• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پہلے خبر پڑھ لیجئے۔ 26جولائی کی شام واحد بلوچ ایک دوست کے ہمراہ عمر کوٹ سے کراچی کا سفر کر رہے تھے، بس روک کر مسافروں سے شناخت مانگی گئی۔ شناختی کارڈ دیکھ کر واحد بلوچ اور ان کے ساتھی کو نیچے اتار لیا گیا۔ بس روانہ ہوگئی لیکن خیال رہے کہ مسافروں میں سے واحد بلوچ کو نیچے اتار لیا جائے تو گاڑیاں راستہ کھو بیٹھتی ہیں۔ واحد بلوچ لاپتہ ہوگئے ہیں۔ ان کی بس کو نا معلوم افراد نے روکا تھا۔ واحد بلوچ قوم پرست سیاسی رہنما ہیں۔ ملک دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں مصروف ہے۔ چار لفظ یہاں استعمال ہوئے ہیں۔ نامعلوم، لاپتہ، قوم پرست اور دہشت گرد۔ پاکستان کی کہانی ان چار لفظوں کی غلط تشریح کے نتیجے میں بے سراغ ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ قیام پاکستان کو سات دہائیاں گزر چکیں۔ کہنا یہ چاہئے کہ ہم نے قیام پاکستان کے بعد سات دہائیاں ضائع کی ہیں۔ اور اس زیاں میں لفظوں کے غلط استعمال کا بنیادی کردار ہے۔ واحد بلوچ کی بس روکنے والے نامعلوم افراد نہیں تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں ان کی نشاندہی کرنے کی اجازت نہیں۔ اگر انہیں واقعی جرائم پیشہ افراد نے اغوا کیا ہے تو کیا ریاست ان قانون شکنوں کا تعاقب کر رہی ہے؟ کیا متعلقہ تھانے میں مقدمہ درج کر لیا گیا ہے؟ تفتیش کس مرحلے میں ہے؟ ایک دوسرا ممکنہ زاویہ یہ ہے کہ واحد بلوچ لاپتہ نہیں ہوئے، انہیں قومی مفاد میں تحویل میں لے لیا گیا ہے۔ آئین کا آرٹیکل 10 الف اس ملک کے شہریوں کو منصفانہ سماعت کی ضمانت دیتا ہے۔ منصفانہ سماعت کے لئے ضروری ہے کہ گرفتاری شفاف ہونی چاہئے۔ ملزم کو واضح طور پر بتانا چاہئے کہ اسے کس الزام میں گرفتار کیاگیا ہے۔ گرفتار شہری کو اپنے عزیز و اقارب اور وکیل سے رابطے کا حق ہے۔ اسے معلوم ہونا چاہئے کہ وہ کس قانونی ادارے کی حراست میں کس جگہ پر رکھا گیا ہے اور یہ کہ اسے گرفتاری کے بعد کس عدالتی اہلکار کے سامنے پیش کیا گیا ہے تا کہ اس کی تحویل کو قانونی درجہ مل سکے۔
واحد بلوچ کے معاملے میں گمان ہے کہ وہ لاپتہ نہیں ہوئے، انہیں پوری نیک نیتی سے تحویل میں لے لیا گیا ہے کیونکہ واحد بلوچ کی شہرت قوم پرست ہونے کی ہے۔ اور قوم کے لفظ پر ہمارے ملک میں سات دہائیوں سے تنازع چل رہا ہے۔ ملک کا آئین کہتا ہے کہ پاکستان کی ریاست چار وفاقی اکائیوں کے رضاکارانہ طور پر ایک قومی ریاست میں شامل ہونے سے وجود میں آئی۔ گلگت بلتستان، آزاد جموں کشمیر اورسات قبائلی ایجنسیاں بھی پاکستان کی جغرافیائی حدود میں شامل ہیں۔ تاہم پاکستان کا وفاق ان چار اکائیوں کا مرہون منت ہے جنہوں نے ایک اکائی کے طور پر پاکستان کی نئی ریاست کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا تھا۔ صوبہ سندھ کی اسمبلی نے قرارداد پاس کی۔ صوبہ سرحد نے استصواب میں اپنا فیصلہ دیا۔ پنجاب کی اسمبلی نے ووٹ کا طریقہ کار استعمال کیا۔ بلوچستان میں عوامی نمائندگی کے ممکنہ طریقہ کار سے پاکستان کے حق میں فیصلہ دیا گیا۔ پاکستان کے بننے سے بہت پہلے یہاں پشتون، بلوچ، سندھی اور پنجابی آباد تھے اور ان اکائیوں نے رضاکارانہ طور پر پاکستان کا حصہ بننا قبول کیا۔ تب کسی نے یہ مطالبہ نہیں کیا تھا کہ سندھی، بلوچ، پنجابی اور پختون اپنی ثقافتی، لسانی اور نسلی شناخت سے دستبردار ہو جائیں گے۔ پاکستان نے اپنی وفاقی اکائیوں کو احترام کے ساتھ قبول کرنے کی ضمانت دی تھی۔ پاکستان کی آزاد ریاست اس امر کی ضمانت دیتی ہے کہ یہاں پیدا ہونے والے تمام شہریوں کو پاکستان میں برابر کا شہری تسلیم کیا جائے گا۔ انہیں اپنی مذہبی، ثقافتی، لسانی اور وابستگیوں کی آزادی دی جائے گی۔ پاکستان کی آزادی پاکستان کے شہریوں کی آزادی سے الگ نہیں ۔ پاکستان کا استحکام پاکستان کی وفاقی اکائیوں کی ترقی سے جدا شے نہیں ۔ بلوچ، سندھی، پختون اور پنجابی شناخت سے محبت کرنا وطن سے غداری نہیں بلکہ پاکستان کی مضبوطی کی ذمہ داری اٹھانا ہے۔ قوم پرستی پاکستان سے دشمنی نہیں، پاکستان سے محبت کا نشان ہے۔
ہم نے اس ملک میں بہت سی اونچ نیچ دیکھ رکھی ہے۔ تاریخ کو ماضی میں جا کر درست نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم ماضی میں کئے اچھے برے اقدامات سے سبق حاصل کرنا چاہئے۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ ہم نے پاکستان میں کیا اچھا کیا۔ ہم نے آئین میں لکھا کہ قانون کی نظر میں ہر شہری برابر ہے۔ ہم نے آئین میں ضمانت دی کہ عورت اورمرد میں فرق نہیں کیا جائے گا۔ ہم نے آئین میں تحفظ دیا کہ پاکستان کے رہنے والوں کو اظہار کی آزادی دی جائے گی۔ ہم نے آئین میں لکھا کہ پاکستان کے ہر شہری کو عقیدے کی آزادی ہے۔ ہم نے آئین میں وعدہ کیا کہ پاکستان کی تمام زبانوں اور ثقافتوں کو ترقی کے مواقع دئیے جائیں گے۔ 1973 کے آئین کے بعد ہماری اہم کامیابی یہ تھی کہ1977 اور1999 میں ملک کے آئین پر شب خون مارا گیا تو ملک کے بہترین بیٹوں اور بیٹیوں نے مزاحمت کی۔ ہم نے کسی کو آئین منسوخ کرنے کی اجازت نہیں دی۔ قوم کے رہنماؤں نے 2006 میں میثاق جمہوریت کی صورت میں اعلان کیا کہ آئین سے انحراف کی حمایت نہیں کی جائے گی۔ قوم کے رہنماؤں کو موقع ملا تو انہوں نے 2010 میں اٹھارویں آئینی ترمیم کے ذریعے صوبوں کو اختیارات دے کر وہ وعدہ پورا کیا جو 1973 میں وفاق کی اکائیوں سے کیا گیا تھا۔
ہمارے ملک میں دہشت گردی کی تاریخ پیچیدہ ہے۔ ہم نے برس ہا برس دہشت گردی پر مباحث کئے ہیں۔ دہشت گردوں کی عذر خواہی کی ہے۔ اگر ہماری ریاست نے ڈھکے چھپے انداز میں دہشت گردی کی حمایت نہ کی ہوتی تو 20 جنوری 2002 کو پرویز مشرف کو دہشت گردی سے دست برداری کا اعلان نہ کرنا پڑتا۔ دہشت گردی کے لئے صرف تشدد کا عنصر کافی نہیں، تشدد کے پس پردہ کسی سیاسی نصب العین کی موجودگی تشدد کو دہشت گردی میں تبدیل کرتی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف ہمارے ملک میں قوانین بھی موجود ہیں اور عدالتیں بھی۔ مشکل یہ ہے کہ ہم نے کوتاہ نظری سے کام لیتے ہوئے دہشت گردی کی تفہیم کو سیاسی شعور کا حصہ نہیں بننے دیا۔ ہم نے غیر جمہوری مقاصد کے لئے قومی مفاد کی ایک اصطلاح گھڑی ہے۔ دعویٰ یہ ہے کہ قومی مفاد ایک نامعلوم پرندہ ہے جس کی پہچان کے لئے کسی مخصوص منصب پر فائز ہونا ضروری ہے۔ جاننا چاہئے کہ سیاسی کارکن محترم ترین شہری ہوتا ہے۔ سیاسی کارکن قومی مفاد کا سب سے بڑا محافظ ہے۔ سیاسی عمل کو ہاتھ سے پرے کرتے ہوئے عدلیہ کے دائرہ احتساب کو نظر انداز کیا جاتا ہے تو اپریل2016 میں تاریخ اپنا فیصلہ سناتی ہے کہ بلوچ سیاسی کارکنوں کو قومی مفاد کے لئے خطرہ قرار دینے والے قوم کے مفاد سے کھیل رہے تھے۔ چنانچہ انہیں بد عنوانی کے الزام میں فرائض منصبی سے سبکدوش کر دیا گیا ہے۔ پاکستان میں کون ہے جو آج حسن ناصر، نذیر عباسی اور حمید بلوچ کو غدار قرار دے۔ پوچھنا چاہئے کہ مجیب الرحمان شامی، الطاف حسن قریشی، حسین نقی اور صلاح الدین نے قلم کی آزادی کے لئے آواز اٹھا کر وطن سے محبت کی تھی یا قومی مفاد کو نقصان پہنچایا تھا۔
پوچھنا چاہئے کہ فروری 1976 میں اسد مینگل واقعی لاپتہ ہوگئے تھے یا انہیں قومی مفاد کی غلط تشریح کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ 26 اگست 2006 کو ایک رہنما کو راستے سے ہٹایا گیا تھا۔ اس کا قبیلہ بگٹی تھا اور وہ اکبر بلوچ تھا۔ تب ایک سینئر سیاستدان نے اکبر بگٹی کو دہشت گرد قرار دیا تھا۔ یہ یاد رکھنا بہتر ہو گا کہ ڈاکٹر شازیہ خالد کی فریاد پر کان دھرا جاتا تو اکبر بلوچ قتل نہ ہوتا۔ پاکستان سے محبت کرنے والے درخواست گزار ہیں کہ کتاب قبیلے اور قلم قافلے سے تعلق رکھنے والے واحد بلوچ کو زندہ رہنے دیا جائے۔ پاکستان کا دفاع کرنے والوں کے ہاتھ نہ کاٹے جائیں۔ ان سے دلیل نہ چھینی جائے۔ واحد بلوچ پاکستان کی دلیل ہے۔
تازہ ترین