• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جیو نیوز کے ترجمان نے کراچی میں ملک کے سب سے بڑے اور ہردلعزیز چینل جیو اور جیو نیوز کو جمعرات کی شب سے ایک بار پھر آخری نمبروں پر ڈالنے کو آزادی ٔ صحافت پر حملہ قرار دیتے ہوئے وزیراعظم اور چیف جسٹس آف پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ معاملات کی چھان بین کے لئے ایک آزاد اور خودمختار کمیشن بنائیں جو اس امر کی تحقیقات کرے کہ جیو کے ساتھ اس امتیازی سلوک کے پس پردہ کون سے عوامل کار فرما ہیں۔ اگر حکومت تحقیقات کا ڈول ڈال دے تو شواہد کے ساتھ یہ ثابت کیا جائے گا کہ اس جانبدارانہ اقدام کے پیچھے کون سے ذہن کام کر رہے ہیں؟ ان کے مطالبات کیا ہے؟ اور انہیں کن صحافیوں اور ان کے مواد پر اعتراض ہے اور ان کی شرائط کیا ہیں؟جیو نیوز ملک کا سب سے بڑا اور موثر آزاد اور خودمختار قومی چینل ہے جو نہ صرف اندرون اور بیرون ملک بسنے والے کروڑوں پاکستانیوں کو لمحہ بہ لمحہ ہر قسم کے حالات و واقعات سے باخبر رکھتا ہے بلکہ ان کی تفریح کے لئے نئے نئے پروگرام پیش کرنے میں دوسرے چینلوں پر سبقت بھی رکھتا ہے۔ اس کی غیرجانبدارانہ خبریں اور تجزیئے عوام کے ذہنوں کو جلا بخش کر ان کے نشو و ارتقا کا فریضہ بھی انجام دیتے ہیں اور حکام کو آنے والے حالات سے باخبر ہی نہیں خبردار رکھنے کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔ جیو انتظامیہ کی طرف سے کی جانے والی اس شعوری کوشش کی عوام کی طرف سے بھرپور تحسین اس انداز میں کی جاتی ہے کہ وہ صرف جیو نیوز کی خبروں کو ہی سننا اور اس کے تجزیوں سے ہی اپنے قلب و ذہن کو منور کرنا درست سمجھتے ہیں اور نیوز چینلوں کے نمبر اس وقت تک گھماتے رہتے ہیں جب تک کہ وہ جیو اور جیو نیوز پر ٹیون نہ ہو جائیں۔ لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ اقتدار کی غلام گردشوں میں بیٹھے ہوئے بعض لوگوں کو جیو کی یہ مقبولیت پسند ہے نہ وہ عوام کو باخبر رکھنے کی اس کوشش کو ہی تحسین کی نظر سے دیکھتے ہیں بلکہ ان کے رویے سے تو بسااوقات یہ گمان ہوتا ہے کہ وہ جیو کے اس شاندار کردار اور خدمات کی تحسین کرنے کی بجائے اسے اس کی سزا دینے پر تلے ہوئے ہیں جس کے لئے یہ حربہ انہوں نے اختیار کیا ہے کہ تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد ملک کے مختلف شہروں میں جیو نیوز کو آخری نمبروں پر ڈال دیاجاتا ہے تاکہ عوام اس کو تلاش کرنے میں الجھ جائیں اور اتنی دیر میں خبروں کا وقت نکل جائے۔ اقتدار کے رنگ محل میں بیٹھ کر اس قسم کی وارداتیں جیو کے لئے نئی نہیں۔ ماضی میں اپریل 2014میں جیو نیوز کو مکمل طور پر بند کردیا گیا تھا اور طویل عرصے تک اس کی عوام تک رسائی ممکن نہیں ہوئی تھی۔ بعداز خرابی ٔبسیار یہ نشریات بحال ہوئیں تو پھر بھی عوام کو یہ جاننے میں کافی وقت لگ گیا کہ جیو اور جیو نیوز کن نمبروں پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ تاہم اس کے بعد بھی اس مقبول ترین چینل کی ڈسٹری بیوشن اور ریٹنگ کے معاملے میں مسلسل رکاوٹیں ڈالی جاتی رہیں۔ جیو نیوز اور جیو آج بھی اپنی اپریل 2014 والی ریٹنگ تو حاصل نہیں کرسکا لیکن اس کی انتظامیہ اور کارکن اپنی محنت، جانفشانی اورلگن سے ایک مرتبہ پھر جیو کو ایسے مقام پر لے آئے ہیں کہ اس کو دنیا بھر میں رشک کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے لیکن اس کی یہی کارکردگی شاید بعض اصحاب ِ اختیار کو کانٹے کی طرح کھٹکنے لگی ہے اور وہ جیو کو دوبارہ عوام کی نظروں سے گرانے کے لئے اوچھے حربے استعمال کرنےپر اتر آئے ہیں لیکن ملک کا یہ مقبول چینل نہ پہلے جھکا ہے نہ اب جھکے گا اور اپنی قومی ذمہ داریوں کو پوری طاقت سے ادا کرتا رہے گا۔ اسے دیوار سے لگانے کی کوششیں کرنے والوں کو یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ آزادی ٔ صحافت کا گلا گھونٹ کر وہ نہ عوام کی کوئی خدمت کر رہے ہیں اور نہ جمہوریت کی ۔اگر وہ اپنی اسی روش پر گامزن رہے تو اس سے حکومت اور عوام کسی کو فائدہ نہیں ہوگا بلکہ عوام میں ان کی ساکھ شدید طور پر متاثر ہوگی۔ دنیا بھر کے سیاستدان، سماجی دانشور اس امر پر متفق ہیں کہ آزادی اظہار جمہوریت اور جمہوری اداروں کے استحکام کے لئے شرط ِ اول کی حیثیت رکھتی ہے جس کی عدم موجودگی میں صرف افواہ سازی کی صنعت ہی ترقی پاتی ہے جو ہر ملکی و قومی ادارے کی سلامتی و بقا کے لئے ڈائنامائٹ سے زیادہ خطرناک ہے یقیناً ایسا ہی ہے تو وطن عزیز سے حریت ِ فکر اور آزادی ٔ اظہار کے سوتوں کو بند کرنے کی راہیں کیوں تلاش کی جارہی ہیں۔
تازہ ترین