• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
زندگی میں ترقی کرنے کے لئے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے مثلاً جنہوں نے ترقی کی ہے ان کے بارے میں کہنا پڑتا ہے کہ بیکاری کے زمانے میں وہ ہمارے پاس آکر بیٹھا کرتا تھا ہم نے کبھی اسے منہ نہیں لگایا۔وزیر بننے کے بعد وہ اپنا پرانا زمانہ بھول گیا ہے، اب کبھی ملے تو نظریں ہی نہیں ملاتا ۔اگر آپ ترقی نہیں کرنا چاہتے تو آپ ایسے لوگوں سے پوچھے بغیر نہیں رہ سکتے کہ بیکاری کے زمانے میں جس شخص کو آپ نے منہ نہیں لگایا تھا وزیر بننے کے بعد وہ آپ کو لفٹ کیوں کرائے ؟ ترقی کے خواہشمند بعض لوگ اپنی ولدیت پر بھی بہت شرمندہ ہوتے ہیں ایک غریب مالی نے اپنے اکلوتے بیٹے کو اپنا پیٹ کاٹ کر پڑھایا لکھایا اور جب وہ بیٹا افسر بن گیا تو اپنے والد کو اپنے دوستوں سے چھپانے لگا ایک دن وہ اپنے طبقے کے لوگوں کے ساتھ اپنے گھر کے ڈرائنگ روم میں بیٹھا تھا کہ اس کے سیدھے سادے والد صاحب دھوتی اور بنیان پہنے ڈرائنگ روم میں چلے آئے اس پر صاحب زادے بہت پریشان ہوئے اور انہوں نے جھینپتےہوئے دوستوں سے اپنے والد کا تعارف کرایا کہ یہ میرے والد کے دوست ہیں اس پر والد صاحب نے کہا کہ انہیں غلطی لگی ہے میں ان کے والد کا دوست نہیں جس کا دوست ہوں اس کے لئے صیغہ تانیث استعمال ہوتا ہے میرے ایک دوست ترقی کرنے کے بہت خواہشمند ہیں وہ ماسی برکتے کے تنور سے کھانا کھانے کے بعد پرل کانٹی نیٹل کے باہر کھڑے ہو کر خلال کرتے ہیں۔کوئی دوست ادھر سے گزرے تو کہتے ہیں کہ پرائم منسٹر کے خصوصی ایلچی سے اہم مذاکرات کرنا تھے کھانے کی میز پر اس سے بات چیت کرنے کے بعد بس ابھی فارغ ہوا ہوں ،ان سے انکی دن کی مصروفیات پوچھیں تو وہ شروع ہو جاتے ہیں یہ مصروفیات سن کر اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا بھر کی اہم شخصیات اس گھنٹہ گھر کے گرد گھومتی رہتی ہیں اور ہمارے یہ دوست واقعی گھنٹہ گھر ہیں کہ پہلے دن سے جہاں کھڑے تھے آج بھی وہیں کھڑے ہیں ۔
اس قسم کے لوگوں کو تقریبات میں پہلی نشستوں پر بیٹھنے کا بھی بہت شوق ہوتا ہے کئی دفعہ تو یہ لائوڈ اسپیکر والے سے پہلے جلسہ گاہ میں پہنچ جاتے ہیں اور پہلی صف میں جا بیٹھتے ہیں اگر کبھی لیٹ ہو جائیں تو پچھلی صفیں چیرتے ہوئے آگے آتے ہیں اور عقابی نگاہوں سے خالی نشست ڈھونڈنے لگتے ہیں اگر خالی نشست نظر نہ آئے تو تقریباً کسی کی گود میں جا بیٹھتے ہیں جب لوگ اخبار میں شائع شدہ تصویر یا ٹیلی وژن کے خبرنامے میں انہیں پہلی صف میں بیٹھا دیکھتے ہیں تو ان صاحب کو احساس ہوتا ہے کہ ان کی مسلح جدوجہد رائیگاں نہیں گئی ۔ترقی کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اگر کسی محفل میں کسی اہم شخصیت کے برابر میں نشست حاصل کرنے میں کامیابی حاصل ہو جائے تو اس کے کان میں بات ضروری کی جائے خواہ وہ بات’’ ہور کیہ حال اے؟‘‘ہی کیوں نہ ہو اس سے ارد گرد بیٹھے ہوئے لوگوں کو اس شخصیت سے آپ کے انتہائی گہرے مراسم کا احساس ہوتا ہے ۔
بہت سے لوگ ترقی کرنے کے لئے دامے درمے قدمے سخنے قسم کے نسخے بھی استعمال کرتے ہیں خصوصاً کاروباری لوگوں کی اکثریت ان نسخوں پر عمل کرتی ہے اور ان کے تمام کام پوری سہولت سے ہوتے چلے جاتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ ترقی کی منزلیں طے کرتے کرتے کہیں کے کہیں پہنچ جاتے ہیں حتیٰ کہ ان میں سے کچھ اسپتال اور کچھ تو وقت سے بہت پہلے قبرستان تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔مگر میرا ایک دوست ترقی کے بہت خلاف ہے اس کا کہنا ہے کہ ترقی کی سمت متعین ہونا چاہئے مثلاً جہالت کی طرف ترقی کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ذہنی مفلسی کی طرف سفر کرنا مفید نہیں زندگی گزارنے کا حق آپ کا ہے ایسا نہ ہو کہ ترقی کرنے کی خواہش میں زندگی آپ کو گزارنا شروع کر دے۔ کھوکھلی زندگی کی سمت میں ترقی کرتے جانا زندگی کی حقیقی خوشیوں سے ہمیشہ کے لئے منہ موڑنے کے مترادف ہے انا اور خودداری کی قربانی عزیز و اقربا کی قربانی، اصولوں کی قربانی اعلیٰ قدروں کی قربانی اپنی زندگی کی باگ سیم وزر اور جاہ و حشمت کی خواہش کے سپرد کرنے کی قربانی سے ترقی کی جس منزل تک ہم پہنچتے ہیں اس منزل کی حیثیت ایک سیراب سے زیادہ نہیں ہوتی۔ میرے د وست کا کہنا ہے کہ افراد کے علاوہ جب قومیں بھی اس قسم کی ترقی کرکے سپرپاور بنتی ہیں تو اپنی ہوس کے نتیجے میں پوری انسانیت کے لئے خطرہ بن جاتی ہیں لہٰذا ترقی کرنے سے پہلے ترقی کی سمت ضرور متعین کرلینا چاہئے لیکن اگر کسی کے نزدیک ترقی کا مفہوم یہ ہے کہ وہ عقاب سے گدھ بن جائے تو اسے روکنے کا کوئی فائدہ نہیں کہ عقاب کے ذہن میں اس خواہش کی پیدائش ہی اسے گدھ بنانے کے لئے کافی ہے ۔ہماری قوم اس وقت اسی خواہش میں زندہ ہے چنانچہ پسماندہ بستیوں میں سردار بھی کسی بڑے گدھ کو منتخب کیا جاتا ہے جو بستیوں کو آباد نہیں، انہیں ویران دیکھنا چاہتا ہے ۔!
تازہ ترین