• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کہیں عقیدت اتنی کہ شیطانوں کو فرشتہ بناد یاگیا اور کہیں نفرت اتنی کہ راہِ حق کے مسافر ڈاکو اور لٹیرے ٹھہرے ، کہیں غلو ایسا کہ غاصبوں اور قاتلوں کے وجودوں سے نور پھوٹے اور کہیں تنگ نظری ایسی کہ مقام والوں کا ہی کوئی مقام نہیں، مغالطو ں اور منا فقتوں سے بھری ہماری 80فیصد تاریخ ایسی کہ لاکھ ڈھونڈ لو مگر بصیرت یا حقیقت کا نام ونشان نہ ملے ۔
بہاولپور ائیر پورٹ سے سیدھا جب میں آموں اور مالٹوں کے باغوں میں گھرے نور محل کے وسیع وعریض گیراج میں گاڑی سے اترکر محل کے شاہی لاؤنج میں داخل ہوا تو علیک سلیک اورچند رسمی جملوں کے بعد سفید شلوار قمیض پر کالی واسکٹ پہنے نوجوان گائیڈنے مشینی انداز میں بولنا شروع کر دیا ’’ برصغیر پاک وہند میں حیدر آباد دکن کے بعد ریاست بہاولپور دوسری امیر ترین مسلم ریاست تھی ، اسکی بنیاد 1731میں عباسیہ خاندان کے نواب بہاول خان اول نے رکھی (انہی کے نام پر شہرکا نام بہاولپور پڑا) ،عباسیہ خاندان کا شجرہ نسب حضور ؐ کے چچا حضرت عباس ؓ سے ملے، 512سال بغداد اور 261سال مصر پر حکومت کرنے کے بعد یہ خاندان دیبل بندرگاہ (پورٹ قاسم ) سے برصغیر میں داخل ہو کر دریائے ستلج کے کنارے آباد ہو ا،ریاست بہاولپور 1956تک قائم رہ کر پاکستان میں ضم ہوئی اور ضم ہوتے وقت نواب صادق عباسی نے نہ صرف حکومت ِپاکستان کو اپنی 10ہزار آرمی ، 2سالہ ملکی بجٹ کا خرچہ ، سرکاری ملازمین کو 6ماہ کی تنخواہیں ، 7کروڑ روپیہ نقد اور 20من سونا دیابلکہ نواب صاحب نے پی آئی اے کو جہاز ، پاک فضائیہ کو جیٹ طیارہ ، قائداعظم ؒ کو2رولزرائس گاڑیاںاور پنجاب یونیورسٹی اور کنگ ایڈورڈ کالج کیلئے عمارتیں بھی تحفے میں دیں ‘‘۔
سخت گرمی او ردَم گھُٹ حبس میں پسینے سے شرابور بولتا نوجوان رُکا ، چند گہری سانسیں لے کر اس نے جیب سے رومال نکال کر چہرے سے پسینہ صاف کیا اور ایک لمبی سانس لے کروہ دوبارہ اسٹارٹ ہوگیا ’’ آپ اس وقت جس عمارت میں کھڑے ہیں اسے نور محل کہیں ، یہ نواب صادق عباسی فورتھ نے اپنی ملکہ نور کیلئے 1872سے 1875کے دوران تعمیر کروایا ، اس کے انجینئر محمد حسین کا تعلق لاہور جبکہ چیف انجینئر مسٹر Henninکا تعلق فرانس سے تھا ، اس محل کی دو خاص باتیں ، ایک تویہ کہ لوہے اور سیمنٹ کی بجائے اسے چاول ،دال ماش ، چکنی مٹی،چونے اور پٹ سن کو باریک پیس کر بنایا گیا اور محل کا تمام فرنیچر ساگوان کی لکڑی کا جوبر ما سے آئی اور اس محل کی دوسری اہم بات یہ کہ جب یہ تیار ہواتو نواب صاحب نور بیگم کو محل دکھانے لائے اور پورا محل دیکھ کر بالکونی میں کھڑی ملکہ کی نظر جب کچھ فاصلے پر واقع قبرستان پر پڑی تو وہ انتہائی غصے سے پاس کھڑے نواب صاحب کو یہ کہہ کر محل سے نکل گئیں کہ ’’ میرے لئے تمہیں قبرستان ہی ملا تھا، اپنا محل اپنے پاس رکھو ،مجھے جیتے جی قبرستان میں رہنے کا کوئی شوق نہیں ‘‘ اورپھر ملکہ نور نے دوبارہ اس محل میں کبھی پاؤں نہ دھرا۔
لیکن دوستوذرا رکئے، اگر اس نوجوان گائیڈ کی باقی تمام باتیں درست بھی مان لیں تو بھی ملکہ نور کی یہ کہانی اس لئے جھوٹی کہ ایک تو نواب صاحب نے کسی نور نامی خاتون سے شادی ہی نہیں کی ، پھر 1872میں جب محل کی تعمیر شروع ہوئی تو اس وقت 11نومبر 1861کو قلعہ دراوڑ میں پیدا ہونے والے نواب صادق فورتھ کی عمرصرف 11سال تھی اور انکی تو پہلی شادی ہی تب ہوئی جب محل تعمیر ہوئے 4سال ہو چکے تھے ، اب یہاں سوال یہ پیدا ہو کہ یہ محل کس نے بنایا اور اس کا نام نور محل کیوں ، تو اس کا جواب یہ کہ یہ محل نواب صادق فورتھ کی والدہ نے مہمان خانے کے طور پر تعمیر کروایا جبکہ محل کا نام نور محل اس لئے پڑگیا کہ ایک تو اس میں دوسری عمارتوں کی نسبت زیادہ مصنوعی لائٹیں لگائی گئیں اور دوسرا محل کی تعمیر کچھ اس طرح کی کہ چاروں طرف سے اندر آتی روشنی کی وجہ سے یہ محل قدرتی طورپر 24گھنٹے روشن رہتا لہذا اس کا نام نور محل پڑ گیا ۔
مگر آپ اس من گھڑت کہانی پر حیران نہ ہوں کیونکہ ہماری تاریخ نہ صرف ایسی جھوٹی اور فرضی کہانیوں سے بھری ہوئی بلکہ اکثر تو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت سچ چھپایا گیا، اگر ہم خلفائے راشدینؓ کے دور اور اس زمانے کے واقعات کو Discussنہ بھی کریں تو بھی آج تک مکہ اور مدینہ پر چڑھائی کرنے والے کلمہ گوؤں کے ہاتھوں کلمہ گوؤں اوربنو عباس اور بنوامیہ کی خالصتاً تخت وتاج کیلئے لڑائیوں میں مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتلِ عام کے حوالے سے کبھی سچ سامنے نہ آیا ، کسی نے مذہب کے اُس استعمال کا پردہ فاش نہ کیا کہ جس کی ایک چھوٹی سی مثال یہ کہ جب محمود غزنوی پانی پت میں ابراہیم لودھی سے لڑیں تو خاموش رہیں مگر جب مقابلہ ہو ہندورانا سانگا سے تو یہی سلطان غزنوی پہلے’’ شہید اور غازی ‘‘پرا یک جذباتی تقریر کرکے فوج کے سامنے شراب کے پیالے توڑ کر اس جنگ کو اسلام اور کفر کی جنگ بنادیں ،پھر محمود غزنوی کے 17 حملوں کی تو ہر کوئی بات کرے مگر سلطان نے اپنی سلطانی کیلئے جو مسلمان مارے اس کا کہیں کوئی ذکرہی نہیں ، ہمیں تو آج تک یہ بھی نہ بتایا گیا کہ مغل بادشاہ بابر کابل میں کیوں دفن ، التمش نے علماء کی خوشنودی کیلئے ہندوؤں کے ساتھ کیا سلوک کیا ، علاؤالدین خلجی نے کیوں کہا کہ ’’ مجھے اس سے کوئی غرض نہیں کہ میرے احکامات شرعی یا غیر شرعی ، میں تو مصلحت ِوقت کے مطابق چلتا ہوں ‘‘، محمد تغلق صوفیا ء کرام کے پیچھے کیوں پڑ گیا ، اکبر کا ’’دین الٰہی ‘‘ کیا اورجہانگیر اور داراشکوہ نے اسے کیوں اپنایا جبکہ اورنگزیب کی اسے رد کر نے کی کیا وجہ، ہمیں تو یہ بھی معلوم نہ ہو سکا کہ معین الدین چشتی کا مزار1232تک کیوں جبراََ سنسان اور ویران رکھا گیا ، صوفیا کو قطب الدین خلجی اور خسرو کی غیر شرعی باتیں کیوں ہضم کرنا پڑیں ،کس نے مشہور کیا کہ التمش ،بلبن اور محمد تغلق کو حکومتیں اولیاء کی دعاؤں سے ملیں ، کس نے کہانی گھڑی کہ مرشد کی نافرمانی پر بادشاہ قطب الدین جان سے ہاتھ دھو بیٹھا ، کس نے داستان گوئی کی کہ محمود غزنوی کی فتوحات ابو محمد چشتی،شہاب الدین غوری کی کامیابیاں معین الدین چشتی ؒ،علاؤالدین خلجی کی فتوحات نظام الدین اولیاءؒ اور مغلوں کا استحکام حضرت محمد غوث گوالیاری کی بدولت تھا ،یہاں تو یہ بھی نہ بتایا گیا کہ سرسید احمد خان لڑکیوں کی تعلیم کے مخالف کیوں، دینی مدارس نے فلسفے اور سائنس کو اپنے نصاب سے کیوں نکالا اور تصویر کشی کو حرام ،فٹبال کو مکروہ اور ریڈیو پر قرآن پڑھنے اور ریڈیو سے قرآن سننے کو ناجائز قرار دینے کے پیچھے راز کیا ، یہاں میر جعفر اور میر صادق کی غداریاں تو سب کو معلوم مگر ان کے ساتھ کیا کیا زیادتیاں ہوئیں کسی کو کچھ پتا نہیں، ٹیپو سلطان کی بہادری کے قصے تو سب کو ازبر مگر سلطان کے بے لچک روئیے اور جنگی غلطیوں پر کوئی بات نہ کرے اور یہاں ہر کوئی کہے کہ انگریزوں نے چالاکی سے ہندوستان پر قبضہ کیا مگرکوئی یہ نہ بتائے کہ آخری وقتوں میں مسلمانوں کے پاس بچا ہی کیا تھا جس پر انگریز قبضہ کرتے اور مسلمانوں میں زندہ انسانوں کو سجدے اور مرے ہوؤں کی پوجا پاٹ کرنے سمیت بیسیوں رسمیں کیسے آئیں ، باقی چھوڑیں یہاں تو ابھی تک یہ بھی پتا نہ چل پایا کہ تقسیم ہندوستان کے وقت کس ’’رائی‘‘ کو پہاڑ بناد یا گیا اور کس’’ پہاڑ‘‘ کو رائی کا درجہ ملا، دوستو! ایک وقت تھا کہ جب سچ اور جھوٹ میں فٹبال بنی اپنی تاریخ پڑھ اور سن کر بہت تکلیف ہوا کرتی تھی مگر پھر جب اپنے اِردگرد سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ہوتے دیکھا ، جب دن دیہاڑے ہوتا کچھ جبکہ لکھا اور بیان ہوتا کچھ اور دیکھا،مطلب جب اپنے کل کی دونمبر تاریخ آج اپنے سامنے بنتے دیکھی تو پھر یکایک نہ صرف سارے تاریخی دُکھ ختم ہوئے بلکہ لمحوں میںہی یہ بھی معلوم ہو گیا کہ کیوں ماضی میں کہیں عقیدت اتنی کہ شیطانوں کو فرشتہ بناد یاگیا اور کہیں نفرت اتنی کہ راہِ حق کے مسافر ڈاکو اور لٹیرے ٹھہرے ، کیوں کہیں غلو ایسا کہ غاصبوں اور قاتلوں کے وجودوں سے نور پھوٹے اور کہیں تنگ نظری ایسی کہ مقام والوں کا ہی کوئی مقام نہیںاور کیوں مغالطو ں اور منا فقتوں سے بھری ہماری 80فیصد تاریخ ایسی کہ لاکھ ڈھونڈ لو مگر بصیرت یا حقیقت کا نام ونشان نہ ملے ۔


.
تازہ ترین