• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پیپلزپارٹی نے کافی عرصہ قبل منصوبہ بنایا تھا کہ سندھ میں چہرہ تبدیل کرنا ہے تاکہ اس کی صوبائی حکومت کی کارکردگی بہتر ہوسکے مگر وہ ہچکچاہٹ کا شکار رہی۔ بالآخر اس نے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنا دیا اور 83 سالہ وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ کی جگہ قدرے جوان مراد علی شاہ کو لے آئی ہے جو کہ مرحوم سید عبداللہ شاہ کے بیٹے ہیں۔ نوے کی دہائی میں عبداللہ شاہ بھی پیپلزپارٹی کے سندھ میں وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں۔ ان پر کرپشن کے الزامات تھے اور وہ مرتضیٰ بھٹو کے قتل میں دوسرے بہت سے اہم لوگوں کے علاوہ نامزد ملزم بھی تھے۔ اس سے قبل کہ سندھ میں نئے چہرے کے بارے میں بات کی جائے اور ان سے کیا کیا توقعات ہیں یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ اپنی ذات کی حد تک قائم علی شاہ پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے اگرچہ ان کی بے بسی اور وفاداری کی وجہ سے ان کی ناک کے نیچے گزشتہ آٹھ سالوں سے مبینہ طور پر لوٹ مار کا بازار گرم رہا اور بدترین حکمرانی رہی۔ ان کی سب سے بڑی ’’خوبی‘‘ یہ تھی کہ وہ پیپلزپارٹی کی اہم لیڈرشپ کو نہ نہیں کہہ سکتے تھے اور جس کا انہیں حکم ملتا تھا وہ سرتسلیم خم کرتے تھے۔ گزشتہ پانچ سالہ دور (2008-2013ء) میں دوسروں کے علاوہ حقیقتاً اویس مظفر عرف ٹپی ہی وزیر اعلیٰ تھے جبکہ قائم علی شاہ صرف ڈمی تھے۔ اس وقت اویس مظفر کے ساتھ ساتھ یقینی طور پر آصف زرداری اور فریال تالپور ہی دراصل سندھ کے حکمران تھے۔ قائم علی شاہ کی یہ بھی ’’خاصیت‘‘ تھی کہ انہوں نے کبھی شکایت نہیں کی کہ وہ صرف اور صرف نام کے وزیراعلیٰ ہیں۔ وہ عمر کے اس حصے میں تھے جہاں عام طور پر آدمی کی ساری توانائیاں اپنے آپ کو سنبھالنے نہ کہ حکمرانی کرنے پرصرف ہوتی ہیں۔ وزیر اعلیٰ ہوتے ہوئے قائم علی شاہ کو ہمیشہ اپنی پارٹی کے چند رہنمائوں بشمول آغا سراج درانی، نثار کھوڑو اور منظور وسان سے خطرات رہے کیونکہ وہ لوگ سمجھتے تھے کہ وہ اس عہدے کے زیادہ حق دار ہیں مگر پیپلزپارٹی کے فیصلہ سازوں نے کبھی ان کا ساتھ نہیں دیا۔
مراد علی شاہ کے بارے میں سب سے اہم سوال یہ کیا جارہا ہے کہ کیا وہ ایک اور بے بس قائم علی شاہ ثابت ہوں گے یا کہ واقعی وہ وزیر اعلیٰ ثابت ہوں گے جو کہ پیپلزپارٹی کی ساکھ کو بہتر کریں اور اسے کچھ سہارا دے۔ بلاشبہ ان کیلئے آصف زرداری، فریال تالپور اور بلاول کے احکامات کو ٹالنا قطعی طور پر ناممکن ہوگا کیونکہ ان کو یہ عہدہ صرف ان کی وجہ سے ہی ملاہے نہ کہ اپنی انفرادی سیاسی اسٹینڈنگ کی وجہ سے۔ سندھ میں چہرے کی تبدیلی تو یقیناً آگئی ہے مگر حقیقی چینج نہیں آیا کیونکہ اب بھی اصل حکمران آصف زرداری اورفریال تالپور ہیں۔ مخالفین کا کہنا ہے کہ شاید مراد علی شاہ ذاتی طور پر اتنے ایماندار نہ ثابت ہوسکیں جتنے کہ قائم علی شاہ اپنی انفرادی حیثیت میں تھے تاہم عام طور پر یہ خیال کیا جارہا ہے کہ وہ تازہ خون ہونے کی وجہ سے کچھ ایریاز میں اپنے پیش رو سے بہتر ثابت ہوں گے۔ مثلاً ان کی بیوروکریسی پر گرپ زیادہ ہوگی، وہ وفاقی حکومت کے ساتھ معاملات کے بارے میں کافی ’’ٹف‘‘ ثابت ہوں گے اور ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ کے ساتھ ان کا رویہ بھی قدرے ’’ہارڈ لائنر‘‘ والا ہوگا۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر سندھ میں ساری پالیسیاں آصف زرداری اور فریال تالپور کی ہی چلنی ہیں اور سارے فیصلے بھی انہوں نے ہی کرنے ہیں تو پھر چہرہ بدلنے کا کیا فائدہ ہے؟ تاہم ان فیصلہ سازوں نے سوچا ہوگا کہ یہ تبدیلی سندھ کے لوگوں میں ’’فیل گڈ فیکٹر‘‘ کے طور پر کام کریگی جبکہ حکومت کے اب صرف 18 ماہ باقی رہ گئے ہیں جو کہ اگلے عام انتخابات کیلئے بہت اہم ہیں۔ اسی عرصہ میں ہی کیے گئے حکومتی اقدامات کا عوام پر زیادہ اثر ہوگا اور اسی قلیل مدت کے دوران ہی سندھ حکومت نے کمالات دکھانے ہیں تاکہ پیپلزپارٹی اگلے انتخابات بھی اس صوبے میں دوبارہ جیت سکے۔ پارٹی کی لیڈرشپ پر یہ صاف ظاہر ہے کہ ابھی تک عوامی سطح پر اس کی حالت 2013ء کے الیکشنز کے نتائج سے کچھ زیادہ بہتر نہیں ہوئی لہذا اگر وہ اگلی بار سندھ میں بھی نہ جیت سکے تو پھر پارٹی مکمل طور پر ’’اوور‘‘ ہو جائے گی۔ جہاں تک روز مرہ معاملات کا تعلق ہے جن میں آصف زرداری اور فریال تالپور کی دلچسپی نہیں ہوگی ان کے بارے میں فیصلے کرنے میں مراد علی شاہ مکمل آزاد ہوں گے۔ نئے وزیر اعلیٰ کی مالی امور پر کافی کمانڈ ہے اور یہ وہ بطور سندھ کے وزیر خزانہ ثابت کرچکے ہیں۔
عوامی سطح پرپورے پاکستان میں سوائے سندھ کے پیپلزپارٹی آج بھی وہیں کھڑی ہے جہاں وہ 2013ء کے عام انتخابات میں تھی جب اسے اپنی زندگی کی بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کی حالیہ مثال آزادکشمیر میں ہونے والے انتخابات میں بھی ملی جب یہ صرف دو سیٹیں ہی جیت سکی۔ عوام نے اس کی حکومت (2011-2016ء ) پر مکمل عدم اعتماد کیا ایسے ہی جیسے پاکستان میں زرداری حکومت (2008-2013ء پر کیا تھا۔ اندرون سندھ میں کوئی بھی اہم سیاسی مخالف نہ ہونے کی وجہ سے پیپلزپارٹی آج بھی اکثریت سیٹ جیتتی ہے جیسے کہ حالیہ بلدیاتی انتخابات میں ہوا۔ اس کی یہ کامیابی کسی کارکردگی کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ کسی متبادل سیاسی قوت کا نہ ہونا ہے ۔یہی اس کی سب سے بڑی خوش قسمتی ہے۔ نہ ہی نون لیگ نے اور نہ ہی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) نے کبھی کوئی سنجیدہ کوشش کی ہے کہ وہ سندھ میں اپنی جگہ بنا سکیں۔ ان دونوں جماعتوں کی سندھ سے دوری کی وجہ پیپلزپارٹی سے ’’مفاہمت‘‘ ہے۔ جس کا اظہار حال ہی میں بھی ہوا جب پی ٹی آئی نے اندرون سندھ میں ’’کرپشن مٹائو‘‘ مہم چلائی۔ عمران خان نے جان بوجھ کر اس مہم کے دوران اپنا شیڈولڈ خطاب نہ کیا کہ پیپلزپارٹی ناراض نہ ہوجائے۔ شاہ محمود قریشی یہ مہم چلاتے رہے مگر انہوں نے سندھ حکومت کے بارے میں ایک بھی منفی بات اسی وجہ سے نہ کی۔
سندھ میں تو چہرے کی حد تک تبدیلی آگئی ہے جبکہ گورننس میں ابھی تبدیلی آنا باقی ہے مگر خیبرپختونخوا میں ایسی تبدیلی آتے آتے رہ گئی ہے اور وقتی طور پر وزیراعلیٰ پرویزخٹک بچ گئے ہیں مگر ابھی پی ٹی آئی کے اندر بغاوت جاری ہے باوجود اس کے کہ عمران خان ان ’’باغیوں‘‘ کو بڑےواضح الفاظ میں دھمکی دے چکے ہیں کہ اگر انہوں نے اپنا رویہ نہ بدلا تو انہیں پارٹی سے نکال دیا جائے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے بہت سے ارکان جہانگیر ترین کے خلاف شکایات کا انبار لگاتے ہیں مگر عمران خان نے انہی کو ہی یہ کام سونپا ہے کہ وہ کے پی میں یہ بغاوت ختم کریں۔ حکومت میں تین سال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد اب عمران خان نے کے پی کیلئے 13 نکاتی اصلاحاتی ایجنڈا جاری کیا ہے جو کہ یقیناً ایک طرح سے ان کا انتخابی منشور ہے۔ اس کے ذریعے وہ اگلے انتخابات میں لوگوں کو دکھانا چاہتے ہیں کہ انہوںنے اس صوبے میں کیا کیا کامیابیاں اور کارکردگی دکھائی۔ مگر کیا انہوں نے یہ ایجنڈا جاری کرتے ہوئے کافی دیر نہیں کردی؟ تین سال سے زائد عرصہ کے دوران تو کے پی حکومت کی کارکردگی کوئی ایسی نہیں رہی جس کو مثالی طور پر دوسرے صوبوں کے مقابلے میں پیش کیا جاسکے بلکہ بعض معاملات میں تو اس نے وہ کچھ کیا جو کہ عمران خان کے نعروں کے بالکل برعکس تھا جیسے کہ احتساب کی ’’دکان ‘‘ کو ایک جھٹکے سے بند کرنا اور پہلے قومی وطن پارٹی کے وزراء کو کرپٹ قرار دے کر کابینہ سے باہر پھینکنا اور پھر کچھ عرصہ بعد انہیں واپس لے لینا وغیرہ وغیرہ۔


.
تازہ ترین