• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں ایک کام اچھا ہوا ہے۔ لوگ دلکش اور صحت افزا مقامات پر جانے لگے ہیں۔ چھٹیاں گزارنے کا یہ مصرف ہمارے دنوںمیں نہیں تھا۔ دو دو مہینے یوں ہی گزار دیتے تھے اور کچھ نہیںکرتے تھے اور اپنے ہی کمپنی باغ اور نہر کے کنارے کو دلکش اور صحت افزا مقام تصور کر کے خوش ہولیا کرتے تھے۔ پاکستان آنے کے بعد پہاڑتو دیکھے مگر یہ نہیں دیکھا کہ گرمیوں کی چھٹیوں میں لوگ پہاڑوں پر جارہے ہوں، آ بشاروں میں نہا رہے ہوں اور پہاڑی نالوں میں مچھلی پکڑ رہے ہوں۔
یہاں مغرب میں تو یہ ایک اصول سا ہے کہ چھٹیوں میں لوگ کہیں نہ کہیں جاتے ضرور ہیں۔ لوگ ایک دوسرے سے پوچھا کرتے ہیں کہ اب کے چھٹیاں کہاں گزاریں یااس بار کہاں جانے کا ارادہ ہے۔ چونکہ یورپ میں بہت سے ملکوں کی سرحدیں ایک دوسرے سے چھوتی ہیں، یہ لوگ با آسانی دوسرے ملکوں کو جاتے ہیں ، خود اپنے ملک کے اندر چھٹیاں نہیں مناتے۔ یہ فرض دوسرے ملکوں والے ادا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب اسکاٹ لینڈ والے سارا سازوسامان اٹھا کر اسپین چلے جاتے ہیں تو اسپین والے اپنی کاروں میں لد پھند کر اسکاٹ لینڈ کے نظاروں کے مزے لوٹتے ہیں ۔کبھی کبھی تو یہ اپنے گھر ان کو سونپ دیتے ہیں اور تبادلے میں خود جاکر ان کے گھروں میں رہتے ہیں۔ یہ بھائی چارے کا عجب نظارہ ہوتا ہے۔ مطلب یہ کہ چھٹیوں میں کہیں جانے میں بڑی حکمت یہ ہے کہ ایک تو زندگی کے منظر بدلتے ہیں، دوسرے آب و ہوا بدلتی ہے، روز روز کے معمولات بدلتے ہیں اور ایک اور بڑی حکمت کا تو ذکر ہی کیا۔ آنے والے سیاح اپنے ساتھ جو پیسہ لاتے ہیں وہ یہاں خرچ کرتے ہیں ۔ اس طرح مقامی لوگوں کی مالی حالت سدھرتی ہے اور دولت دور دور تک پھیلتی ہے۔ اپنی خوش حالی میں دوسروں کو حصہ دار بنانے کی کیسی خوش گوار کارروائی ہے۔
میں جو کہتا ہوں کہ پاکستان میں ایک کام اچھا ہورہا ہے۔ لوگ تعطیلات یعنی چھٹیاں گزارنے دور دراز علاقوں کو جانے لگے ہیں۔ مری جانا تو عام سی بات ہے، لوگ سوات جاتے ہیں، جھیل سیف الملوک جیسے دشوار گزار علاقوں کو جاتے ہیں اور شمالی علاقہ جات، اسکردو اور گلگت سے بھی آگے تک جانے لگے ہیں۔ اس میںکیا شک ہے کہ قدرت نے ان علاقوں کو حسن بخشنے میں بڑی ہی فیاضی کا مظاہرہ کیا ہے۔ یورپ والے تو قدرتی حسن کو یوں بناکررکھتے ہیں جیسے کسی دوشیزہ کو سنوارا جاتاہے۔ہمارے ہاں ایسا کوئی چلن نہیں اور ہم یہ کہہ کر خود کو سمجھا لیتے ہیں کہ جو حسن قدرتی ہوتا ہے وہ انسانی ہاتھ نہیں تخلیق کر سکتے۔ چلئے یوں ہی سہی لیکن کیسی اچھی بات ہے کہ لوگ موسم کے تیور دیکھ کر ان دلکش اور صحت افز ا مقامات کا رخ کرتے ہیں اور وہی با ت جو میں نے ابھی کہی، اپنی خوش حالی میں ان دور دراز علاقوں کو بھی حصہ دار بناتے ہیں، وہاں جاکر پیسہ خرچ کرتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ نئے تعلقات ، نئے مراسم ، نئی دوستیاں اور اوپر سے ایک قوم ہونے کا احساس، یہ سب کسی نعمت سے کم نہیں۔ وادی سوات پر بُرا وقت پڑا تھا۔ وحشت کے مارے ہوئے لوگوں نے سب کچھ اجاڑ کر رکھ دیا۔وادی کے مقام مالم جبّہ کو میں نے دیکھا تھا۔ یورپ والے وہاں بہترین تفریح گاہ بنا کر گئے تھے۔ لوگوں نے اسے پھونک ڈالا۔ اب وہاں دوبارہ برف پر پھسلنے کے کھیل کھیلے جانے لگے ہیں۔ میں جب گیا تھا، درندگی کے دن نہیں تھے۔ مجھے پاراچنار دیکھنے کا بہت ارمان تھا۔ مگر وہاں دہشت کا راج ہوگیا۔ مقامی آبادی باقی دنیا سے کٹ کر رہ گئی۔ خدا کا شکر ہے کہ وہاں حالات کچھ معمول پر آرہے ہیں ۔ عجیب بات یہ ہے کہ یہ مسئلے ان تمام ہی مقامات پر ہیں جہاں قدرت نے حسن کے رنگ بکھیرے ہیں۔ بعض مقامات پر سیاحوں اور کوہ پیماؤں پر ظلم کے پہاڑ ڈھائے گئے ہیں۔ انہیں بھلانے میں وقت لگے گا۔حال ہی میں جو لوگ چترال کے علاقوں کی سیر کرکے لوٹے ہیں ، وہاں کے حسن کا دم بھر رہے ہیں۔ اور تو اور تھرپارکر کے علاقوںمیں بارشوں کے بعد جو موسمِ گُل آتا ہے، اسے دیکھنے ایک خلقت وہاں جاتی ہے۔ سیاحت کے شوقینوں اور چھٹیاں گزارنے والوں کو سہولتیں مل جائیں تو کوئی کہیں کسی پرائے دیس کاہے کو جائے۔
مجھے نہیں معلوم پاکستان میں حکومتیں اس معاملے میں کتنی سنجیدہ ہیں۔ مجھے یہ معلوم ہے کہ کسی حاکم نے ایک مذہبی گھرانے کے ، ایک بڑے عالم دین اور سیاست داں کے بھائی کو سیاحت کا وفاقی وزیر بنا دیا تھا۔ حال ہی میں ملک کی نظریاتی کونسل نے بھی سیاحت کو دین کا جامہ پہنانے کی حکمت وضع کی ہے۔ اب انہیں کون سمجھائے کہ سیر و سیاحت سے لطف،فرحت اور انبساط نکل گئے تو ویرانوں میں دھول اُڑا کرے گی، ہوٹل اجاڑ ہو جائیں گے، گیسٹ ہاؤسوں میں مویشی بندھیں گے اور ریسٹ ہاؤسوں میں الّو بولا کریں گے۔وہی حال ہوگا جو لوگوں نے سرکاری اسکولوں کا حشر کیا ہے۔ سیاحت کی ایک الگ دنیا ہے۔ یہ کوئی گھاٹے کا سودا نہیں۔ اس کو سنجیدگی سے چلایا جائے اور ان ملکوں کی مثالیں یاد رکھی جائیں جن کی روٹی روزی اسی سیاحت کے دم سے ہے۔ میں نے سوئٹزر لینڈ دیکھا ہے۔ کسی نے سچ کہا کہ وہاں پہاڑ اور دودھ دینے والی گائیں ہیںاور بس۔ لیکن دولت کا یہ حال ہے کہ وہاں کے بعض بینکوں نے اعلان کردیا ہے کہ ان کے پاس مزید پیسے رکھنے کی گنجائش نہیں، لوگ کوئی دوسرا بینک ڈھونڈیں یا پھر ان کے پاس پیسے رکھوانے کے پیسے دیں۔ مصر بدحالی میں مبتلا ہے ورنہ جیسے دنیا بھر کے سیاح وہاں آتے ہیں ، بس دیکھا ہی کیجئے۔ میں جا چکا ہوں اور دیکھ چکا ہوں کہ سیاحت کے فروغ کے لئے وہ کون سا جتن نہیں کرتے۔ ہزاروں سال پرانی تہذیب جو دریائے نیل کی ریت تلے دبی ہوئی تھی اور اسی وجہ سے محفوظ تھی، اسے دیکھ کر جو کیفیت ہوتی ہے اسے بیان کرنا مشکل ہے۔ مثال کے طور پر ہم ایک فرعون کا شاندار مقبرہ دیکھ رہے تھے۔ کسی نے بتایا کہ حضرت یوسف ؑ اسی کے دربار سے وابستہ تھے۔ اس پر پہلی بار یہ احساس ہو ا کہ یہ سب قصّے کہانیاں نہیں۔ میں نے تاج محل پر سیاحوں کی یلغار دیکھی، میں نے ہسپانیہ کے الحمراء میں سیاحوں کے غول دیکھے۔ میں نے اجنتا اور ایلورا میں دنیا بھر سے آئے ہوئے ہر رنگ کے مردو زن کو محو حیرت دیکھا۔لیکن میں نے لاڑکانہ کے قریب موہن جو دڑو کے ویران پڑے کھنڈر بھی دیکھے۔ٹیکسلا کی سنسان یادگاریں دیکھیں۔ پور ے پاکستان میں بودھ دور کی نشانیاں دیکھیں جن کی زیارت کرنے جاپان سے بودھ مت کے ماننے والے آیا کرتے تھے ۔ انہوں نے آنا بند کردیا کیونکہ ان کو جان و دل عزیز ہیں۔
لوگوں کی سلامتی یقینی ہوجائے اور سیاحت کو اخلاقی جکڑ بندیوں میں نہ الجھا یا جائے تو پاکستان میں یہ شعبہ ایسا پھلے پھولے کہ دنیا دیکھا ہی کرے۔ ملک میں آثار قدیمہ بے شمار ہیں، قلعے، مقبرے، محل ،مندر ، گوردوارے، تصوف کے مراکزاور سب سے بڑھ کے جھیلیں، دریا ، پہاڑ اور آبشار اس کثرت سے ہیں کہ حالات سازگار ہوں تو دنیا کی دولت کا معقول حصہ پاکستان کی سمت بہنے لگے۔ مگر اس کا کیا حل ہے کہ ابھی تو دولت کا دریا مخالف سمت میں بہہ رہاہے۔ اس پر مجھے وہ بادشاہ یاد آگیا جو اپنا بھاری لشکر لے کر بنگال فتح کرنے نکلا۔ اس نے اُس دریا کے کنارے پڑاؤ ڈالا جس کے دوسرے کنارے پر بنگال تھا۔ کسی نے اسے بنگال کے جادو کی خبر کردی تھی۔ رات کو اسے نیند نہیں آرہی تھی ، وہ دریا کی سیر کو چلا گیا۔چاندنی رات تھی اور جوار بھاٹے کا وقت تھا۔ کیا دیکھتا ہے کہ دریا نشیب کی جانب بہنے کی بجائے مخالف سمت میں بہہ رہا ہے۔ خوف سے بادشاہ کی گھگی بندھ گئی ۔اس نے اپنے لشکر کو حکم دیا کہ ابھی اسی وقت خیمے اکھاڑے اور واپس چلے۔کیسی ستم ظریفی ہے کہ ہمارا بھی دولت کا دریا چڑھا ہوا ہے اور مخالف سمت میں بہہ رہا ہے۔ اب کیا کریں؟ کیا خیمے اکھاڑیںاور واپس چلیں؟


.
تازہ ترین