• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکہ میں اپنی ایک مہینے کی چھٹی کے بعد میری پاکستان روانگی میں صرف تین دن باقی تھے جب کراچی میں نئی برٹش کونسل لائبریری کا افتتاح ہوا۔ نئی میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ یوں تو برٹش کونسل لائبریری پاکستان کے قیام کے ابتدائی سالوں میں قائم تھی مگر 15سال قبل اسے بند کردیا گیا تھا۔ اس طرح یہ نئی لائبریری اس پرانی لائبریری کی یاد دلانے کا سبب ہے۔ اور کم از کم میرے لئے اس پرانی لائبریری کی یادیں ان یادوں کی طرح ایک قیمتی اثاثہ ہیں کہ جن کا ذکر شاعری میں کیا جاتا ہے۔ اسی لئے مجھے کچھ عجیب سا محسوس ہوا کہ کراچی میں برٹش کونسل لائبریری نے دوسرا جنم لیا ہے اور میں اس کی افتتاحی تقریب میں شریک نہ تھا۔ ایک اور احساس نے بھی اداس کیا کہ میرا اس نئی لائبریری سے وہ رشتہ کبھی قائم نہیں ہوسکتا جو سن ساٹھ کی دہائی میں ایک ایسے ادارے سے تھا جسے میں مادر علمی کا درجہ دیتا ہوں۔ یہ وہ کہانی ہے جس کا ذکر میں اپنی تحریروں میں ایک سے زیادہ دفعہ کرچکا ہوں۔ یعنی یہ کہ میں نے کسی کالج یا یونیورسٹی سے تعلیم حاصل نہیں کی۔ لوگ جب پوچھتے ہیں تو میں کہتا ہوں کہ کراچی کی برٹش کونسل لائبریری ہی میری اوکسفورڈ اور میری ہارورڈ تھی۔ بات بڑھے تو میں اقرار کرلیتا ہوں کہ اس کے علاوہ ہالی وڈ کی اس زمانے کی فلموں نے بھی میری ذہنی اور جذباتی پرورش میں حصہ لیا۔ برٹش کونسل لائبریری تو تقریباً روز کا معمول بن گئی تھی۔ کتابیں مستعار لینے لی سہولت اپنی جگہ وہ لائبریری کراچی کی سڑکوں پر دور تک پیدل چلنے کے بعد میرے لئے ایک پناہ گاہ تھی۔ ٹھنڈی ، پرسکون اور کشادہ۔جس لائبریری کا میں ذکر کررہا ہوں وہ پاکستان چوک میں، گلابی پتھروں سے بنی ایک خوبصورت عمارت کی پہلی منزل پر تھی۔ پڑھنے کی عادت تو مجھے پہلے سے تھی اور اردو کے افسانوی ادب سے کچھ شناسائی بھی تھی البتہ انگریزی میں نے خود، بیشتر برٹش کونسل کی لائبریری میں بیٹھ کر سیکھی۔ خواب دیکھنے اور سوچنے کی مشق کا آغاز بھی شاید وہیں سے ہوا۔
برٹش کونسل کی لائبریری سے اپنے ذاتی تعلق کے ضمن میں بہت کچھ کہنے کو جی چاہتا ہے ۔ بنیادی بات یہ ہے کہ میں نے اس لائبریری سے جو فیض حاصل کیا وہ میرے خیال میں آج کل کے نوجوانوں کے نصیب میں  نہیں  ہے۔ اور ظاہر ہے کہ میں پاکستان کی موجودہ صورت حال کی بات کررہا ہوں۔ آپ اس خیال کو ضرور ایک مبالغہ سمجھیں گے۔ کمال ہے۔ آج کل کے نوجوان تو پوری دنیا کو جیب میں رکھ کر گھومتے ہیں۔ کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے جادو نے نوجوانوں ہی کو نہیں بلکہ بچوں کو بھی اپنے سحر میں جکڑ لیا ہے۔ اور کسی نہ کسی حد تک اس انقلاب کا تعلق لفظوں اور تحریروں سے بھی ہے۔ یہ تمام حقائق اور دلیلیں اپنی جگہ، میرا دکھ یہ ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو مطالعے کی عادت نہیں ہےاور لائبریریاں یا کتابوں کی دکانیں ہماری معاشرتی اور تعلیمی زندگی میں کوئی نمایاں مقام نہیں رکھتیں۔ میں اسے اپنا مشن سمجھتا ہوں کہ مطالعے کے ذوق اور عادت کی اہمیت کو اجاگر کروں۔ میں یہ کہتا رہتا ہوں کہ کتابوں کے بغیر نہ افراد اپنی زندگی کو سنوار سکتے ہیں اور نہ معاشرے آگے بڑھ سکتے ہیں۔ ہاں، یہ جو تہذیبی، تعلیمی اور جذباتی پسماندگی ہمارے معاشرے میں سرایت کرتی جارہی ہے تو لائبریریوں اور کتابوں کی دکانوں کا فقدان اس کی محض ایک علامت ہے۔ اس پسماندگی کی وجوہات بہت گمبھیر ہیں۔ ان میں تعلیم اور زبان اور نظریاتی انتشار کے مسائل بھی شامل ہیں۔ پھر بھی، بچوں میں مطالعے کے شوق کو بیدار کرنے اور عام زندگیوں میں کتابوں سے تعلق کو بڑھانے سے معاشرے کو قوت حاصل ہوگی اور ہم انتہا پسندی اور عدم برداشت جیسی آفات کا بہتر انداز میں مقابلہ کرسکیں گے۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ ہمارے قومی مسائل کچھ بھی ہوں۔ باہر کی دنیا ہمیں کتنا ہی تنگ کیوں نہ کرتی ہو، کتابیں ذاتی زندگی میں دوستوں کی طرح ہماری غم گسار بن سکتی ہیں۔ آخر کتابیں تفریح کے لئے دل بہلانے کے لئے بھی تو پڑھی جاتی ہیں۔ مطالعے کے شوق کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ فلسفہ تاریخ یا کلاسیکی ادب ہی پڑھیں۔ جاسوسی کہانیاں پڑھنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ بلکہ اچھی بات ہے۔ عادت پڑجائے تو اگلی سیڑھیاں بھی چڑھی جاسکتی ہیں۔
ذکر تو لائبریریوں کا ہورہا ہے۔ اب دیکھئے کہ کراچی جیسے بڑے شہر میں کہ جہاں پڑھے لکھے افراد کا تناسب دوسرے شہروں سے زیادہ ہے کوئی ایسی پبلک لائبریری نہیں ہے۔ جس سے عام شہری کتابیں چند دنوں کے لئے مستعار لے سکتے ہوں جو قومی لائبریریاں میں نے دیکھی ہیں ان کا ذکر تک کرنے کی مجھ میں ہمت نہیں ہے۔ ایک بات یہ بھی کہنے کی ہے کہ اب لائبریریوں کی ہیئت بدل چکی ہے۔ ان میں صرف کاغذ کی کتابیں نہیں ہوتیں۔ کمپیوٹر بھی ہوتے ہیں۔ نئی ٹیکنالوجی نے پورے نظام کو تبدیل کردیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میری یادوں کی برٹش کونسل کی لائبریری نئی لائبریری سے بہت مختلف تھی۔ پھر نئی لائبریری کا مطلب اب بھی کتابیں ہے۔ اور کاغذ کی کتابوں کا رومانس نہ صرف زندہ ہے بلکہ اسے فروغ حاصل ہورہا ہے۔ لائبریری اور کتابوں کی دکان کی ایک خاص فضا ہوتی ہے۔ میں اسے اپنی خوش قسمتی سمجھتا ہوں کہ میں نے دنیا کے کئی ملکوں کی لائبریریاں اور کتابوں کی دکانیں دیکھی ہیں۔ ان کے درمیان ایک ایسا رشتہ ہے جس کو صرف کتابوں سے محبت کرنے والے ہی سمجھتے ہیں۔ وہ یہ کہ اب کتابوں کی دکانیں بھی ایک قسم کی لائبریری بن گئی ہیں۔ یعنی آپ وہاں کافی وقت گزار سکتے ہیں۔ بیشتر بڑی دکانوں میں کافی ہائوس بھی ہوتا ہے کہ آپ چاہیں تو وہاں بیٹھ کر کوئی بھی کتاب یا رسالہ پڑھتے رہیں اور کچھ خریدے بغیر بھی واپس آجائیں۔ ایسا نہیں ہے کہ صرف امریکہ اور یورپ کے خوشحال، جمہوری ملکوں میں لائبریریوں اورکتاب گھروں کی یہ شان ہو۔ مثال کے طورپر میں نے برازیل میں، اس ملک کی اپنی پرتگیزی زبان کی کتابوں کی ایسی بہار دیکھی کہ حیران ہوگیا۔ جو دو بڑے شہر ہیں ان کی لائبریریوں کی عمارتیں ایسی ہیں جیسی کراچی کی میونسپل کارپوریشن کی تاریخی عمارت اور سڑکوں پر جگہ جگہ مشروبات اور سینڈوچ کے ساتھ ساتھ کتابوں کے کھوکھے بھی موجود ہیں۔ میں کبھی روس نہیں گیا اتنا مجھے معلوم ہے کہ عام روسی اپنے ادب میں جو لگائو رکھتے ہیں اس کی شاید کوئی اور مثال نہ ہو۔ دوسرے ملکوں میں مجھے جن روسی شہریوں سے ملنے کا موقع ملا ہے ان کے ادبی ذوق نے مجھے متاثر کیا ہے۔ چین اور جنوبی کوریا میں میں نے کتابوں کی ایسی دکانیں دیکھی ہیں جو میری نظر میں ان کی غیر معمولی معاشی ترقی کی آئینہ دار ہیں۔ میرے پاس بے شمار قصے کہانیاں ہیں لائبریریوں کی اور کتابوں کی دکانوں کی۔ ماسکو میں کتابوں کی چند دکانیں چوبیس گھنٹے کھلی رہتی ہیں۔ تائیوان کے دارالحکومت میں قائم ایک کتاب گھر کے بارے میں میں نے یہ پڑھا کہ کیسے وہاں رات کے دو تین بجے بھی نوجوانوں کا ہجوم رہتا ہے اور وہ کتابوں کے درمیان ہنستے گاتے ہیں۔ کتابیں کیسے افراد بلکہ پورے معاشروں کی زندگی پر اثر ڈالتی ہیں اس کی کہانی الگ ہے۔ جی تو بہت چاہتا ہے کہ میں چند مخصوص کتابوں کا ذکر کروں لیکن اس سے کیا حاصل۔ ہم تو بس اس بات سے خوش ہیں کہ کراچی میں برٹش کونسل لائبریری کا افتتاح ہوچکا ہے گو اس تک رسائی بہت محدود رہے گی اور یہ غیر ملکی سفارت خانوں کا کام تو نہیں ہے کہ وہ ہمارے لئے لائبریریاں کھولیں۔ پھر بھی ان کا شکریہ۔ اور خاص طورپر اس لائبریری کے لئے جو میری درسگاہ بنی۔


.
تازہ ترین