• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پی ٹی آئی ریفرنس میں توجہ وزیراعظم اور اہل خانہ پر، اسحاق ڈار یکسر نظرانداز

اسلام آباد (انصار عباسی)  قومی احتساب بیورو نے اس بات پر حیرانی کا اظہار کیا ہے کہ پی ٹی آئی نے حال ہی میں کرپشن پر چیخ و پکار کرتے ہوئے اسحاق ڈار کیخلاف نیب میں کرپشن ریفرنس دائر کرنے کا اعلان کیا تھا تاہم بیورو میں جمع کرائے جانے والے ریفرنس میں پارٹی نے اسحاق ڈار کیخلاف کوئی شکایت نہیں کی۔ نیب ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی جانب سے نیب میں گزشتہ پیر کو جمع کرائے جانے والے ریفرنس میں وزیر خزانہ کا کوئی ذکر نہیں ہے، یہ ریفرنس صرف وزیراعظم نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کیخلاف ہے۔ پی ٹی آئی کے جمع کردہ ریفرنس کے عنوان میں اسحاق ڈار کا نام شامل ہے اور نہ ہی درخواست میں ان کیخلاف کسی طرح کی کارروائی کی درخواست کی گئی ہے۔ عنوان میں صرف نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کا ذکر ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ ’’نیب آرڈیننس مجریہ 1999ء کے سیکشن 18 بی دوم کے تحت میاں نواز شریف، جو فی الوقت وزیراعظم پاکستان کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے ہیں، اور ان کے اہل خانہ کیخلاف سیکشن 9؍ کے حوالے سے کرپشن اور بدعنوانی کی شکایت۔‘‘ نیب ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی جانب سے دائر کیے گئے 7؍ صفحاتی ریفرنس میں وزیر خزانہ کیخلاف کوئی شکایت نہیں کی گئی اور عوام کے سامنے پی ٹی آئی نے وزیر خزانہ کیخلاف جو مہم چلائی اس کا ریفرنس میں کہیں بھی ذکر نہیں۔ ریفرنس کے پیرا نمبر 4؍ میں اسحاق ڈار کی جانب سے ’’25؍ اپریل 2000ء کو جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے کیے گئے اعتراف کا ذکر ہے کہ وہ 14،886؍ ملین ڈالرز کی منی لانڈرنگ کا حصہ تھے۔‘‘ پی ٹی آئی نے اسحاق ڈار کے اعترافی بیان کا ذکر کرتے ہوئے اصرار کیا ہے کہ کرپشن کے ان تمام الزامات کے تانے بانے میاں نواز شریف کے خاندان سے جا کر ملتے ہیں۔ آخری پیرا نمبر 6؍ میں پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ اسحاق ڈار کے منی لانڈرنگ میں مبینہ کردار کو ان کیخلاف کیس کے طور پر نہیں بلکہ نواز شریف کیخلاف شواہد کے طور پر پیش کیا ہے۔ اسی پیرا میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’پاناما لیکس کی روشنی، اسحاق ڈار کے اعترافات، دیگر ضروری شواہد، منی لانڈرنگ، اسے چھپانے کی ناکام کوششوں، لندن میں 1993ء سے 1996ء کے درمیان خریدی گئی جائیدادوں اور بعد میں ان جائیدادوں کیلئے لیے گئے قرضوں، لندن اور ایگزیکیوشن کے فیصلے، پارک لین کی جائیداد خریدے جانے کی تصدیق پر مشتمل بی بی سی کی رپورٹ (جس میں بتایا گیا ہے کہ نواز شریف کا خاندان معمولی کاروباری خاندان سے امیر ترین سیاست دان کیسے بنا)، ریمنڈ بیکر کی کتاب جس میں نواز شریف پر لاکھوں ڈالرز کی کرپشن کا الزام عائد کیا گیا جن کی تردید نہیں کی گئی اور نہ ہی شریف خاندان کی جانب سے ہتک عزت کا کیس دائر کیا گیا، یہ سب باتیں ایسا ناقابل فرار نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ تحت نیب آرڈیننس کے تحت جرائم کا ارتکاب ہوا ہے۔ حال ہی میں نیب نے یہ معلوم ہونے کے بعد اسحاق ڈار کی خلاف انکوائری بند کردی تھی کہ نیب کی جانب سے ہائی پروفائل سیاست دان کو بلیک میل کیا گیا اور ادارے کے اپنے ہی عہدیداروں کی کیس بند کرنے کی سفارشات کی گئی تھیں کیونکہ کیس میں ملزم کیخلاف کبھی کوئی شواہد ملے ہی نہیں تھے۔ نیب کی انکوائری میں معلوم ہوا کہ سات مختلف افسران نے تحقیقات کے دوران اسحاق ڈار کیخلاف کیس بند کرنے کی سفارش کی تھی لیکن 2000ء کے بعد یکے بعد دیگرے آنے والے چیئرمین نے کیس کو فی الحال التوا میں رکھنے کا حکم دیا۔ بند کی جانے والی انکوائری میں اسحاق ڈار پر منی لانڈرنگ کے الزامات اور اعترافی بیان بھی شامل تھا۔ نیب کی دستاویزات کے مطابق،اسحاق ڈار کیخلاف سات مرتبہ مختلف انکوائری افسران نے الزامات کی تحقیقات کی ہیں اور ہر مرتبہ یہی سفارش کی گئی کہ ’’کیس بند کردیا جائے‘‘۔ لیکن 2000ء سے لے کر یکے بعد دیگرے آنے والے چیئرمین نے یہی ہدایت دی کہ فی الحال کیس کو روکے رکھیں۔  نیب دستاویزات کے مطابق، اسحاق ڈار کے خلاف پانچ میں سے ایک الزام یہ تھا کہ انہوں نے شریف خاندان کو بھاری قرضے دلوائے۔ اس معاملے پر نیب نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ’’دستیاب ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ اتفاق گروپ نے ہجویری مضاربہ (پرائیوٹ) لمیٹڈ سے قرضہ حاصل کیا۔ ملزم اسحاق ڈار پر مدد کا الزام تھا۔ اتفاق گروپ کیخلاف غیر قانونی یا فراڈ پر مبنی قرضوں کا کوئی کیس کسی بھی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔ لہٰذا، مدد کیلئے کوئی کیس نہیں ہو سکتا۔ ملزم پر شریف خاندان کیلئے حدیبیہ انجینئرنگ پرائیوٹ لمیٹڈ میں منی لانڈرنگ کرنے کا بھی الزام تھا۔ لیکن، لاہور ہائی کورٹ 11 مارچ 2014 کو یہ کیس ختم کر چکی ہے۔
تازہ ترین