• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب ٹی وی چینلوں پر وکیل رہنما اور کوئٹہ کے قابل فخر سپوت علی احمد کرد جیسے شخص کو کوئٹہ کے سانحےپر روتے دیکھا تولگا بولان کے پہاڑ رو رہے ہوں ۔ یہ کوئٹہ کے ساتھ ہونیوالی کربلا ہے جو گزشتہ پیر کو ہوئی۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے لکھا :’’پاکستان میں وکلاء کی ایک پوری کی پوری نسل کو ملیا میٹ کردیا گیا۔‘‘ لیکن پاکستانی بے حس سول کہ غیر سول لیڈرشپ ہے بقول علی احمد کرد فوٹوسیشن میں پوری ہے۔ بیان بازی، تشویش کا اظہار ، مذمتی قراردادیں، اخبارات کے اداریے، رودالی ٹائپ اینکروں کی دھاڑ اور اسکے بعد پھر کوئی اور سانحہ، سانحے پر سانحہ، اور دہشتگردی پر دہشتگردی۔ واقعہ کی ذمہ داری قبول کرنے کے ترجمانی بیان اور پھر ’’ یہ خون خاک نشیناں تھا یہ رزق خاک ہوا۔‘‘ اب بھی کیا کسی کو شک ہے یہ ملک زندہ و پائندہ ہے؟ کوئٹہ جو کہ ایسی کئی کربلائوں کی سرزمین ہے۔ کلی کیمپ میں ٹنگی تشدد سہتی زندہ لاشوں کا شہر۔ تجھے کتنوں کا لہو چاہئے اے ارض وطن جو کہ تیرے عارض کو گلنار کرے۔ لیکن یہ جو اس وقت ہوا ہے کہ شہر، صوبے اور ملک کی ایک’’ ڈی لا کریم‘‘ یا انکے سب سے اچھے، تعلیم یافتہ، کئی جواں سال، قانونی ماہرین، ملیا میٹ کردئیے گئے۔ ایسے تو مادر فطرت کی دہشتگردی یعنی کوئٹہ کے بڑے زلزلے میں بھی نہیں ہوا ہوگا۔ جو کہ قیام پاکستان کے اس ماہ ہوا۔ ایف سی، پولیس،رینجرز اور درجنوں ایجنسیاں کہاں تھیں؟ کیا یہ سمجھا جائے کہ ملکی ایجنسیاں نہیں سارے کا سارا کوئٹہ غیرملکی ایجنسیوں نے فتح کرلیا ہوا ہے! ایسا اگر واقعی ہے تو پھر آئواحمد فراز کی زبان میں کہیں:
آئو کہ اس شہر کا ماتم کریں
جس کے سبھی موسم ہمیں پیارے تھے
لیکن اب کئی دن ہوئے کہ یہ شہر کوئٹہ ہے کہ فلوجہ!
کئی بلوچ، کئی پشتون اور ہزارہ برادری کے قتل عام کے بعد اب وکلاء اور کچھ عرصہ قبل ڈاکٹر اور اساتذہ بھی۔یہ شہر جس کے گردو نواح میں نہ فقط قیمتی دھات کی کانیں ہیں بلکہ کچھ لوگوںکیلئے بھی سونے کی کانیں بنی ہوئی ہیں۔ ان کیلئے بلوچستان اور کوئٹہ گویا کہ ’’گولڈ رش‘‘ ہے۔
جہاں واقعی امن وامان کی صورتحال میں بہتری صفر جمع صفر جواب صفر ہے۔ یہی شہر ہے نا جہاں حساس ادارے کے ایک افسر کی کرپشن کے قصے بھی پچھلے دنوں زد زبان عام ہوئے۔
کسے خبر بھی ہے کہ اگر جو تھوڑا بہت کراچی اور کوئٹہ میں امن قائم کرایا بھی گیا تھا وہ حقیقت میں طوفان سے قبل یا پھر قبرستان جیسی خاموشی تھی۔ مصنوعی امن اور مصنوعی امن وامان کی ابتر صورتحال۔ آخر اسکے پیچھے ہے کیا؟
کیا کسی نے جانا ہے کوئٹہ میں ہزارہ قتل عام واقعی رک گیا ہے؟ لیکن کیا کسی نے دیکھا بھی ہے کہ گزشتہ کتنے عرصے سے کوئٹہ کی ہزارہ آبادی کے لوگ اپنے ہی علاقے میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں۔ اکثریت انکی نہ اپنے کام کاج پر جا سکتی ہے نہ ہی اپنے علاقوں سے دور اپنے بچوں کو اسکول بھیج رہی ہے۔ بےشک پولیس اور قانون نافذ کرنے والوں کی بھی ایک بڑی تعداد کوئٹہ اور اسکے گردو نواح میں قتل کردی گئی ہے۔ انکی قربانیاں بھی لا تعداد ہیں۔ لیکن افسرشاہی نے کیا قربانیاں دی ہیں سوائے نئے ماڈل اور بغیر نمبر کی گاڑیاں مبینہ طور پر حاصل کرنے اور گندم اور پٹرول مبینہ اسمگلنگ کرنے کے۔ دہشتگردی اور افلاس کے مارے ہوئوں کیلئے انسانی اسمگلر الگ عذاب ہیں۔
اصلی دہشتگردوں کے پیچھے جانے کے بجائے بلوچ اور پشتون بچوں کو غائب کیا جارہا ہے ۔ لیکن اس دفعہ سانحہ بدتر ہے۔ جتنا سانحہ بدتر ہے اس پر ہماری بے حسی اتنی ہی بدتر۔ اب بھی اپنی چار پائی کے نیچے ڈانگ نہیں پھیر رہے۔ بلکہ گلے میں لگی چھری کا علاج گھٹنا کھودنے میں کر رہے ہیں۔ جیسے سندھی کہاوت ہے کانٹا لگا پائوں میں اور کھود رہی ہے گھٹنا! کہتے ہیں یہ بھارتی جاسوس ایجنسی را نے کیا۔ اگر را نے کیا تو پھر ہمارے ادارے کہاں تھے؟ یقیناً را بھی کرتی ہوگی۔ نیشنل ایکشن پلان والو تمہارا شکریہ اورتم کہاں رہ گئے۔ یا سندھ اور بلوچستان میں سیاستدانوں کے پیچھے۔ اور دشمن تم سے ہاتھ کر گیا۔ سبین محمود سے لیکر کوئٹہ تک دشمن کے ہاتھ دکھانے کے بعدوہی کہانی ہوتی ہے۔ وہی ٹوئٹ ہوتا ہے۔ اس دفعہ بدقسمتی کہ قرعہ فال کوئٹہ کے پڑھے لکھے کاکڑ اور کانسی قبیلوں کے جوانوں کے نام نکلا کہ جنکے نام پر نہیں کہا جا سکتا راہ میں اجل تھی۔
کیا کہیں ایسا تو نہیں کہ جنگل کا قانون بلاتکلف نافذ کرنے کیلئے یہ ضروری تھا کہ پوری کی پوری ایک نسل قانون کی بالادستی میں یقین رکھنے والوں کی راہ سے ہٹادی جائے۔
کوئٹہ میں بم دھماکے جیسی دہشتگردی میں ہلاک کئے جانیوالے عظیم پشتون رہنما خان عبدالصمد اچکزئی کا فرزند جو کچھ اس دن قومی اسمبلی میں کہہ رہا تھا وہ نوشتہ دیوار ہے۔ لیکن اس خاندان کا ایک چشم وچراغ صوبے کا گورنر ہے تو دوسرا ایک بلوچ قبیلے کا طاقتور سردار وزیر اعلیٰ۔ کیا یہ سب کچھ اس دن شروع ہوا تھا جب ساراوان کے علاقے میں مولوی جمعہ کے خطبے میں کہتا’’خدا ظالموں کو غرق کرے‘‘ تو بیچارہ غریب بلوچ چرواہا کہتا ’’آمین‘‘ کیونکہ ’’ظالم‘‘ سے مراد اس کے علاقے کا ظالم سردار تھا۔ یا کیا اسکی بنیاد دالبندین کے گردی جنگل میں کئی سال پہلے رکھ دی گئی تھی جو آج بھی ایک طرح کا نو گو ایریا۔ ملا منصور کی یاد میں ’’امریکہ مردہ باد‘‘ کانفرنس کی چاکنگ ہوتی ہے اور ایجنسیاں بے حرکت اور بے حس۔ ملا اختر منصور ہماری حدود اربع میں مارا جاتا ہے اور ہم سانپ کی لکیر پیٹتے رہ جاتے ہیں۔ ملا منصور جو کہتے ہیں اسوقت بھی طالبان کی حکومت میں سول ایوی ایشن کا انچارج تھا جب پڑوسی ملک کے اغوا شدہ طیارے کو اغوا کنندگان نے قندھار ایئرپورٹ پر اتارا تھا۔ جب ساری دنیا اور اپنے ملک کے باخبر لوگ کوئٹہ شوریٰ کی بات کرر ہے تھے تو اس بات کو جھٹلادیا جاتا رہا تھا۔ اچھے اور برے طالبان کا آگ سے کھیلے جانے والا کھیل کھیلا جا رہا تھا اور اب بھی کھیلا جا رہا ہے۔ اس سوشل میڈیا کے دور میں آخر کب تک لوگوں کو’’غیر ملکی سازش ‘‘ والے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا جاتا رہے گا؟
تردد تردد اور ہمہ وقت تردد ۔یہ سانحہ یہ نسل کشی کوئٹہ میں پیدا ہونے۔ بڑے ہونے اور رہنے والے ہر شخص اور شہری کی ٹریجڈی ہے۔ ذاتی سانحہ، گھر میں قضیہ کہ جیسے میرے دوست عبدالحئی کاکڑ نے کہا ’’ کہ قتل ہونیوالے ان سب شہداء کی تصاویر جانی پہچانی ہیں کہ ان میں کئی انکے دوست تھے، تو کئیوں کے ساتھ چائے پی تھی اور کئی کے ساتھ ہاتھ ملایا تھا۔‘‘
اب بھی اسی سانحے پر سوتیلا سلوک کیا جا رہا ہے۔ آپ کو یاد دلاتا جائوں کہ یہی سلوک سابقہ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے سے قبل ہم نے ڈھاکہ میں سائیکلون طوفان کے مارے ہوئے لوگوں سے کیا تھا۔ آج اس سانحے کے شکار شہریوں کے قتل پر انکے اعزا اور رونے والوں کے آنسو اڑک جھیل کے پانی سے بھی زیادہ ہیں۔]


.
تازہ ترین