• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ترکی میں حالیہ ناکام فوجی بغاوت کے بعد صدر رجب طیب ارووان اپنے پہلے غیر ملکی دورے پر گزشتہ روز روس پہنچے جہاں انہوں نے صدر پیوٹن سے ملاقات میں فوجی بغاوت کے خلاف ترک عوام کی اخلاقی اور نفسیاتی تائید و حمایت پر روس کا شکریہ ادا کیا۔دونوں ملکوں نے باہمی تعلقات از سرنو بحال کرنے کا فیصلہ کیا جو چند ماہ پہلے ترک فضائیہ کی جانب سے روس کا ایک جنگی جہاز گرالیے جانے پر منقطع ہوگئے تھے۔اس سربراہی ملاقات میں ترکی نے شام میں امن کی بحالی کے لیے کردار ادا کرنے اور روس نے ترکی پر عائد کی گئی اقتصادی اور سفری پابندیاں ختم کرنے پر اتفاق کیا۔ بلاشبہ جمہوریت کے چمپئن ہونے کے دعویدارامریکہ اور بیشتر مغربی ملکوں کے برعکس روس نے ترکی میں منتخب عوامی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کوکسی ہچکچاہٹ کے بغیر مسترد کرکے جمہوریت سے حقیقی وابستگی کا ثبوت دیا ۔ روس کے اس اصولی موقف کی اہمیت اور وقعت اس بناء پر دوچند ہوجاتی ہے کہ ترکی میں روسی فضائیہ کا طیارہ گرائے جانے کے بعد دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات ختم ہوچکے تھے اور دونوں طرف ایک دوسرے کے خلاف شدید جذبات پائے جاتے تھے۔تاہم ترکی میں طیب اردوان کی حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کی دوٹوک مخالفت کرکے روس نے ایک خالص اصولی موقف اپنایا جبکہ مغرب سمیت دنیا کے دوسرے بیشتر ملکوں نے فوجی بغاوت کو فوری طور پر مسترد کرنے کے بجائے’’انتظار کرو اور دیکھو‘‘ کی پالیسی اختیار کرکے ثابت کیا کہ ان کے فیصلے جمہوری اصولوں کی پاسداری کو یقینی بنانے کے بجائے وقتی مفادات کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔فی الحقیقت روس کے اس طرز عمل سے دنیا میں اس کی اخلاقی ساکھ مضبوط ہوئی ہے جس کے عالمی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے ۔ توقع ہے کہ روس اور ترکی کے تعلقات کی یہ بحالی اور شام میں قیام امن کے لیے باہمی تعاون کا فیصلہ مشرق وسطیٰ کے حالات میں بہتری کا سبب بھی بنے گا اور اس کے نتیجے میں علاقائی اور عالمی سطح پردوسرے حوالوں سے بھی مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔

.
تازہ ترین