• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرے اہل خانہ اور دوست گواہی دیں گے کہ پاکستان کے بعد اگر کوئی ملک مجھے پسند ہے تو وہ ترکی ہے ۔ یوں تو ترکی کی آب و ہوا، قدرتی حسن، طرز معاشرت ، خوراک ، نفاست پسندی اور جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ مذہبی تصورات سب کچھ اچھے لگتے ہیں لیکن وہاں پر میرے لئے سب سے بڑی کشش وہاں کے لوگوں کی پاکستانیوں سے محبت ہے۔ ترکی دنیا کا واحد ملک ہے کہ جہاں کے لوگ ہم پاکستانیوں کی عزت کرتے ہیں ، بلکہ ہم سے محبت کرتے ہیں ۔ مشرقی ہویا مغربی ، دنیا کے کسی بھی ملک میں مقامی باشندے کی جب پاکستانی پاسپورٹ پر نظر پڑجاتی ہے تو ان کا ٹھیک موڈ خراب ہوجاتا ہے ۔ تاہم صرف ترکی ایسا ملک ہے کہ وہاں اگر مقامی بندے کا موڈ خراب بھی ہو لیکن جب پاکستانی پاسپورٹ پر نظر پڑتی ہے تو ان کا چہرہ کھل اٹھتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ مجھے پاکستان کے بعد اگر کسی ملک سے پیار ہے تو وہ ترکی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ترکی گزشتہ کئی سالوں سے ہمارے لئے اعتماد اور سکون کا ذریعہ بھی بنا تھا۔ جتنے اپنے ملک کے حالات کو دیکھ کر دکھی ہوجاتے تھے، اتنے ترکی کی خوشحالی کو دیکھ کر سکھی ہوجاتے تھے ۔ اسے نہ صرف ترقی یافتہ اور جدید مسلمان ملک کے ماڈل کے طور پر پیش کرتے تھے بلکہ پاکستان کے اندر سول ملٹری تنازع کے حل کے لئے بھی ہم ترکی کی مثال دے کر اپنے سیاستدانوں سے کہا کرتے تھے کہ وہ تصادم کی بجائے طیب اردوان کے ڈیلیوری کے ماڈل کی تقلید کرکے فوج کو اس کے کردار تک محدود کرنے کی کوشش کریں لیکن افسوس کہ کچھ عرصہ سے ترکی سے بھی پریشان کن خبریں آرہی ہیں اور بجائے اس کے کہ پاکستان ترکی کی تقلید کرتا، یوں نظر آتا ہے کہ جیسے الٹا ترکی ، پاکستان کی تقلید کرنے لگا ہے ۔ مغربی میڈیا میں توباقاعدہ پاکستانائزیشن آف ٹرکی (Pakistanization of Turkey)کی اصطلاح استعمال ہونے لگی ہے ۔ پہلے پاکستان کی طرح ،ترکی بھی پڑوسی ممالک کے تنازعات میں فریق بننے لگا ، پھر داخلی سیاسی اختلافات سر اٹھانے لگے ، پھر عالمی طاقتوں سے تعلقات کشیدہ ہونے لگے ، پھر داعش جیسی تنظیموں کے ساتھ مدد کے الزامات لگنے لگے ، پھر دہشت گردی کی لہر اٹھنے لگی اور اب بغاوت کی کوششوں تک سلسلہ دراز ہوگیا۔
اس میں دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ جدیدترکی کو خوشحال اور اسے ہم جیسے لوگوں کی امیدوں کا مرکز بنانے کا سہرا رجب طیب اردوان کے سر ہے ۔ اردوان اور ان کے ساتھی ہی تھے کہ جنہوں نے اجتہادی فکر سے کام لے کر ترکی کو انتہاپسندانہ سیکولرازم کے نرغے سے نکالا اور اسے ایک اعتدال پسند مسلمان ملک بنادیا ۔ انہوں نے ہی ترکی کو اقتصادی خوشحالی اورسیاسی استحکام کی منزل سے ہمکنار کیا اور ان کے ساتھیوں نے ہی اسلام کا ایک حسین اور جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیاکہ نہ صرف ان کی سیکولر فوج کو پیچھے ہٹنا پڑا بلکہ مغربی اور اسرائیل جیسے ملکوں کو بھی ان کے خلاف کسی سازش کا جواز ہاتھ نہیں آیا۔ ایک وقت تو ایسا بھی آیا کہ ترکی نے یورپی یونین کا حصہ بنانے کے لئے اپنے آپ کو یورپ کے مطلوبہ معیارات سے قریب تر کرلیا تھا لیکن کچھ دیگر وجوہات کی بنیاد پر یورپ نے اسے اپنے وجود کا حصہ نہیں بنایا۔لیکن اگر ان کارناموں اور کامیابیوں کا کریڈٹ جناب رجب طیب اردوان اور ان کے ساتھیوں کو جاتا ہے تو تاریخ موجودہ بے یقینی یا زوال کے لئے بھی کسی اور کو نہیں بلکہ رجب طیب اردوان ہی کو ذمہ دار قرار دے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ طیب اردوان سے بعض غلطیاں بھی سرزد ہوئیں اور کچھ عرصہ سے تو وہ غلطی پہ غلطی کرتے چلے آرہے ہیں ۔ یقینا لیڈر وہ تھے اور ہیں ۔ یوں ترکی کی ترقی اور خوشحالی کا زیادہ کریڈٹ بھی انہی کو جاتا ہے لیکن ترک معاشرے کو تعلیم یافتہ ، جمہوریت پسند اور انقلابی بنانے کا بیج نجم الدین اربکان اور فتح اللہ گولن جیسے لوگوں نے بویا تھا۔ اس کی آبیاری کچھ اور لوگوں نے کی اور اردوان صاحب کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوںنے انہیں پھل دار درخت بنانے اور پھل کو سمیٹنے کا کارنامہ سرانجام دیا ۔ اس میں بھی دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ انہوں نے اس کام کے لئے قربانی بھی دی اور غیرمعمولی حکمت و تدبر کا مظاہرہ بھی کیا۔ نوے کے عشرے سے لے کر 2013 تک اگر اردوان صاحب اور ان کے ساتھی سیاسی محاذپر سرگرم عمل تھے تو تعلیمی ، فلاحی اور ابلاغی اداروں کی شکل میں گولن تحریک ان کو توانائی فراہم کررہی تھی۔ اگر نجم الدین اربکان کی رفاح پارٹی اور گولن تحریک کی خدمات نہ ہوتیں تو اردوان صاحب کبھی سیاسی محاذپر وہ کامیابیاں حاصل نہیں کرسکتے تھے ۔ نجم الدین اربکان سے تو پھر بھی نظریاتی یا پھر حکمت عملی کا اختلاف تھا لیکن فتح اللہ گولن اور کئی دیگر ساتھیوں کے ساتھ اختلاف میں اردوان صاحب کو کوئی اخلاقی برتری حاصل نہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ دیگر مسلمان حکمرانوں کی طرح کچھ عرصہ سے اردوان صاحب کے ہاں بھی آمرانہ رجحانات دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ پہلی بار جب 2013ء میں اردوان صاحب کے بعض قریبی ساتھیوں کی کرپشن کا عدلیہ نے نوٹس لیا تو انہوں نے یہ سوچ کر کہ اس میں گولن تحریک کے لوگوں کا غلبہ ہے ، عدلیہ کے خلاف کارروائی کی اور اس وقت سے فتح اللہ گولن کو حلیف کے خانے سے نکال کر حریف ڈکلیئر کرلیا۔ اسی طرح وہ وزیراعظم تھے تو وزیراعظم کے اختیارات بڑھانے کے لئے سرگرم عمل تھے اور اب صدر ہیں تو صدارتی نظام لانے کے لئے کوشاں ہیں جس کی وجہ سے ان کے قریبی ساتھی دائود اوغلو کو وزارت عظمیٰ کے منصب سے مستعفی ہونا پڑا۔ گزشتہ ہفتہ کی بغاوت کی کوشش سے قبل بھی انہوں نے کئی اخبارات کو بند کیا تھا، کئی صحافیوں کو جیلوں میں ڈالا تھا، کئی سیاسی مخالفین کو پابند سلاسل کیا تھا، کئی ججز کو فارغ کیا تھااور سب سے بڑھ کر یہ کہ کئی قریبی ساتھیوں کو ناراض کیا تھا۔ کردوں کے ساتھ معاہدہ ٹوٹ گیا ہے ۔ شام و عراق میں ترکی کے کردار کی وجہ سے روس اور ایران جیسے ممالک بھی دشمن بن گئے ہیں اور مغربی ممالک بھی برہم ہیں ۔ کرد اور بعض دہشت گرد تنظیمیں ترکی میں دہشت گرد کارروائیوں میں مصروف ہوگئی ہیں اور فوج کا ایک طبقہ بھی ناراض ہے ۔ ان حالات میں جب بغاوت کی ناکام کوشش ہوئی تو ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ان غلطیوں کا ازالہ کیا جاتا جن کا ایک عرصہ سے ارتکاب ہورہا تھا لیکن بدقسمتی سے ایسا لگتا ہے کہ نہ صرف طیب اردوان صاحب انتقامی سوچ کا شکار ہوگئے ہیں بلکہ بغاوت کے اصل ذمہ داروں کی بجائے اس واقعہ کو گولن تحریک اور ہر قسم کے سیاسی مخالفین کی سرکوبی کے لئے استعمال کر رہے ہیں ۔ اے ایف پی کے مطابق اب تک ساڑھے سولہ سو جرنیل اور افسر فوج سے فارغ کردئیے گئے ۔ سولہ ہزار سے زیادہ افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے ۔ 131اخبارات اور میڈیا ہائوسز کو بند کردیا گیا ہے جب کہ اب سزائے موت کو بھی بحال کیا جارہا ہے ۔ لوگ حیران ہیں کہ فوجی بغاوت کے چند گھنٹے بعد کیسے پتہ چلا کہ اس کے پیچھے فتح اللہ گولن تھے اور اگر پہلے سے انٹیلی جنس معلومات تھیں تو پھر وقت سے پہلے تدارک کیوں نہیں کیا گیا۔ فتح اللہ گولن اور اردوان کے نظریات کے مقابلے میں میں طیب اردوان کے نظریات کا حامی ہوں لیکن میرا اندازہ ہے کہ گولن کو دشمن بنانے کی یہ روش اردوان صاحب اور خود ترک قوم کو بہت مہنگی پڑے گی ۔
فوج میں ان کا اثرورسوخ بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے لیکن عدلیہ، پولیس، تعلیم اور صنعت کے شعبوں میں گولن تحریک کی گہری جڑیں ہیں۔ ابھی تک گولن تحریک کے لوگ کسی تشدد میں ملوث نہیں رہے ہیں بلکہ وہ سیاسی نہیں بلکہ سماجی اور تعلیمی محاذوں پر سرگرم عمل تھے لیکن اگر انتقامی کارروائیوں کے ردعمل میں وہ تشدد کی طرف گئے تو ترکی کو خانہ جنگی سے کوئی نہیں بچاسکے گا۔گزشتہ ناکام بغاوت فوج کی نہیں بلکہ فوج کے ایک معمولی حصے کی بغاوت تھی جسے فوج ہی نے ناکام بنا دیا لیکن اگر طیب اردوان حکومت کی یہ انتقامی کارروائیاں اسی انداز میں جاری رہیں تو اس کے بعد حقیقی بغاوت کا خطرہ پیدا ہوسکتا ہے۔ طیب اردوان اور ان کے ساتھیوں نے یہ مقام مظلومات جدوجہد اور جمہوریت کے زور سے حاصل کیا تھا ، اب اگر وہ خود آمرانہ فیصلے کریں اور نظریاتی یا سیاسی مخالفین کو انتقامی سوچ کا نشانہ بنائیں تو خود کمزورہوں گے ۔ کاش عالم اسلام میں اس وقت کوئی ایسی شخصیت موجود ہوتی کہ جو طیب اردوان اور فتح اللہ گولن کو ساتھ بٹھاکر ان کی مفاہمت کرواتی ۔ طیب اردوان اورمیاں نوازشریف کی ذاتی دوست ہوگئی ہے اور شاید وہ یہ کام کرسکیں لیکن ان کو ان باتوں کی فہم اور فرصت کہاں؟


.
تازہ ترین