• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یوں تو اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے پر عمل کرتے ہوئے ناروے میں پاکستانیوں نے سیاست، تجارت اور محنت کے محاذوں پر جو سنگ میل عبور کئے ہیں وہ بالکل ایک انوکھی داستان ہیں مگر جو کارنامے دوسری نسل نے تعلیمی اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے میدان میں رقم کئے ہیں وہ یقیناً اس قابل ہیں کہ ان کا تذکرہ فرداً فرداً کیا جائے۔ جس طرح یہ کہاوت زبان زد عام ہے کہ یہودی اگر امیر نہیں تو وہ یہودی نہیں۔ اسی طرح ناروے کے کسی پاکستانی کے گھر میں ڈاکٹر نہیں تو وہ پاکستان کا گھر نہیں۔
1970ء میں جب پاکستانی ناروے میں قیام پذیر ہوئے تو ان کی نظر میں اتنی وسعت نہیں تھی کہ ہوس سرمایہ کے علاوہ کچھ اور مطمح نظر ہوتا۔ مگر جب انہوں نے فیصلہ کرلیا کہ جینا یہاں مرنا یہاں ہے تو ان کے اہداف بالکل بدل گئے کہ اب اپنے بچوں پر اور ان کے بارے میں سرمایہ کاری کرنی ہے۔ اخلاقی تربیت کے لئے مساجد تعمیر کر دی گئیں اور تعلیم کے لئے ماحول ریاست نے فراہم کردیا۔
ابتدائی 20 سالوں میں والدین جن تجربات سے دوچار ہوئے اس نے سود و زیاں کا معیار بدل دیا۔ ہر کنبے نے اپنی ترجیحات کے مطابق تجارت، معاشی ہنر میں اپنا ایک الگ مقام پیدا کرلیا۔ تین شعبوں میڈیسن، صحافت اور قانون میں داخلہ لینا اتنا ہی مشکل تھا جتنا عام آدمی کا پاکستان کی سیاست میں حصہ لینا لیکن انہی تینوں میدانوں میں بحیثیت قوم پاکستانی طالب علموں خاص طور پر لڑکیوں نے نہایت اعلیٰ مقام حاصل کیا ہے۔2005ء کی شماریات کے مطابق اعلیٰ تعلیم سے منسلک اصل نارویجیئن 23.4 فیصد ہیں اور پاکستانی مرد 29.9فیصد جبکہ پاکستانی خواتین 36.4 فیصد ہیں۔ یہ تعداد صرف ناروے میں زیر تعلیم پاکستانیوں کی ہے جبکہ بے شمار پاکستانی طالب علم پولینڈ اور ہنگری میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ پولینڈ کا معیار تعلیم دنیا میں سب سے اعلیٰ ہے۔میڈیسن میں پاکستانیوں کا آئیڈیل فرخ عباس چوہدری ہیں۔ فرخ عباس اوسلو یونیورسٹی کے بایوٹیکنک انسٹی ٹیوٹ سے منسلک ہیں۔ یہ ہر سال دس طالب علموں کو ڈاکٹریٹ کی تیاری کراتے ہیں انہوں نے سینٹرل نروس سسٹم میں سگنل کی ترسیل میں Ph.D کیا ہے۔ فرخ عباس نے 98میں فل برائٹ فائونڈیشن اسکالرشپ ایوارڈ اور ہزمیسجسٹی کنگ ایوارڈ حاصل کیا ہے۔ ان کے بے شمار مضامین بین الاقوامی سائنس جنرلز میں شائع ہوچکے ہیں۔ ان کے علاوہ بے شمار ڈاکٹر میڈیسن کے مختلف شعبوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ میمونہ خان صحافت کے علاوہ لٹریچر اور بے شمار سماجی اداروں سے منسلک ہیں۔ میمونہ خان یونیورسٹی کے میگزین X-PLOSIV کی ایڈیٹر تھیں۔ میمونہ کو واشنگٹن میں تمام دنیا کے نوجوان نمائندوں کے ساتھ بارک اوباما سے ملاقات کے لئے 2010ء میں چنا گیا تھا۔ 2009ء کی تاریخی قاہرہ کانفرنس میں میمونہ خان کا ذکر بطور مستقبل کے لیڈر کے کیا گیا تھا۔ صحافت میں نعمان مبشر نے NRKقومی نشریاتی ادارے کے لئے کئی دستاویزی فلمیں بنائی ہیں۔ انہوں نے بطور پروگرام لیڈر ایک سفری دستاویز پاکستان کے بارے میں نشر کی تھی۔ ان کے علاوہ قذافی زنان، محمد عثمان رانا اور عطا اللہ انصاری اخباری اور نشریاتی صحافت میں نمایاں ہیں۔ ناروے کی تاریخ میں سب سے پہلا چہرہ بطور غیر ملکی نیوز ریڈر ماہ رخ علی کا پیش ہوا۔ انہوں نے 2005ء میں پاکستان کے زلزلہ زدہ علاقوں سے رپورٹ نشر کی 14سال کی عمر میں ماہ رخ نے تلخ حقیقت کے نام سے اپنے تاثرات قلم بند کئے تھے۔ارم حق نے مختصر فلم بنانے میں مہارت حاصل کر کے اشتہاری کمپنی میں آرٹ ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہیں۔ ان کے تحریر کردہ مسودے، ڈائریکشن اور مرکزی کردار پر مختصر فلم SKYLAP JENTER نے اعلیٰ سطحی کے کئی قومی اور بین الاقوامی ایوارڈ حاصل کئے ہیں۔ ناروے اپنے مقرر کردہ کوٹے سے زیادہ پناہ گزین لیتا ہے۔ کامل عروج پولیٹیکل سائنس کے ماسٹر فارن منسٹری اور ہائی کمیشن برائے ریفیوجی UNHCR کے مشیر اعلیٰ کی حیثیت سے شامی پناہ گزینوں کی جانچ پڑتال کے لئے اردن جارہے ہیں۔ لیلیٰ بخاری نے بین الاقوامی قانون کینٹ یونیورسٹی اور انٹرنیشنل سیاست ایمسٹرڈیم ہالینڈ سے پڑھا ہے۔ لیلیٰ بخاری بیک وقت دہشت گردی کی محقق، ڈپلومیٹ اور سیاست دان ہیں۔ انہوں نے دفاع اور وزارت خارجہ کے اداروں میں بطور محقق کام کیا۔ یہ بطور ڈپلومیٹ ناوریجیئن ایمبیسی اسلام آباد میں تعینات رہی ہیں۔ لیلیٰ بخاری آج کل سیکورٹی اور دفاع کی وفاقی وزیر ہیں۔ عابد قیوم راجہ ایڈووکیٹ ڈپلومیٹ اور ممبر پارلیمنٹ کی حیثیت سے خبروں میں نمایاں رہنا جانتے ہیں۔ 2010ء میں عابد راجہ کو ان کی سماجی کاوشوں کے لئے FRITT ORDایوارڈ ملا تھا۔ 2010-12ء میں عابد راجہ بطور ڈپلومیٹ نارویجبیئن ایمبیسی نئی دہلی سے منسلک رہے آج کل ممبر پارلیمنٹ ہیں۔شکیب سید نے لندن اسکول آف اکانومی سے ECONOMETRIC میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے۔ شکیب آج کل SPARE BANK میں اکانومی چیف ہیں۔ قیصر فاروق اسٹیٹ بنک کے اقتصادی استحکام کے ریسرچ ڈائریکٹر ہیں۔ ان کے ڈاکٹری کے مقالے زرمبادلہ اور مارکیٹ میں اجرت کو 2009ء میں بہترین مضمون کا ایوارڈ ملا تھا۔NANO ذرات کے بائیو میڈیکل اور الیکٹرونک انڈسٹری میں استعمال نے انقلاب پیدا کردیا ہے۔ اس ٹیکنالوجی میں اعلیٰ تعلیم کے بعد طارق مسعود بطور ریسرچ سائنٹسٹ NORSK VERITAS سے منسلک ہیں۔ انڈسٹریل ڈیزائن میں ماسٹر بلال ضیاء کمپنیوں کی ضرورت کے مطابق انسٹرومنٹ ایجاد کرتے ہیں۔ 2010ء میں بلال ضیاء کو فالج زدہ مریضوں کے جسمانی ٹمپریچر کو بحال رکھنے کے لئے آلہ ایجاد کرنے پر بین الاقوامی شہرت یافتہ RED ایوارڈ سنگاپور میں ملا تھا۔اوسلو یونیورسٹی سے قانون اور لندن اکانومی اسکول میں پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کے بعد سلمیٰ الیاس آج کل پولیس کی وکیل استغاثہ ہیں۔ سلمیٰ الیاس نے 6سال اوسلو ڈسٹرکٹ کورٹ میں بطور ڈپٹی جج انصاف کے فرائض انجام دیئے ہیں۔ ان کی بہن صائمہ الیاس اقوام متحدہ میں نارویجیئن وفد میں شامل ہیں۔ حادیہ تاج جرنلسٹ، وکیل اور سیاست دان ہیں۔ یہ لیبر پارٹی کی حکومت میں وزیر ثقافت رہی ہیں۔شہزاد رانا کمپیوٹر سائنس ایکسپرٹ اپنی ڈاٹا فرم چلا رہے ہیں۔ 1994ء میں شہزاد رانا نے دی نور سلک بنک کے ساتھ مل کر یورپ کا پہلا نیٹ بنک قائم کیا تھا۔ عمران مشتاق کمپیوٹر انجینئر اور وزارت دفاع سے منسلک ہیں۔ ان کے 20 سالہ تحقیق نے ناروے میں چاند کے مسائل پر اتفاق رائے اور قطب شمالی سے منسلک علاقوں میں فجر اور عشاء کے اوقات کے تعین میں آسانی پیدا کر دی ہے۔ان قابل فخر طالب علموں کے ذکر کے ساتھ برادران جمیل ملک اور شکیل ملک کا تذکرہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ یہ نوجوان طالب علموں کی تعلیمی استعداد کو مزید فروغ دینے کے لئے رضاکارانہ طور پر سنڈے میگزین چلارہے ہیں۔ رخسانہ ارشد بچوں کے تعلیمی نصاب کو ایک WEB SITE کے ذریعے اردو میں مہیا کررہی ہیں تاکہ والدین آگاہ رہ سکیں کہ طالب علم کیا پڑھ رہے ہیں؟پاکستانی نئی نسل کی کامیابیوں میں والدین کا فیضان نظر۔ نارویجیئن معاشرے کا تعاون یا طالب علموں کا اپنا کمال ہے کہ انہوں نے آداب فرزندی کا حق ادا کردیا ہے۔
یہ فیضان نظر تھا یاکہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی
تازہ ترین