• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پچھلے دنوں کالم نگاری کے حوالے سے لاہور میں ایک تربیتی ورکشاپ منعقد ہوئی۔ ورکشاپ میں بوجہ شرکت نہ کر سکنے والے لوگوں کی پر زور فرمائش کہ کالم کے ذریعے بھی اس فن پر روشنی ڈالی جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ نونہالان قوم اس سے مستفید ہوسکیں۔ ذیل میں ہم اردو کالم نگاری کے رہنما اصولوں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے۔ اگر ان اصولوں پر عمل کر لیا جائے تو کوئی بعید نہیں ہر گلی محلے سے کالم نگار نہ نکلے۔
1۔کالم نگاری کا پہلا اصول، کالم کا ٹائٹل جاندار اور Crispyہونا چاہئے ۔ہمارا مشورہ ہوگا کالم کے ٹائٹل میں اگر Contrastکا عنصر ہوتو زیادہ بہتررہے گا یعنی ایک کردار بہت امیر اور دوسرا بہت غریب یا پھر ایک کردار بہت ماڈرن اور شہری اور دوسرا بہت ہی پسماندہ اور دیہاتی۔مثال کے طور پر’’لیہ کی بختو اور لندن کی کیتھرائن‘‘،’’ڈیفنس کاٹونی اور بندر روڈ کا بوٹا،‘‘گونگی لڑکی اور ڈی پی او ’’اور‘‘ گاما ، ماجھا اور گڈ گورننس ‘‘وغیرہ۔
2۔ اردو کالم نگاری میں ’’اعتماد کی مار‘‘ کا رہنما اصول پلّے باندھ لیں۔ مطلب آپ کو کسی چیز کے بارے میں اگر مکمل معلومات نہیں بھی تب بھی بڑے اعتماد سے انشاء پردازی کریں ۔ آج کے دور میں نہ تو لوگ اتنے پڑھے لکھے ہیں کہ ان کو ہر چیز کا علم ہو اور نہ ہی کسی کے پاس اتنا وقت کہ وہ معلومات کی تصدیق کرتے پھریں۔ کالم میں ’’اسی اعتماد کی مار‘‘ کے اصول کے تحت آپ بڑے آرام سے کسی بھی عنوان پر Sweeping Statementبھی دے سکتے ہیں اور امید ہے اکثر اوقات یہ چل بھی جائے گی۔ خدانخواستہ کسی وقت نہ چلے اور بیک فائر کرجائے تو آرام سے ملبہ کاتب یا ٹائپسٹ کے گلے ڈال دیں ۔
3۔کالم کے حوالے سے اگر آپ کے پاس مناسب مواد نہیں اور آپ چاہتے ہیں حقائق پر مبنی کالم لکھیں تو انٹر نیٹ آپ کے لئے حاضر ہے ۔کوشش کریں ساری معلومات صرف ایک ہی ویب سائٹ یا وکی پیڈیا سے نہ لیں کیونکہ اس طرح بعض اوقات Exposeہونے کا خدشہ موجود رہتا ہے ۔ ٹاپک پر تھوڑی تھوڑی معلومات دوچار ویب سائٹس سے لیں اور اردو میں ترجمہ کرکے کالم لکھنا شروع کردیں ۔دوچار ویب سائیٹس سے لی گئی معلومات کو Re-mix کرنا نہ بھولیں تاکہ پکڑے جانے کا احتمال کم سے کم ہو۔
4۔کسی ٹاپک پرمناسب مواد تو درکنار اگر آپ کو ٹاپک ہی نہیں مل رہا تو بھی پریشان ہونے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔آپ نے صرف اتنا کرنا ہے گوگل (google)میں جاکر اس طرح کے جملے انگریزی میں ترجمہ کرکے لکھیں جیسے ،’’دنیا کے عجیب و غریب لوگ‘‘،’’ دنیا کے کامیاب ترین لوگ‘‘، ’’دنیا کے بے وقوف ترین لوگ‘‘ وغیرہ ،پوری امید ہے آپ کو لکھنے کے لئے نہ صرف ٹاپک مل جائیں گے بلکہ پورے کا پورا کالم ہی مل جائے گا۔آپ نے صرف انگریزی سے اردو ترجمہ کرنا ہے اور مختلف ویب سائٹس کی معلومات کو Re-mixکرنا ہے ۔
5۔اردو کالم نگاری میں الفاظ کا چناؤ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ہمارا مشورہ ہو گا کوئی اچھی سی اردو لغت خریدیں اور اس میں سے دلکش اور متاثر کن الفاظ اور محاوروں کا ایک ذخیرہ علیحدہ کرلیں مثلاً حکمرانوں کے اللّے تللّے، میرٹ کی دھجیاں، اقرباء پروری ،بے حس حکمران، ظلم کی چکّی میں پستے عوام، پولیس گردی وغیرہ۔ ایسے دلکش الفاظ اور محاوروں کا استعمال کرنے کا طریقہ ہے کہ اپنے ذخیرہ سے چند الفاظ اور محاورے نکالیں اور باری باری ایک ایک لفظ اور محاورے کا اچھا سا جملہ بنائیں اور اپنے کالم میں کسی مناسب جگہ پر فٹ کر دیں اور باقی ذخیرہ کسی اگلے کالم کے لئے سنبھال کے رکھ دیں۔
6۔اچھے اشعار کا استعمال بھی بعض اوقات کالم کو چار چاند لگا دیتا ہے۔ اس لئے الفاظ اور محاوروں کے ذخیرہ کے ساتھ ساتھ اشعار کا ایک مناسب ذخیرہ بھی ایک اچھے کالم نگار کو اپنے پاس ضرور رکھنا چاہئے۔ ان اشعار کی نوعیت کچھ اس طرح کی ہو تو زیادہ سود مند ہوگا ہو گا مثلاً ’’پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ..‘‘۔’’افراد کے ہاتھوں میں اقوام کی تقدیر۔۔۔‘‘یا پھر کچھ دوسرے اس طرح کے اشعار جن میں مشرقی اور مغربی تہذیب کا ذکر ہو یا پھر ایسے اشعار جن میں غریب امیر کا فرق اور روٹی’’ٹُکر‘‘ کے مسائل بیان کئے گئے ہوں۔
7۔اگر آپ حال ہی میں کسی غیر ملک کا سفر کرکے آئے ہیں تو کم از کم دو کالموں کا مواد تو آپ کو دستیاب ہے۔یاد رکھیں اس طرح کے کالم کا پہلا اصول ہے کہ کبھی ایسا کالم غیر ملک سے واپسی پر فوراً نہ لکھیں بلکہ چند دن کا وقفہ دے کر لکھیں۔ ایسے کالم میں اپنے ان تمام میزبانوں کا ذکر کریں جنہوں نے آپ پر کچھ نہ کچھ خرچ کرنے کی سعادت حاصل کی ہو۔ جس صاحب نے سب سے زیادہ خرچ کیا اس کو بے شک ’’مین آف دی میچ‘‘ کا ایوارڈ دے دیں ۔ جس نے آپ کو دیار غیر میں وقت تو دیا مگر خرچ کے معاملے میں قبضی کا شکار رہا اس کو بالکل نظر انداز مت کریں بلکہ سرسری سا ذکر ضرور کر دیں تاکہ اگلی مرتبہ وہ بھی’’مین آف دی میچ‘‘ سے سبق حاصل کرسکے ۔
8۔اگر آپ کو غیر ملکی سفر کا موقع نہیں ملا تو بھی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔آپ نے پاکستان کے اندر تو سفر ضرور کیا ہوگا مثلاً اگر آپ لیّہ گئے اور وہاں آپ کو پرانے کلاس فیلوز ’’حنیفا‘‘اور ’’ گاما‘‘مل گئے جن کے ساتھ آپ بچپن میں اسکول سے بھاگ کرکہیں گُلی ڈنڈا کھیلتے تھے تو آپ آرام سے ان پر کالم لکھ سکتے ہیں اور لگے ہاتھوں آپ حنیفے کی مَاں چاچی بختو کا بھی ذکر کر سکتے ہیں۔ جس نے آپ سے حنیفے کی نوکری کے لئے سفارش کی ہو۔ مقامی سفر میں ایسا سفر بھی ہو سکتا ہے جس میں کسی ضلع کے انتظامی افسر نے کسی مشاعرہ وغیرہ میں آپ کو بلایا ہو ۔ آپ کو صرف اتنا کرنا ہوگا کہ ضلعی انتظامیہ کے افسرکا اگلے کالم میں علم و ادب پرور شخص کے طور پر ذکر خیر ہو۔ آپ کے لئے دو دن کے سفر کا’’ٹی اے ڈی اے ‘‘اور واپسی پر کالم کا مواد۔ آم کے آم گٹھلیوں کے دام۔ نئے کالم نگاروں کے لئے نیک شگون ایسے ادب پرور آفیسرز میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔
9۔اگر خدانخواستہ آپ کے پاس وقت بہت کم ہو اور کالم لکھنا ضروری ہو تو بھی کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں۔ اس کے لئے ایک طریقہ یہ کہ آپ ایک ایسا کالم تیار کر کے رکھ چھوڑیں جو ہر طرح کی صورت حال پر فٹ آجائے۔ جیسے بچپن میں امتحان کے دنوں میں کچھ سمجھدار طالب علم ایک مضمون تیار کرتے تھے اور اس کو ہر قسم کے مضمون میں فٹ کر دیتے تھے۔ جیسے ’’میرا بہترین دوست‘‘ کا مضمون تیار کیا اور اگر امتحان میں’’میرا بہترین ٹیچر ‘‘آگیا تو دوست کے لفظ کو ٹیچر سے تبدیل کرکے مضمون لکھ دیا جاتا تھا۔ اس طرح آپ بھی ایک ایسا کالم ضرور تیار رکھیں۔اس طرح کے کالم میں غربت، مہنگائی، کرپشن ، امن وامان ، پولیس گردی، اقربا پروری ، ملک تاریخ کے نازک موڑ پر ہے، نظام کی خرابی وغیرہ کے الفاظ اور جملوں کو اپنی اداکاری سے ایسے ملائیں کہ کالم کاکالم بنے اور وطن عزیز کا درد رکھنے والے شخص کا خطاب بھی مل جائے۔ اگر اتنا وقت بھی نہ ہو تو آپ کے لئے مزید آسان ٹوٹکا حاضر ہے، پورے کالم میں صرف محکمہ پولیس یا محکمہ پولیس کے کسی ڈی پی او کی دھنائی کرکے رکھ دیں، کام چل جائے گا۔
10۔کالم چھپنے کے بعد اگلا مرحلہ اس کی مارکیٹنگ ہے۔ فی زمانہ اس کے مختلف طریقے رائج ہیں ۔پہلا طریقہ ، فیس بک پر نہ صرف Shareکریں بلکہ اپنے ہر دوست کو Tagکریں ۔ واضح رہے کسی کو اپنا کالم گن پوائنٹ پر پڑھوانے کا یہ سب سے شریفانہ طریقہ ہے۔دوسرا طریقہ، کالم کی فوٹو کاپیاں کراکے اپنے دوستوں میں تقسیم کریں۔ یہ فوٹو کاپیاں اجرت دار بندوں کے ہاتھوں مختلف گھروں میں مت پھنکوائیں کیونکہ ایسا طریقہ ابھی تک عام نہیں ہوا۔ تیسرا طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ کال اور ایس ایم ایس کے ذریعے اپنے دوستوں اور جاننے والوں کو مطلع کریں۔ بس صرف ایک بات کا خیال رہے جس دن کالم چھپنا ہو اس سے پچھلی رات کو 12بجے کے بعد ایسی کال اور ایس ایم ایس کسی کو نہ کریں کیونکہ آدھی رات کے بعد کسی کو تنگ کرنا شریف لوگوں کا شیوہ نہیں!!
تازہ ترین