• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پہلے بھارتی وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ کی میٹھی میٹھی باتیں سنئے۔ میرے دورۂ پاکستان سے اچھے نتائج سامنے آئیں گے۔ پاک بھارت کشیدگی جلد ختم ہوگی۔ ہمارے دوستانہ تعلقات کو بسااوقات نظر لگ جاتی ہے۔ بھارت اپنے تمام ہمسایہ ممالک سے دوستانہ تعلقات برابری کی بنیاد پر استوار کرنے کا حامی ہے۔ خصوصاً اپنے بڑے ہمسایہ پاکستان سے تمام ترکشیدگی کے باوجود تعلقات بہتر رکھنے کے لئے بہت سی باتوں کو دوا سمجھ کر پی جاتے ہیں۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار دہلی کی مسلم کمیونٹی کی طرف سے اپنے اعزاز میں دیئے گئے ظہرانے کے موقع پر کیا۔ ان میٹھے میٹھے خیالات کی انتہا بھی ذرا ملاحظہ فرمایئے۔ ان سب جذبات کی تان اس بات پر ٹوٹی کہ بھارتی وزارت داخلہ کے ایک اہلکار نے کہا کہ اسلام آباد میں سارک کانفرنس کی سائیڈ لائن پر دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ مذاکرات نہیں ہوں گے۔ ان اجلاسوں کا بنیادی مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ طے شدہ ایجنڈے کے علاوہ ان موضوعات پر بھی آمنے سامنے گفتگو کی جائے جن کو بالعموم بھارت باقاعدہ ایجنڈے میں شامل کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ سارک ممالک کے وزارت داخلہ کی یہ سالانہ کانفرنس علاقائی امن و استحکام کے لئے منعقد کی جارہی ہے۔ پاک بھارت تعلقات کی پوری تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے۔ ایسے ہی دوغلے پن کا مظاہرہ ہر بھارتی حکمران کرتا رہا ہے۔ منہ پر رام رام بغل میں چھری۔ پاکستان نے ایک بار نہیں بارہا نہایت اخلاص کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا مگر اس کا انجام بے نتیجہ رہا۔ کیا بھارتی وزیرداخلہ کو اندازہ نہیں کہ پاکستان کشمیر میں ڈھائے جانے والے تمام تر مظالم کے باوجود اپنے دل پر غم کی بھاری سلیں رکھ کے بھارتی وزیرداخلہ کو خوش آمدید کہہ رہاہے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ بھارت معصوم اور نہتے کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے وحشیانہ تشدد پر اظہار ندامت کرتا، اظہارِ معذرت کرتا ، اظہار افسوس کرتا اور مستقبل میں مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی یقین دہانی کرواتا۔ بھارتی وزیرداخلہ پروفیسر راج ناتھ سنگھ کو یقیناً مسئلہ کشمیر کی تاریخ ازبر ہوگی۔ اگر انہوں نے قصداً یہ تفصیلات بھلا دی ہوں تو انہیں یاد دلادوں کہ ایک طرف ریڈ کلف ایوارڈ کے موقع پر بھارتی قائدین نے پانی کے بارے میں پاکستان کے خدشات کو دور کرتے ہوئے کہا کہ پانی تو قدرتی عطیہ ہے ۔ یہ کسی ملک کی میراث نہیں۔ یہ دریا جیسے صدیوں سے بہہ رہے ہیں تقسیم ہند کے بعد بھی اسی طرح بہتے رہیں گے مگر ان تمام باتوں کے باوجود اپریل 1948 میں بھارت نے پاکستانی نہروں اور دریائوں کا پانی بغیر کسی سبب کے بند کردیا۔
تقسیم ہند کے مسلمہ اصول کی صریحاً مخالفت کرتے ہوئے بھارت نے اپنی فوجیں کشمیر میں اتار کر وہاں کے راجہ کو انڈیا کے ساتھ الحاق پر مجبور کیا اور جب کشمیری عوام نے اس ظلم صریح کے خلاف مزاحمت کی تو بھارت جنوری 1948 میں خود سیکورٹی کونسل گیا۔ سیکورٹی کونسل نے بار بار بڑی زور دار قرار دادیں منظور کیں جن کے مطابق کشمیر میں استصواب رائے کی یقین دہانی کروائی گئی تھی۔ بھارت نے ان قراردادوں کو تسلیم کیا اور 1958تک اس وقت کے بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو پاکستانی حکمرانوں کے ساتھ اپنی ملاقاتوں میں اور بین الاقوامی ایوانوں اور اداروں میں کشمیر میں استصواب رائے کی خوشخبری سناتے رہے مگر بھارت نے عملی طور پر سیکورٹی کونسل کے ہر ایک اقدام کی مخالفت کی جو استصواب رائے کے لئے اٹھایا گیا۔ 1958کے بعد تو بھارت اس کمٹمنٹ سے بھی مکر گیا۔ ادھر پاکستانی حکمرانوں کی مداہنت کا یہ عالم ہے کہ وہ کشمیر کے بارے میں اپنی سفارتی، سیاسی اور اخلاقی ذمہ داری ادا کرنے سے بھی گریزاں رہتے ہیں۔ کشمیر میں اٹھنے والی موجودہ عوامی تحریک خالصتاً کشمیری تحریک ہے۔ اب تو کشمیری برملا پاکستان سے الحاق کے نعرے لگاتے ہیں اور بھارتی مظالم سے آزادی کے لئے وہ صرف اپنے دست و بازو پر یقین رکھتے ہیں۔ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران کشمیر میں موجود بھارتی فوج نے نہتے کشمیریوں پر ظلم و جبر کی انتہا کردی اور برہان مظفر وانی کے علاوہ دیگر 60کشمیریوں کو شدید زخمی کردیا جن میں سینکڑوں کی بینائی آنکھوں میں چھرے لگنے سے جاتی رہی۔ بھارت کشمیر کو تاریخی حقائق کے برعکس اپنا اٹوٹ انگ کہتا ہے۔ کیا کبھی کوئی حکومت اپنے شہریوں کے پرامن احتجاج کو روکنے کے لئے گولیوں اور ٹینکوں سے کام لیتی ہے؟
سائوتھ ایشین ایسوسی ایشن برائے علاقائی ترقی، بنگلہ دیش کے ایک سابق صدر ضیاء الرحمن کا برین چائلڈ ہے۔ اسی تنظیم کا آئیڈیا ایک ایسے علاقائی ادارے کا قیام تھا جیسے دنیا میں دوسرے علاقائی ادارے قائم ہیں۔ سارک کا بنیادی سلوگن خطے کے سات ممالک کے درمیان معاشی و ثقافتی تعاون اور ممبر ممالک کے درمیان ایک دوستانہ فضا میں سیاسی حالات پر افہام و تفہیم کے کلچر کو فروغ دینا شامل ہے۔ اس سلوگن میں بڑی کشش تھی۔ آغاز میں بنگلہ دیش ،بھوٹان، مالدیپ، نیپال، پاکستان سری لنکا اس کے ارکان تھے اب افغانستان کو بھی شامل کرلیا گیا ہے۔
معاشی ترقی اور غربت کا خاتمہ سارک تنظیم کا ایک بنیادی مقصد ہے۔ اگر بھارت خلوص نیت کے ساتھ اس مقصد کے حصول کے لئے پاکستان کے ساتھ اپنے سیاسی معاملات درست کرلے اور معاشی تعاون کو فروغ دے تو بھارت چند سالوں میں ایک پسماندہ معاشرے سے ایک ترقی یافتہ ملک بن سکتا ہے۔ اس وقت مصدقہ بین الاقوامی سروے کے مطابق بھارت کی 41.6آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ خط غربت سے نیچے کا مطلب یہ ہے کہ ایک فرد کی روزانہ آمدنی سوا ڈالر یعنی 125روپوں سے بھی کم ہے۔ اس طرح بڑے شہروں کی آبادی کا ایک بڑا حصہ بنیادی سہولتوں سے محروم غلیظ کچی آبادیوں میں رہنے پر مجبور ہے۔ ممبئی میں 40سے 50فیصد اور کلکتہ میں 30سے 40فیصد لوگ یا ان غلیظ آبادیوں کے غیرانسانی حالات میں رکھتے ہیں یا وہ فٹ پاتھوں پر بسیرا کرتے ہیں۔ بھارت میں 60.4فیصد لوگوں کو ٹوائلٹ کی سہولت تک میسرنہیں۔ شہروں میں ایک ایک پبلک ٹوائلٹ کے باہر لمبی لمبی قطاریں لگی ہوتی ہیں۔ پاکستان میں بھارت جیسے ہولناک حالات تو نہیں مگر یہاں بھی پسماندگی، انتہا کو چھوتی ہے۔ پاکستان میں تقریباً 40فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے ۔ حکومت پاکستان کی تمام تر مبالغہ آرائی کے باوجود پاکستان کے تقریباً 45فیصد بچے زیور تعلیم سے محروم ہیں۔ یہ بچے حکومتی دعوئوں کے باوجود ورکشاپوں، چائے خانوں، دکانوں اور گھروں میں محنت مزدوری کرنے کی مشقت سے دوچار ہیں۔ اسی طرح پاکستان اور انڈیا کے عام سرکاری اسپتالوں کی حالت نا گفتہ بہ ہے۔ اگرچہ بڑے بڑے بھارتی شہروں میں عالمی معیار کے اسپتال موجود ہیں مگر یہاں غریب تو غریب مڈل کلاس کے لوگ بھی علاج نہیں کروا سکتے۔ دونوں ممالک کے سالانہ بجٹ کا ایک بہت بڑا حصہ عوامی بہبود یا ترقیاتی منصوبوں پر خرچ ہونے کے بجائے دفاع کے اخراجات کی نذر ہوجاتا ہے۔
بھارت کبھی بنگلہ دیش کو آنکھیں دکھاتا ہے، کبھی نیپال کا محاصرہ کرلیتا ہے اور کبھی پاکستانی سرحدوں کا تقدس پامال کرتا ہے اور کبھی افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف سازشیں کرتا ہے۔ اگر بھارت اخلاص نیت کے ساتھ سارک کے مقاصد کا احترام کرے اور اس کے اہداف کے حصول کیلئے حقیقی معنوں میں کوشش کرے تو علاقے میں خوشگوار معاشی و تجارتی فضا قائم ہوجائے گی جس سے اس خطے کی قسمت بدل سکتی ہے۔ بھارت جب تک اپنے دماغ سے علاقائی تھانیداری کا خیال نہیں نکالتا اور انصاف کے اصولوں کو مدنظر نہیں رکھتا اس وقت تک ممبر ممالک کے درمیان حقیقی تعاون کی فضا کیسے قائم ہوسکتی ہے۔
انڈیا کے بعض باضمیر دانشور اور صحافی گاہے گاہے بھارتی حکومت کی جارحانہ پالیسیوں کو نشانہ تنقید تو بناتے رہتے ہیں مگر اس ضمن میں جس بھرپور مہم کی ضرورت ہے وہ دیکھنے میں نہیں آتی۔ پاکستان کے آئوٹ اسپوکن وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اگر میرے بھارتی ہم منصب مجھ سے ملاقات کے خواہاں نہیں تو مجھے بھی ان سے ملاقات کا کوئی شوق نہیں۔ ہم چوہدری صاحب سے اختلاف کریں گے۔ بھارت کی کشمیر میں دہشت و بربریت اور پاکستان کے خلاف درپردہ جارحانہ عزائم کے باوجود گھر آئے ہوئے مہمان کا احترام واجب ہے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستانی وزیرداخلہ کو کوئی غیررسمی موقع تلاش کرتے ہوئے اور سفارت کاری کی نزاکتوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے وماعلینا الاالبلاغ کے مصداق بھارت کی کشمیر میں وحشیانہ زیادتیوں اور سلوک کے مقاصد کی پامالی کا ریکارڈ تو بھارتی مہمان وزیرداخلہ کے سامنے پیش کرنا چاہئے اور انہیں باور کرانا چاہئے کہ اگر بھارت صدق دل سے چاہے تو یہ علاقہ ایک مثالی پرامن اور ترقی یافتہ خطہ بن سکتا ہے۔ بھارت اگر انصاف کے تقاضوں اور اپنی کمٹمنٹ کے تحت کشمیر میں استصواب رائے کی راہ ہموار کرے تو پھر ہر ناممکن ممکن ہوجائے گا۔ سارک خطے کے عوام نے اس تنظیم سے بڑی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔ مثبت بھارتی رویہ ہی خطے میں امن و استحکام اور اقتصادی خوش حالی کی نوید سنا سکتا ہے۔
تازہ ترین