• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیر اعظم میاں نواز شریف کی حکومت خوش ہے کہ ہم نے میٹرو بس چلا دی، میٹرو ٹرین بنانے کا بھی فیصلہ کر لیا، موٹر وےکے جال کو ملک بھرمیں پھیلایاجا رہاہے، بجلی پیدا کرنےکےنئے پلانٹ لگ رہے ہیں، پاک چائینا راہداری کے منصوبوں پر بھی کام ہو رہا ہے، رنگ روڈز، پل ، انڈرپاس بنائےجارہےہیں۔لیکن جب کوئی حکمرانوں سے سوال پوچھتا ہے کہ آپ نے اپنے ڈھائی سالہ دور میں اداروں کو مضبوط بنانےکےلیے کون کون سی اصلاحات کیں تو اُن کی سٹی گم ہو جاتی ہے۔ وہ آئیں بائیں شائیں کرنےلگتے ہیں۔ اب تک حکومت کاسارا زور ترقیاتی منصوبوں تک محدود رہا جبکہ عوام کی زندگیوںمیںبہتری لانےاور ان کے حقوق کے حصول کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل جامع اصلاحاتی ایجنڈا کوئی اہمیت حاصل نہ کر سکا۔ حکومت اپنے بقیہ دور حکومت میں اس سلسلے میں کیا کرتی ہے اس کےلیے سال 2016 ہی حکمرانوں کو یہ موقع فراہم کرتاہے کہ وہ اس انتہائی اہمیت کے حامل اس فرض کو نبھائیں اس سے پہلے کہ بہت دیرہو جائے۔ عوام کو اگر بہتر سفری سہولتوں کی ضرورت ہے، وہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا جلد از جلد خاتمہ چاہتے ہیں، انہیں اونچی عمارتیں ، خوبصورت پل، ائیر کنڈیشنڈ بسوں یا جدید ٹرین سسٹم چاہیے تو اس سے کہیں زیادہ لوگ جلد انصاف کی فراہمی کےلیے ترس رہے ہیں۔ وہ پولیس اور سول سروس کے موجودہ نظام سے انتہائی تنگ ہیں۔ انہیں جھوٹے مقدمات اور جعلی ایف آئی آرز کا سامنا ہے۔ وہ عزت کے ساتھ میٹرو میں سفر تو کرتےہیں لیکن جب وہ اس سفر کے بعد تھانہ کچہری یا کسی سرکاری دفتر میں پہنچتے ہیں تو انہیں ذلیل کر دیاجاتاہے۔ اُن کو جائز کام کےلیے بھی سفارش یا رشوت کی ضرورت ہوتی ہے۔ سرکاری ادارے اپنا کام ذمہ داری سے ادا کرنے کی بجائے عوام کی مشکلات اور شکایات کے حل کےلیے کچھ ایسا طرز عمل اپنائے ہوئے ہیں کہ جیسے اپنا کام کر کے وہ لوگوں پر احسان کر رہے ہوں۔ لوگ اچھی تعلیم ، بہتر طبی سہولت، قانون کی حکمرانی، میرٹ کے قیام اور سفارش کا خاتمہ چاہتے ہیں جس کے لیے institutional reform )اداروں کی مضبوطی کے لیے اصلاحات ) کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی احتجاجی سیاست کے دبائو کےنتیجے میں حکومت نے 2014 میں انتخابات کے سسٹم میں اصلاحات کےلیے کمیٹی بنائی جس نے 2015 میں کافی کام کیا اور امید یہ ہے سال 2016 میں ان اصلاحات کو عملی جامع پہنانے کے لیے قانونی اور آئینی ترامیم اتفاق رائے سے پارلیمنٹ سے منظور کروا لی جائیں گی۔ اس سے کم از کم انتخابی عمل کو صاف شفاف بنانے میں مدد ملے گی۔ جہاں تک وسیع تر اصلاحاتی ایجنڈے کا تعلق ہے اُس پر کچھ نہ کچھ کام تو ہوا لیکن جو اہمیت اور ترجیح ان کو ملنی چاہیے تھی وہ نہ مل سکی۔ 2016 میں اگر نواز شریف حکومت کا رویہ پہلے والا رہا تو پھر موجودہ دور حکومت میں گورننس اور سرکاری اداروں کی کارگردگی میں بہتری کی امید رکھنا بے کار ہو گا۔ نئے سال کے دوران بہت کچھ ہو بھی سکتا ہے لیکن اس کےلیے اپوزیشن خصوصاً عمران خان صاحب کو اصلاحاتی ایجنڈے پر عمل درآمد کرنےکے لیے خیبر پختون خوا پر توجہ دینےکے ساتھ ساتھ وفاق حکومت پرپریشر ڈالنا ہو گا۔ اس سلسلے میں میڈیا کا کردار بھی بہت اہم ہو گا۔ اگر اپوزیشن اور میڈیا اس سلسلے میں اپنا کردار ذمہ داری کے ساتھ ادا کرتے ہیں اور اصلاحات کے نفاذکےلیے ایک مہم چلاتے ہیں تو 2016 پاکستانیوں کی قسمت بدلنے کے لیے بہت اہم ہو گا۔ اصلاحات کے لیے پولیس اور سول سروس کو فوری طور پر غیر سیاسی اور بیرونی مداخلت سے پاک کرنے کے ساتھ ساتھ ایک ایسا نظام وضع کرنے کی اشد ضرورت ہے جہاں ہر افسر کو اس کی اہلیت، تجربہ اور ٹریننگ کے مطابق اُس ادارے اور پوسٹ پر تعینات کیا جائے جہاں وہ بہترین پرفارمنس دےسکے۔ سول سروس اور پولیس میں بیرونی یا سیاسی مداخلت کی وجہ سے پاکستان کو ایک ایسے المیہ کا سامنا ہے جہاں کوئی سرکاری ادارہ اپنا کام بہتر انداز میں اس لیے کرنےسے قاصر ہے کیوں کہ صحیح جگہ میں صحیح افسر (right man for the right post) کی تعیناتی کی بجائے افسروں کو ان کے تعلقات اور حکمرانوں سے وفاداری کی بنا پر حکومتی عہدے دیے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے وفاقی اور صوبائی سطح پر پالیسی میکنگ اور فیصلہ سازی کا عمل تبا ہ ہو چکا ہے جبکہ ہر افسر عوام کی بجائے حکمرانوں اور طاقت ور طبقوں کو خوش کرنے میں لگا ہوا ہے۔ وفاقی وزیر احسن اقبال کی زیر نگرانی پلاننگ کمیشن سول سروس ریفارمزپر کچھ عرصہ سے کام تو کر رہا ہے لیکن خطرہ یہ ہے کہ ان کی تیار کردہ اصلاحاتی رپورٹس کہیں ماضی کے سول ریفارمز کمیشن اور کمیٹیز کی تیار کردہ موٹی موٹی جلدوں میںلپٹی رپورٹس کی طرح سرکاری الماریوں کی زینت ہی نہ بن کر رہ جائیں۔اس کے ساتھ ساتھ جلد انصاف کو یقینی بنانے اورایف آئی آرکے نظام کی اصلاح کےلیےپاکستان کے کرمنل جسٹس سسٹم میں بنیادی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔ ن لیگ نے اپنی 2013 کی الیکشن مہم میں وعدہ کیا کہ وہ جلد اور سستے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانےکےلیے ضروری اصلاحات لائے گی لیکن اب تک تو ایسا نہ ہو سکا۔ کیا یہ کام 2016 میں ممکن ہو گا؟ اس بارے میں صورت حال غیر یقینی ہی رہے گی۔ 2014 اور 2015 کے دوران وفاقی وزارت قانون کے اُس وقت کے سیکرٹری بیرسٹر ظفراللہ خان نے کرمنل جسٹس سسٹم کی بہتری، جلد انصاف کی فراہمی، جھوٹے اور غیر اہم مقدمات کی روک تھام کےلیے موجودہ قوانین میں تبدیلیوںکے ساتھ ساتھ کچھ نئے قانون تجویز کئے۔ وزیر اعظم صاحب کو ایک سے زیادہ بار بریفنگز بھی دی گئیں لیکن یہ اہم ترین کام حکمرانوں کی وہ توجہ حاصل نہ کر سکا جو میٹرو منصوبے کو نصیب ہوا۔ 2016 میں کیا نواز شریف حکومت ان مجوزہ قوانین اور ترامیم پر حتمی نتیجے تک پہنچ پائے گی؟؟ اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ کرپشن کے خاتمےکے لیے پی پی پی اور ن لیگ نے 2007 میں چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کرتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ سیاسی مصلحتوں کے شکار نیب کو ختم کر کے بلاامتیاز احتساب کے لیے ایک آزاد اور خودمختار کمیشن بنایا جائے گا۔ آٹھ سال گزر گئے جس کے دوران پی پی پی نے اپنا دور حکومت مکمل کیا اور ن لیگ نے حکومت میںاپنے ڈھائی سال پورے کر لیے لیکن دونوں پارٹیاں اپنا یہ وعدہ وفا کرنے میں ناکام رہیں۔ نویں سال میں کیا آزاد اور خودمختار کمیشن بن جائے گا؟؟ یہ ممکن نظر نہیں آتا اور اس کی ایک بنیادی وجہ 2014 کی لندن سازش ہے جس نے حکمراں پارٹی کو یہ باور کرا دیا ہے کہ اُسے پی پی پی کو کسی صورت ناراض نہیں کرنا۔ یعنی پی پی پی کے گزشتہ دور کی کرپشن کو بھول جانا بہتر ہے بصورت دیگر ن لیگ کسی نئی سازش کی صورت میں اپنی حکومت شاید قائم نہ رکھ سکے۔ یہاں ٹیکس ریفارمزکے متعلق پاکستان کے اندر سے زیادہ بیرونی دنیا ، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک وغیرہ کا دبائو ہے جس کی وجہ سے وزارت خزانہ اور ایف بی آر آہستہ آہستہ ٹیکس اصلاحات کو نافذ کرنے میں مصروف ہیں۔ کسی انقلابی اقدام کی تو یہاں توقع نہیں لیکن 2016 کے دوران ملک میں ٹیکس نادہندگان کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوششیں جاری رہیں گی۔ مضبوط پارلیمنٹ ہمیشہ سے یہاں ایک خواب رہا۔ پارلیمنٹ کو ہمیشہ ربرا سٹمپ کے طورپر حکومتوں اور حکمرانوں نے استعمال کیا۔ پارلیمنٹ کی مضبوطی کا تعلق قومی اسمبلی یا سینیٹ میںکی جانے والی تقریروں سے کم اورپارلیمانی کمیٹیوں کو ایسے اختیار دینے سے زیادہ ہے جو پارلیمنٹ و حکومت اور اس کے اداروں پرایک ایسے نگراں کا کردار ادا کرنے کا حق دیتا ہے جس کے ذریعے عوامی فلاح اور مفاد کو ہر فیصلے میں فوقیت دی جاتی ہے ۔ افسوس کہ پاکستان کی پارلیمنٹ نہ گزرے کل مضبوط تھی اور نہ ہی وہ آنے والے کل میں اس کی مضبوطی کی کوئی توقع ہے۔ نوٹ: میرا یہ کالم جنگ گروپ کے سالانہ میگزین ’’کیسا ہو گا 2016 ‘‘ میں شائع ہوا۔ میری توقع کے مطابق نواز شریف کی حکومت اصلاحات اور اداروں کی مضبوطی کے لیے نہ پہلے سنجیدہ تھی نہ اب ہے۔ حکومت کا سارا زور تختیاں لگانے اور سڑکیں بنانے پر ہے۔ بغیر اصلاحات اور نظام کی بہتری کے عوام کی زندگیوں میں بہتر تبدیلی کیسے آئے گی یہ وہ سوال ہے جس کی پاکستانی حکمرانوں کو نہ پہلے فکر تھی نہ اب ہے۔


.
تازہ ترین