• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہر چند کہ کوئی ادارہ ہو یا حکمران، کوئی مکمل نہیں ہوتا۔ تاہم ہر ایک خلوص نیت سے اپنی ذمہ داریاں ادا کرتا ہے اور دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ ’’ہم اپنا فرض دیانت و امانت سے ادا کر رہے ہیں۔‘‘ لیکن وہ جو ہر اچھے کام میں کیڑے نکالتے ہیں جنہیں اپنے سوا ہر ایک کی کل الٹی ہی نظر آتی ہے وہ اس ٹوہ میں رہتے ہیں کہ سب کو اپنا ہمنوا بنا لیں۔ جہاں تک حکومت اور سیاسی جماعتوں کا تعلق ہے تو ان کی آپس کی لڑائی میں کسی اور کو شریک کر لینا یا کسی پر الزام دھرنا کہ وہ کسی کی حمایت و تائید کیوں کر رہا ہے اور سارا غصہ اس پر نکالنے کی تدبیر کسی صورت ’’جمہوری روایت‘‘ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ آج کے دور میں الیکٹرانک میڈیا ایک حقیقت ہے اس پر قدغن عائد کرنے کی کوششوں کو کسی صورت درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ جمہوریت کا تو حسن ہی یہی ہے کہ اس میں اختلاف کیا جاتا ہے اور دوسرے کو اختلاف کا حق دیا جاتا ہے۔ اس نظام میں تمام معاملات آپس میں مل بیٹھ کر طے کئے جاتے ہیں۔ ’’دھونس، دھاندلی، جبر‘‘ کا اس سسٹم میں کوئی گزر نہیں ہے اور کتنے ’’عظیم‘‘ ہیں وہ لوگ جو آج کے دور میں بھی اختلاف برداشت نہیں کرتے اور یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ دبائو ڈال کر ’’انتقامی اقدام‘‘ کر کے اپنی مرضی کی جا سکتی ہے۔ تو صاحبو! اب وہ دور لد گیا، اس دور میں کوئی چاہے کتنا ہی بڑا بااثر ہی کیوں نہ ہو اپنی من مانی نہیں کر سکتا۔ ’’جنگ اور جیو‘‘ ملک کا معتبر ہی نہیں سب سے بڑا میڈیا گروپ ہے جس نے ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لئے اہم کردار ہی ادا نہیں کیا بلکہ آزادیٔ صحافت کے لئے سابقہ آمر کے دور میں قربانیاں بھی دی ہیں۔ جیو کو بند کیا گیا، جنگ اور جیو کے اشتہارات بند کر کے اربوں روپے کا مالی نقصان بھی برداشت کیا لیکن جیو اور جنگ کو سلام کہ وہ کسی بھی آمر کے سامنے نہ جھکے اور نہ بکے۔ یہی نہیں جمہوری دور میں بھی اس میڈیا گروپ کو سچ بولنے کی پاداش میں انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا گیا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ جیو نیوز کو پچھلے نمبروں میں ڈالنے کی سازش کی گئی ہے اور یہ کتنی گمبھیر سازش ہے کہ پیمرا کے سربراہ نے وزیراعظم کو مراسلہ لکھ کر ان سے امداد طلب کی ہے اور کراچی میں جہاں کیبل آپریٹرز اس میں ملوث تھے ان کو پرانے نمبر بحال کرنے کا حکم دیا گیا۔ صحافت پر یہ حملہ کیوں کیا گیا اس حوالے سے جیو نیوز کا یہ مطالبہ بروقت ہے کہ اس حوالے سے ایک کمیشن قائم کیا جائے تاکہ اس میں ملوث چہروں کو بے نقاب کیا جا سکے۔ جہاں تک جنگ اور جیو کا تعلق ہے تو وہ ہر ایسی سازش کا عوام کی تائید سے مقابلہ کرنے کو تیار ہیں اور اسے کسی صورت کامیاب نہیں ہونے دیں گے لیکن یہ بات پیش نظر رکھی جائے کہ اس طرح کی حرکتوں سے جمہوریت اور جمہوری اداروں کو ہی نقصان ہو گا اور غیرجمہوری طاقتوں کو تقویت مل سکتی ہے!!
تازہ ترین