• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کشمیر کا مسئلہ اگر صرف جغرافیائی یا زمینی سرحدوں کا معاملہ ہوتا تو شاید اب تک حل ہو چکا ہوتا۔ حل نہ بھی ہوا ہوتا تو پس منظر میں جا چکا ہوتا اور کسی حد تک فراموش کر دیا جاتا۔ جیسے پاکستان اور بھارت کے درمیان سیاچن کا مسئلہ ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ یہ گلیشئر برسوں سے پاکستان کا حصہ تھا۔ دنیا بھر سے آئے کوہ پیما پاکستان ہی سے بلند و بالا چوٹیوں کو سر کرنے جاتے تھے۔ شدید سردیوں کے موسم میں جب سیاچن کی ڈھلوانیں بھی برف سے ڈھکی ہوتی ہیں، بھارتی فوج نے سیاچن پر اپنے مورچے جما لئے اور چوکیاں قائم کر دیں۔ یہ جنرل ضیاء الحق کا زمانہ تھا جو مارشل لاء کے ذریعے صدارت کا منصب سنبھال چکے تھے۔ جب اخبار نویسوں نے انہیں متوجہ کیا کہ بھارتی فوج نے ہمارے علاقے پر قبضہ کر لیا ہے تو اُن کا جواب تھا۔ ’’سیاچن کا کیا ہے؟ وہاں تو گھاس کی پتی بھی نہیں اُگتی‘‘۔ یہ 1984ء کی بات ہے۔ 32 سال کے دوران سیاچن کے آس پاس چھوٹی موٹی جھڑپیں ہوتی رہیں۔ ہمارے بہادر فوجی جوانوں نے شجاعت و بہادری کی زبردست داستانیں رقم کیں لیکن بھارتی قبضہ جوں کا توں برقرار ہے۔ 2003 میں جنرل پرویز مشرف نے بھارت سے جنگ بندی کر لی۔ لہٰذا ہر طرح کی فوجی سرگرمی ختم ہو گئی۔ بھارت اپنا پکا قبضہ جما کے بیٹھ گیا۔ دنیا بھی اسے بھول گئی اور خود ہم نے بھی اسے بھلا دیا۔
سیاچن جیسے ایشو کو آنکھوں سے اوجھل کر دینے یا بھلا دینے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آتی۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہاں کوئی انسانی بستی نہیں جہاں زندہ مخلوق رہتی ہو۔ جسے آزادی یا غلامی کا مسئلہ درپیش ہو۔ برفیلے پہاڑ احتجاج نہیں کر سکتے لہذا سیاچن پس منظر میں چلا گیا۔ لیکن کشمیر کا معاملہ مختلف ہے۔ یہ تقریباً ستر ہزار مربع میل پر محیط علاقہ ہے جہاں ڈیڑھ کروڑ سے زائد زندہ انسان بستے ہیں۔ ان میں سے ایک کروڑ سے زائد کشمیری مقبوضہ کشمیر میں بستے ہیں جنہیں ستر برس سے غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ یہ لوگ انسان ہیں۔ انسان اپنا دفاع، اپنی سوچ، اپنا دل اور اپنے جذبات رکھتا ہے۔ اُسے حیوانوں کی طرح کسی باڑے میں بند کر کے نہیں رکھا جا سکتا۔ اُنہیں زیادہ لمبے عرصے کے لئے غلام بھی نہیں بنایا جا سکتا۔ ان کے ہونٹوں پر تالے بھی نہیں ڈالے جا سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ تقریباً ستر سال گزر جانے کے باوجود بھارت کشمیر کے مسئلے کو کچل نہیں سکا۔ یہ مسئلہ آج بھی زندہ ہے اور اُس وقت تک زندہ رہے گا جب تک کشمیری عوام کو وہ حق نہیں مل جاتا جو عالمی برادری نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے ذریعے انہیں دیا تھا۔ تقسیم کے فوراً بعد جب واضح مسلم اکثریت کے اس خطے کو ہندو مہاراجہ کی ایک جعلی دستاویز کے ذریعے بھارت کا حصہ بنانے کی سازش کی گئی تو کشمیری عوام نے اسے مسترد کر دیا اور آزادی کے لئے میدان میں نکل آئے۔ مجاہدین نے جب کشمیر کا ایک حصہ آزاد کرا لیا اور بھارت کو لگا کہ وہ اب اس لشکر کا مقابلہ نہیں کر سکتا تو اس نے خود اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ دہائی دی اور جنگ بندی کی قرارداد منظور کرائی۔ سیز فائر کے ساتھ قراردادوں میں یہ بھی کہا گیا کہ کشمیری اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں گے۔ اقوام متحدہ کی زیر نگرانی استصواب رائے کا انتظام کیا جائے گا اور کشمیر کے لوگوں سے پوچھا جائے گا کہ وہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا بھارت کے ساتھ۔ اس بات کو اب 67 سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ 67 سال سے بھارت ہر حربہ اختیار کر چکا ہے۔ وہ ڈھٹائی کے ساتھ اپنے آئین میں ترمیم کر کے مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دے چکا ہے۔ وہاں انتخابات کا ڈرامہ بھی رچایا جاتا ہے۔ کٹھ پتلی حکومتیں بھی بنتی ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود آزادی کے جذبے کو نہیں کچلا جا سکا۔ 1990ء کی دہائی میں آزادی کی تحریک نے زور پکڑا تو بھارت کی سات لاکھ فوج کشمیریوں پر مسلط کر دی گئی۔ اس فوج نے جو مظالم ڈھائے اور جس طرح کی سفاکی کا مظاہرہ کیا۔ اس کی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی۔ انگریز سامراج سے نجات پانے کے لئے برصغیر سے کئی تحریکیں اٹھیں۔ ان میں ہندوئوں کی تحریکیں بھی شامل تھیں اور مسلمانوں کی بھی۔ انگریزوں نے ان تحریکوں کو کچلنے کے لئے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے۔ آزادی کا نعرہ لگانے والوں کو پھانسیاں دی گئیں۔ گولیوں سے چھلنی کیا گیا۔ قید میں ڈالا گیا۔ اذیتیں دی گئیں۔ جلیا والا باغ جیسے سانحے پیش آئے لیکن ان مظالم کے باوجود آزادی کا راستہ نہ روکا جا سکا۔ بھارت کے مظالم، انگریزی سامراج کے مظالم سے بھی کئی درجے آگے ہیں۔ لاکھوں کشمیری شہید ہو چکے ہیں۔ لاتعداد جیلوں میں گل سڑ رہے ہیں۔ بے شمار عورتوں کی عصمتیں لٹ چکی ہیں۔ کئی آبادیاں قبرستانوں میں بدل دی گئی ہیں۔ لیکن آزادی کی تڑپ جوں کی توں زندہ ہے۔
تازہ لہر کا پس منظر 21 سالہ کشمیری نوجوان برہان وانی کی شہادت ہے۔ اس نوجوان نے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے سوشل میڈیا کو ذریعہ بنایا اور پورے مقبوضہ کشمیر کی نئی نسل میں آزادی کی زبردست امنگ بیدار کر دی۔ برہان وانی کو بھارتی فوج نے گرفتار کر کے شہید کر دیا۔ اس خبر کے ساتھ ہی پورے مقبوضہ کشمیر میں احتجاج کی آگ بھڑک اٹھی۔ برہان وانی کا جنازہ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع کہا جاتا ہے۔ لاکھوں افراد شریک ہوئے اور پچاس بار نماز جنازہ پڑھانا پڑی۔ بھارتی فوج تحریکِ آزادی کی اس نئی لہر کو دبانے کے لئے پھر سے ظلم و ستم کے حربے آزمانے لگی ہے۔ ایک سو سے زائد افراد شہید کر دیئے گئے ہیں اور ہزاروں زخمی ہیں۔ ایسے افراد بھی ہیں جن کے چہرے بندوق کے چھروّں سے مسخ کر دیئے گئے اور جن کی آنکھیں پھوڑ دی گئی ہیں۔
حکومت پاکستان کی طرف سے بجا طور پر شدید ردعمل سامنے آیا۔ وفاقی کابینہ کا ایک خصوصی اجلاس بلایا گیا۔ فیصلہ ہوا کہ عالمی تنظیموں اور رہنمائوں کو خطوط لکھ کر بھارتی سفاکی کی طرف سے متوجہ کیا جائے۔ بطور احتجاج 20 جولائی کو پاکستان بھر میں یوم سیاہ منایا گیا۔ لیکن شاید یہ سب کچھ کافی نہیں۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہم بھارتی روّیہ دنیا پر پوری طرح واضح نہیں کر سکے۔ بھارت نے تو ہمیں ساری دنیا میں دہشت گرد کے طور پر متعارف کرا دیا ہے لیکن خود اُس کی دہشت گردی، نہتے انسانوں کا قتل عام، کشمیریوں پر مظالم، مختلف اقلیتوں پر ظلم و زیادتی کو ہم بین الاقوامی برادری تک نہیں پہنچا سکے۔ کیا وجہ ہے کہ انسانی حقوق کے بارے میں بڑی حساسیت کا مظاہرہ کرنے والی دنیا بھارت کے اس روّیے کا نوٹس نہیں لے رہی؟ کیا وجہ ہے کہ بھارتی مظالم پر انسانی حقوق کے عالمی ادارے خاموش ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ اپنے ان کالے کرتوتوں کے باوجود بھارت اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت باور کرانے میں کامیاب رہا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ بھارت اقلیتوں کی عبادت گاہیں پامال کرنے، ان کے حقوق کچلنے اور ان کے خون سے ہاتھ رنگنے کے باوجود خود کو سیکولر قرار دینے میں کوئی مشکل محسوس نہیں کرتا؟
ہمیں نہ صرف دفتر خارجہ اور وزارتِ اطلاعات کو زیادہ موثر اور فعال بنانا ہو گا بلکہ نئی حکمت عملی کے تحت بھارت پر دبائو بڑھانا ہو گا۔ وقت آگیا ہے کہ ہم ایک بار پھر اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹانے پر غور کریں تاکہ بھارت کٹہرے میں کھڑا ہو کر اپنے سیاہ کرتوتوں کا جواب دے سکے۔ اس مقصد کے لئے ضروری ہے کہ دنیا بھر میں پھیلے ہمارے سفارت خانے بھی کردار ادا کریں اور بین الاقوامی برادری کو بتایا جائے کہ وہ کشمیری عوام سے کیا گیا وعدہ پورا کرے اور بھارتی بربریت کا نوٹس لے۔


.
تازہ ترین