• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم بار بار مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کیلئے اقوام متحدہ پر زور ڈالتے ہیں مگر اپنی داخلی اور خارجی کمزوریوں کا ذکر نہیں کرتے، ہندوستان کے سفارت خانوں میں جو کارکن کام کرتے ہیں وہ ہر سطح پر کشمیر کو اولیت دیتے ہیں اور کشمیر کو بھارت کا ’’اٹوٹ انگ‘‘ کہتے ہیں جبکہ بھارتی عوام اس مسئلہ کو اپنے لئے ایک عذاب سے کم نہیں سمجھتے، وہاں کے سیاست دان اور عوامی نمائندے اس مسئلے کو کھلے بندوں اپنے مسائل کا ذمہ دار اور مہنگائی کا قصوروار قرار دیتے ہیں خواہ اپوزیشن لیڈر شپ ہو یا سرکاری۔ مہنگائی اور دیگر مسائل کا ذمہ دار بھی کشمیر کو قرار دیتے ہیں۔ بھارتی عوام کی شدید ترین خواہش ہے کہ پاکستان کے ساتھ دیگر مسائل کے علاوہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جائے مگر ہماری سفارتی کوششیں اس مسئلے پر کوئی خاص توجہ نہیں دیتیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہندوستان پاکستان کی دو جنگیں اس کی وجہ سے ہوچکی ہیں۔ہندوستانی وزیراعظم جواہر لعل نہرو/ شیخ عبداللہ کو شیر کشمیر کہتے تھے، وہ نیشنلسٹ مسلمانوں کے لیڈر اور جواہر لعل نہرو کے ذاتی دوست بھی تھے اور انہوں نے اعتبار کرتے ہوئے کشمیر کے مسئلہ کو بھارت کے ساتھ جوڑ دیا۔ روایتی طور پر جواہر لعل نہرو نے ڈاکٹر شمع پرساد مکھر جی کو اشارہ دے کر شیخ عبداللہ اور مرزا افضل بیگ کو سین سے ہٹا دیا۔ مکھر جی کی جماعت کے لیڈر آج کل بھارتی وزیراعظم نریندر مودی ہیں۔ میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ کشمیر کے نام پر انتخابات جیتنے والے ہمارے ساتھ پرامن طور پر اس مسئلہ کو کیسے حل کریں گے۔ رہا ہماری سیاسی جماعتوں کا مسئلہ تو وہ کشمیر کے نام پر صرف سیاست کرتی ہیں اور نعرے کے طور پر استعمال کرتی ہیں، ہمارے آزاد کشمیر میں انتخابات میں عوام نے نواز شریف کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے جبکہ مقبوضہ کشمیر میں نریندر مودی کی سرکار کے خلاف کسی سپورٹ کے بغیر کشمیری عوام آزادی کشمیر کے حق میں مسلسل تحریکیں چلا رہے ہیں، وہاں سینکڑوں لوگ زخمی اور کافی تعداد میں شہید ہوچکے ہیں مگر اقوام متحدہ میں اس مسئلہ پر گہری خاموشی چھائی ہوئی ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہماری سفارتی مشینری کوئی سرگرمی دنیا کے ملکوں میں نہیں دکھا رہی ۔ جب تک ہمارے یہاں حالات کو سمجھنے اور تاریخ کی گہرائیوں میں پہنچنے والی لیڈر شپ نہیں آئے گی ہم ہندوستانی سیاست کے دائو پیچ نہیں سمجھ سکتے۔ شیخ عبداللہ نے ہندوستانی سیاست میں جنرل شاہ نواز کے ساتھ مل کر اپنے پائوں جمانے کی کوشش کی مگر راجیو گاندھی کی سرکار نے میرٹھ میں ان کا پہلا جلسہ ہی درہم برہم کرا دیا، اور میرٹھ میں مسلمانوں کو بے یارو مددگار کردیا گیا۔ خدارا ہندوستانی لیڈر شپ کو سمجھنے کی کوشش کیجئے۔ ہمارے یہاں حالت یہ ہے کہ اس بحث میں الجھے رہتے ہیں کہ عید کا چاند نظر آیا کہ نہیں آیا۔ اگر پاکستانی افواج مختلف اوقات میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش نہ کرتیں تو پتا نہیں کیا ہوتا۔ انڈونیشیا کے صدر ڈاکٹر محمد سوئیکارنو نے ایک دفعہ کہا تھا کہ اگر یہ ہی حالت رہی تو ہم ایک اور اقوام متحدہ بنا لیں گے جس پر یورپ کے ایوانوں میں زلزلہ آگیا تھا اور ڈالر کی پوزیشن کمزور ہوگئی تھی، مگر ہماری کوتاہیوں نے کوئی سرگرمی نہیں دکھائی، مسئلہ کشمیر ابھی تک لٹکا ہوا ہے۔ اس کی وجہ صرف بھارت کا جنگی جنون ہی نہیں ہماری غیر موثر پالیسیاںبھی ہیں۔ جب تک ہم ٹھوس اور حقائق پر مبنی پالیسیاں ترتیب نہیں دینے بھارت کے جنگی جنوں پرقابو نہیں پا سکیں گے۔ ہماری پالیسیاں ہی د نیااور اقوام متحدہ پر اثر انداز ہوسکتی ہیں اور ان کو قائل کرسکتی ہیں کہ وہ اس مسئلے کو فوری طورپر حل کرانے میں اینا کردار ادا کریں۔


.
تازہ ترین