• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چونکہ ہمیں دنیا کی سب سے ’’فریہلی‘‘ یعنی فارغ البال قوم ہونے کا اعزاز حاصل ہے اس لئے ہم کبھی تو مشرف کے مرض میں مبتلا رہتے ہیں کبھی ہمیں گلو بٹ ہو جاتا ہے اور کبھی ہمیں اپنی رہی سہی توجہ رنگ برنگی افواہوں پر مرکوزکرنی پڑتی ہے۔ ان دنوں ہماری قوم اور حکومت کو پچھلے ایک ہفتے سے طاہر القادری کا بخار چڑھا ہوا ہےا ور اس ضمن میں جس بے احتیاطی اور بدپرہیزی کا ارتکاب کیا جا چکا ہے اس سے لگتا یہی ہے کہ یہ سلسلہ آئندہ چند ہفتے مزید جاری رہے گا جس کے سبب حکومت اور میڈیا آئندہ بھی اسی بخار میں مبتلا رہیں گے۔
گزشتہ دو تین دن میں ہم نے کالم نویسی کے لئے جتنے بھی موضوعات منتخب کئے ان سب کا تعلق کسی نہ کسی طرح طاہر القادری کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ چنانچہ پانچ سات کالم اس ایک موضوع پر جھونکنے کی بجائے ہم نے یہ سب کچھ ایک ہی ہلے میں بھگتانے کا قصد کیا ہے۔
خواجہ سعد رفیق کی گفتگو
اس موضوع پر ایک ہی طرح کی باتیں سن سن کر ہمارے کان، ناک، گلا حتیٰ کہ بعض دیگر مقامات بھی باقاعدہ پک چکے ہیں اور کسی وزیر مشیر کی بات سننے کو تو اب دل ہی نہیں چاہتا، مگر گزشتہ دنوں خواجہ سعد رفیق کو جیو ٹی وی پر عائشہ بخش کے نئے پروگرام نیوز روم میں گفتگو کرتے سنا تو ہم پر سکتہ طاری ہونے لگا۔ خواجہ صاحب کو زندگی میں پہلی بار ایک پریشان کن موضوع پر نہایت اطمینان اور سکون کے ساتھ انتہائی مدلل باتیں کرتے سنا۔ اس قدر نپی تلی گفتگو کرتے ہم نے کبھی کسی وزیر کو نہیں سنا۔ اس کی بنیادی وجہ ہو سکتا ہے عائشہ بخش ہی ہو مگر دیگر وجوہات میں سرفہرست یہ تھی کہ اس روز خواجہ سعد رفیق کی طبیعت میں بلا کا ٹھنڈ پروگرام دکھائی دیتا تھا۔ آپ کے لہجے میں نہ تو وہ نزعی کیفیت تھی جو اکثر ٹاک شوز میں نظر آتی ہے اور نہ ہی وہ بے چینی، اضطراب اور غصہ تھا جو ہمارے وزراء کا مجموعی رویہ بن چکا ہے، نواز شریف کو چاہیے کہ مذکورہ پروگرام کی فوٹیج اپنے تمام شعلہ بیان وزیروں کو بھجوائیں کیونکہ ان احباب کو میڈیا کی گیدڑ سنگھی تو مل گئی ہے مگر ترکیب استعمال سے یہ لوگ صریحاً بے بہرہ ہیں۔
پرویز الٰہی کاشامل باجا
طیارے سے لے کر جناح ہسپتال تک چودھری پرویز الٰہی کو ہم نے طاہر القادری کے جلوس میں شامل باجے کے طور پر دیکھا۔ اس دوران بیچارے چودھری صاحب کو تقریباً وہی حرکتیں کرتے دیکھا گیا جو شامل باجوں کو عموماً نا چاہتے ہوئے بھی کرنی پڑتی ہیں۔ قادری صاحب کی تقریر کے دوران موصوف ان کے کان کے ساتھ منہ لگائے جو جو لقمے دے رہے تھے وہ ٹی وی پر صاف سنائی دیئے۔ آپ کا جوش اور جذبہ طاہر القادری سے بھی چار ہاتھ آگے تھا کیونکہ آپ کے دیئے گئے ہر لقمے کا لب لباب تقریباً یہی تھا کہ :
٭ قادری صاحب، شہباز شریف جانے نہ پائے، شکریہ۔
٭ علامہ صاحب انہیں الٹا لٹکایئے، شکریہ۔
٭ مولوی صاحب آپ ان سے استعفیٰ کیوں نہیں مانگ رہے، کہیں آپ سو تو نہیں رہے؟
٭ ڈاکٹر صاحب، یہ لوگ کسی رورعایت کے قابل نہیں ہیں، شکریہ
اس سے ملتی جلتی حرکتیں کرتے ہم نے چند برس پہلے ملک غلام مصطفیٰ کھر کو بھی دیکھ رکھا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا، جب نواز شریف جلا وطنی سے واپس آئے تو ان کے ہمراہ چند صحافتی مالشیؤں کے ساتھ کچھ سیاسی شامل باجے بھی تھے۔ مصطفیٰ کھر صاحب ان میں پیش پیش تھے مگر نواز شریف کی طوطا چشمی دیکھئے کہ بیچارے کھر صاحب کو الیکشن میں پارٹی ٹکٹ تک نہ دیا۔ ہیں جی؟
پرویز الٰہی نے تقریباً یہی کچھ زرداری حکومت میں شامل ہو کر بھی کیا تھا۔ کاش اس وقت ان کے سر پرڈپٹی پرائم منسٹر بننے کا شوق سوار نہ ہوتا اور کاش اس وقت وہ اپنے آس پاس پھرنے والے سیاسی نابالغوں کی بات پر کان نہ دھرتے تو عام انتخابات میں ان کی پارٹی کی مٹی اس طرح پلید نہ ہوتی جس طرح ہوئی۔ اللہ تعالیٰ چودھری صاحب کو آئندہ شامل باجا بننے سے محفوظ رکھے اور ان کے صاحبزادے کو سخت کوشی اور جان ماری کی توفیق بخشے کہ پارٹیاں بند کمروں میں بیٹھ کر نہیں چلائی جاسکتیں!
گلاس توڑا بارہ آنے
علامہ طاہر القادری نے اپنی گلاس توڑ روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اس مرتبہ بھی اگر کچھ کیا ہے تو وہ جہاز کے اندر تک ہی محدود تھا، اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ یعنی حصول اقتدار کی گزشتہ یلغار آپ نے ایک نرم گرم کنٹینر میں بیٹھ کر کی اور حالت یہ رہی کہ قمر زمان کائرہ جیسے ہومیوپیتھک وزیر نے آپ کو پچھاڑ ڈالا۔ اس مرتبہ گورنر چودھری سرور جیسے بے ضرر شخص سے وہی کچھ کروا کر تاریخ نے اپنے آپ کو دہرایا۔
آخر کیا وجہ ہے طاہر القادری صاحب جب بھی حملہ آور ہوتے ہیں، انہیں پورے پلان سے آگاہ کیوں نہ کیا جاتا۔ یعنی ادھر گھمسان کا رن پڑتا ہے اور ادھر آپ غیبی امداد کے لئے آسمان یا ’’کمک طلب‘‘ نظروں سے راولپنڈی کی طرف دیکھنے لگتے ہیں۔ آپ کا سیاسی تذبذب اور پالیسی کنفیوژن دیکھ کر وہ مقرر یاد آتا ہے جو تقریر بھول کر پہلے ادھر ادھر دیکھتا ہے پھرسر وغیرہ کھجاتا ہے اور آخر میں پاس کھڑے کسی شخص کی طرف دیکھ کر پوچھتا ہے،
’’ہور کی حال اے؟‘‘
تازہ ترین