہ کا م وسطی ایشیا میں کیا ہے جیسے اردن ، لبنان ، سعودی عرب اور کئی ممالک شامل ہیں۔میری  پہلی تعیناتی سعودی عرب میں ہی ہوئی تھی اس کے علاوہ بحرین، تیونس میں بھی تعینات رہا لیکن زیادہ کام لبنان اور اردن میں کیا۔ میں تھوڑا بہت عربی بھی بول لیتا ہوں لیکن اردو کے معاملے میں نیا ہوں اور سیکھ رہا ہوں اردو بولنا لیکن جب میں یہاں سے جاؤنگا امید کرتا ہوں اردو زبان میں گفتگو کے قابل ہو جاؤں گا۔ سفاتکار اولسن کو پاکستان کے کھانے اور منٹر کو یہاں کے پرندے بہت پسند تھے آپ کو پاکستان میں کیا اچھا لگتا ہے؟ مجھے پاکستان کے لوگ بہت پسند ہیں اور سفارتکاری میں ہمیں بہت سے لو گوں سے ملنے کا موقع ملتا ہے، پاکستان ایک بھرپور معاشرہ ہے یہاں بہت تنوع ہے، بہت سی جہتیں ہیں، میں کراچی بھی چار بار آچکا ہوں، کراچی متحرک شہر ہے اور وہاں مضبوط کاروباری طبقہ موجود ہے، متاثر کون لوگ ہیں، کراچی میں ہمارے یو ایس ایڈ کے پروگرا م صحت اور تعلیم کیلئے جاری ہیں، کرچی کی اسٹاک ایکسچینج میں بھی میں نے وقت گزارا ہے اور وہاں منگل کو افتتاحی گھنٹی بجانے کا بھی مجھے اعزاز ملا ہے اور یو ایس ایڈ نے اسٹاک ایکسچینج کیلئے تکنیکی معاونت مہیا کی اور اب یہ ایشیا کی سب سے مضبوط اسٹاک ایکسچینج ہے ۔کراچی کے علاوہ میں دو مرتبہ لاہورگیا ہوں،اس کے علاوہ پشاور ، جیکب آباد، شمالی علاقہ جات  اور ٹیکسلا بھی جانے کا موقع بھی ملا اور مجھے ہر جگہ متاثر کون لوگ ملے ۔ ہمارے بہت سے پروگرام ہیں نو جوانوں کیلئے اور ان کیلئے کام کرنا بے حد مفید ہے۔ پاکستان کے پھلوں میں مجھے آم بہت پسند ہیں اسکے علاوہ بھی مجھے پھل اچھے لگتے ہیں ۔ سینیٹر جان مکین نے حالیہ دنوں پاکستان کا دورہ کیا اور انہوں نے فائننشل ٹائمز میں ایک آرٹیکل بھی لکھا جو 26جو لائی کو شائع بھی ہوا۔ اس آرٹیکل میں پاکستان سے متعلق مثبت باتیں موجود ہیں لیکن کیا آپ جان مکین کی اس بات سے اتفاق کریں گے کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں کشید گی ہے؟کا جواب دیتے ہوئے ڈیوڈ ہیل نے کہا کہ یہ بہت اہم ہے کہ آپ از سر نو تعلقات کا جائزہ لیں، مکین ایسا کرنے کی پوزیشن میں ہیں اور وہ ہمارے بہت قابل اور تجربہ کار  سینیٹر  ہیں۔ وہ پاکستان سے بہت اچھی طرح واقف ہیں انہوں نے مختلف زاویوں سے تعلقات کا مشاہدہ بھی کیا ہواہے تو میں ان کی رائے کا احترام کرتا ہوں لیکن آج پاکستان سے تعلقات مضبوط ، دیرپا اور وسیع ہیں، مضبوط اس لئے ہیں کہ ہمارے بہت سے اہم مشترک معاملات ہیں، ہمارے تعلقات دیر پا اس لئے ہیں کیونکہ یہ ستر سال سے قائم ہیں اور جاری رہیں گے اور وسیع اس لئے ہیں کہ یہ کثیر الجہت ہیں معیشت سے لیکر سیکورٹی تک، ان کے بارے میں تفصیل سے بات کر کے مجھے خوشی ہوگی۔ جنرل مکین کے انٹرویو کے بعد ایک تنازع  پیدا ہوا کیا انہوں نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت کی توسیع کے بارے میں کوئی بات کہی تھی؟ کا جواب دیتے ہوئے ڈیوڈ ہیل نے کہا کہ جب جان مکین یہاں موجود تھے تو میں ملک سے باہر تھا تو میں صر ف انتظامیہ کی بات کر سکتا ہوں، اور ہماری نظر میں یقینا یہ پاکستان اور پاکستانیوں کا اندرونی معاملہ ہے اور اس طرح کے معاملات پر کوئی پوزیشن نہیں لیتے۔ جنگی جہازوں سے متعلق سوال کہ ایف 16کے طیاروں کیلئے امریکا نے رقم دینے سے انکار کردیا ہے کیا اس سے دونوں ممالک کے تعلقات پر منفی اثر نہیں پڑے گا؟ کا جواب ڈیوڈ ہیل نے کچھ اس طرح دیا کہ ہمیں چیزوں کو مختلف انداز میں دیکھنا ہوگا ، اگر آپ سیکورٹی کی بات کریں تو چیزیں آگے بڑھی ہیں، میں جب کراچی میں تھا تو میں کاروباری لوگوں سے ملا۔ ان سے بات چیت کی تو انہوں نے کہا کہ دو سال پہلے وہ اس طرح کی میٹنگ میں شرکت کیلئے نہیں آسکتے تھے اور آج ان کو وہ مشکلات نہیں ہیں۔ آئی ایم ایف کے اعداد و شمار کے حساب سے معیشت بہتر ہورہی ہے ساتھ ساتھ جمہوریت بھی مضبوط ہورہی ہے اور امریکا ان دونوں معاملات میں پاکستان کی مدد کر رہا ہے۔ایف16کے معاملے میں معاملہ سبسڈی دینے کا تھا سیل یا ٹرانسفر کا نہیں تھا،پاکستان کے پاس کئی ایف16موجود ہیں اور سبسڈی کے معاملے میں ہمیں کانگریس میں اعتراض کا سامنا کرنا پڑا وہ اعتراض حقانی نیٹ ورک سے متعلق تھا جس کے ابھی تک پاکستان میں محفوظ ٹھکانے موجود ہیں جو امریکااور افغانستا ن کے مفاد کے خلاف کام کر رہا ہے ، یہی مسئلے کی جڑ ہے یہ بہت حوصلہ افزا بات ہے کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان سیکورٹی کے حوالے سے مضبوط پارٹنر شپ ہے، ضرب عضب کامیابی سے چل رہاہے اس کی وجہ سے پورے پاکستان میں امن ہے۔پاکستانی بھی مسلح گروہوں کی موجودگی میں چین کی نیندنہیں سو سکتے، ہم اس بات کو یقینی بنا نا چاہتے ہیں کے پاکستان سے پڑوسی ممالک کے خلاف کارروائیاں نہ ہوں جس کا اعادہ آپ کے آرمی چیف نے 6جولائی کو کیا ۔ ہماری پوری کوشش ہو تی ہے کہ ہمارے اقدامات امریکی اقدار اور انسانی حقوق کے عالمی معیار کے مطابق ہوں ، ہم پاکستان کے ان تمام اقدامات کا خیر مقدم کرتے ہیں جو افغانستان او رامریکا کے تعاون سے بارڈر کو محفوظ بنانے کیلئے کئے جاتے ہیں۔جہاں تک مشترکہ حکمت عملی کی بات ہے تو ایسا تعاون پاکستان ، امریکااور افغانستان تینوں کے مفاد میں ہے۔میزبا ن کے سوال کیا پاکستان اورامریکا دونوں کو مطلوب افراد کو ٹارگٹ کرنے کیلئے کوئی مشترکہ حکمت عملی بنائی جاسکتی ہے؟ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ دہشتگردوں کو ختم کرنے میں کس طرح پاکستان کی مدد کرنی ہے ، سرحد کی دوسری طرف جو ہو رہا ہے وہ بھی اہم ہے امریکا خود بھی آپریشن کر تا ہے جیسا کے حال ہی میں ہم نے آرمی پبلک اسکول حملے کے ماسٹر مائنڈ کو کامیابی سے نشانہ بنا یا۔ ملا ا ختر کی ہلا کت کے بعد پاکستان کے تعاون سے ہونے والے افغان امن کے مذاکرات کے مستقبل پر گفتگو کرتے ہوئے ہیل نے کہا کہ اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ افغانستان میں استحکام صرف مذاکرات اور مفاہمت کے ذریعے ہی آسکتا ہے اور ہم اس معاملے میں پاکستان کی کمٹمنٹ کو سراہتے ہیں ، ہارٹ آف ایشیا کانفرنس سے ابھی تک پاکستان کی کاوشیں اس کا ثبوت ہیں لیکن طالبان مذکرات میں دلچسپی نہیں لیتے اور انہوں نے دو بار پاکستان کی پرخلوص کوششوں کا جواب بھی نہیں دیا اور تشدد کاراستہ اپنا یا، طا لبان کے رویے کو بدلنے کی ضرورت ہے انہیں یہ ترغیب دینا ہوگی کہ مذاکرات ہی مسئلے کا حل ہیں۔پاکستان کے نیو کلیئر پروگرام پرا مریکا کی کیا رائے ہے؟کے جواب میں ڈیوڈ ہیل نے کہا کہ اس پر ہمارا ایک گلوبل نقطہ نظر ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں کے حوالے سے دو چیزیں اہم ہیں استحکام اور تحمل اور یہ دونوں چیزیں پاکستان کے اپنے مفاد میں ہیں۔پاکستان چاہے گا کہ عالمی برادری ایٹمی ہتھیاروں کے حوالے سے ایک ذمہ دار ملک کے طور پر جانے ۔ہمیں ایٹمی ہتھیاروں کی بڑھو تری اور اس سے پید ا ہونے والے ممکنہ خطرات پر تشویش ہے اور اس بات پر بھی تشویش ہے کہ کسی قسم کے تنازعات کو ہوا ملنے پر کیا نقصانات ہو سکتے ہیں، سیکیورٹی اور استحکام کے حوالے سے پاکستان سے بات چیت بھی جاری ہے۔پاکستان کے چھوٹے ہتھیاروں پر رائے دیتے ہوئے ہیل نے کہا کہ چھوٹے ہتھیار بھی ایک خطرہ ہیں ان کے سائز کی وجہ سے انہیں ادھر ادھر لے جانا آسان ہے اور چوری کا امکان بھی زیادہ ہے۔پاکستان سے تو چھوٹا ہتھیار کبھی چوری نہیں ہوا؟اس پر ڈیوڈ ہیل نے کہا کہ میں مستقبل کی اور امکانات کی بات کر رہا ہوں۔ انڈیا کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ڈیوڈ ہیل  نے کہا کہ ہمارا ایک عالمی نقطہ نظر ہے اور بھارت سے ہماری بات چیت بھی انہی خطوط پر ہے۔ امریکا انڈیا کے نیو کلیئر سپلائر گروپ میں شمولیت کی حمایت کرتے ہیں کیا یہ تضاد نہیں؟ کا جواب دیتے ہوئے ڈیوڈ ہیل نے کہا کہ نیو کلیئر گروپ کا معاملہ مختلف ہے۔ این ایس جی کی رکنیت مشترکہ رائے سے طے ہوتی ہے اور فیصلہ میرٹ پر ہو تاہے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشید گی میں امریکا کیا کردار ادا کرسکتاہے؟ کا جواب دیتے ہوئے ڈیوڈ ہیل نے کہا کہ ہم اس بات کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ دونوں ممالک براہ راست بات چیت کریں ، اختلافات کے حل کیلئے راستہ نکالیں ، امر یکا کے دونوں سے تعلقات ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ معاملات ملا قاتوں کے ذریعے حل کئے جائیں۔ حامد میر کے سوال کہ کشمیر کا مسئلہ حل کئے بغیر جنوبی ایشیا میں امن نہیں آسکتا ؟ کا جواب دیتے ہوئے ڈیوڈ ہیل نے کہا کہ کشمیر سے اموات اور تشدد کے جو واقعات منظر عام پر آئے ہیں ہمیں اس پر بے حد تشویش ہے اور ہم نے تشدد روکنے پر زور دیا ہے۔
تازہ ترین