• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’جہاں اپنے معاشرے کی دوسری اقدار مسلسل زوال کا شکار ہورہی ہیں وہاں روزہ دار کا احترام اور حیا بھی تقریباً ختم ہوکر رہ گیا ہے ۔ ماہ رمضان کا احترام تو حکومت ایک آرڈیننس کے ذریعے کرواہی لیتی ہے مگر افسوس کہ غریب روزہ دار کے احترام کا کوئی جھوٹا سچا آرڈیننس آج تک پاس نہیں ہوسکا۔ سنتے ہیں ایک زمانہ تھا جب روزہ دار کو گلی میں آتا دیکھ کر لوگ’’احتیاطاً‘‘راستہ تک تبدیل کرلیتے تھے ، مگر آج راستہ چھوڑنا تو دور کی بات ہے جسے دیکھو روزہ دار کو خواہ مخواہ زِچ کرنے پر تُلا ہوا ہے اور منہ اٹھا کر روزہ دار سے فضول بحث کئے جارہا ہے ،باوجود اس کے کہ روزہ دار کے قریب کوئی روڑہ پتھر بھی پڑا ہوا ہے‘‘۔
ان خیالات کا اظہار ہمارے ہمسائے حاجی صاحب نے دوسرے روزہ کو افطاری کے بعد گلی میں ملاقات کے دوران کیا ۔ ہم یہاں بتاتے چلیں کہ حاجی صاحب ایک سرکاری دفتر میں گریڈ سترہ کے نہایت ایماندار افسر ہیں ۔ بھرتی تو شاید کلرک ہوئے تھے مگر اپنی محنت اور ایمانداری کے بل بوتے پر ترقی کرتے کرتے گزیٹڈ افسر بن گئے ۔ ہم نے حاجی صاحب سے دریافت کیا کہ پہلے روزے کو ملاقات نہیں ہوئی ، کہاں مصروفیت رہی اور روزہ کیسے گزرا؟ کہنے لگے آپ کو تو پتہ ہے میں سگریٹ کا عادی ہوں اس لئے روزے میں کھانے پینے سے زیادہ سگریٹ کی طلب ذہنی طور پر نڈھال کردیتی ہے ، اس لئے میں نے پہلے روزے کو دفتر سے چھٹی کا پروگرام بنا لیا تھا ۔ مگر صبح اُٹھ کر گھر میں بھی بہت ہی بوریت محسوس ہورہی تھی ۔روزے کی حالت میں وقت گزرنے کا نام نہیں لے رہا تھا اس لئے سوچا وقت گزاری کے لئے کیوں نہ بس پر بیٹھ کر گوجرانوالہ تک ہو آؤں تاکہ آنے جانے میں روزے کا ٹائم اچھا پاس ہوجائے گا۔ لہذا لاری اڈہ پہنچ کر گوجرانوالہ کی بس میں بیٹھ گیا ۔ راستے میں مسافروں اور کنڈیکٹر ، ڈرائیور سب نے مل کر بس میں ایسا طوفانِ بدتمیزی مچائے رکھا کہ نہ کسی روزہ دار کی حیا اور نہ ماہ رمضان کا احترام۔ کوئی سواری کندھے پر ہاتھ رکھ رہی ہے تو کوئی چڑھتے اُترتے پاؤں لتاڑ رہی ہے۔ ڈرائیور ، کنڈیکٹر نے تواپنے بد تمیز رویے سے میرے جیسے روزہ دار آدمی کا بھرپور امتحان لیا ۔ خدا کی قسم اگر روزہ نہ ہوتا تو چھٹی کا دود ھ یاد دلا دیتا ۔ان سب حالات پر تھوڑی دیر تو صبر کیا مگر بالآخر ایک سواری سے نوبت ہاتھا پائی تک آگئی ۔ اُسے تو میرے روزے کی بالکل حیا نہیں تھی مگر میں نے بہر حال اپنے روزے کی وجہ سے مارکٹائی سے اجتناب کیا کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ روزہ بہر حال صبر اور برداشت کا درس دیتا ہے ، اسی لئے ـ"گستاخِ روزہ دار" کو چند صلواتیں سنانے پر ہی اکتفا کیا۔
اس صبر آزما سفر کے بعد جب گوجرانوالہ پہنچا تو ابھی دن کے گیارہ بجے تھے ۔ سوچا ا گرابھی واپسی کرتا ہوں تو ایک بجے تک گھر پہنچ جاؤں گا اور پھر وہی گھر پر وقت گزارنے کا مسئلہ !اس لئے گجرات کی بس پر بیٹھ گیا ۔ مگر گجرات پہنچ کر ٹائم دیکھا تو ابھی بھی صرف بارہ بجے تھے اور لاہور واپسی کی صورت میں وہی وقت گزاری کا مسئلہ درپیش ہونا تھا ، اس لئے جہلم کی بس پر سوار ہوکر جہلم پہنچ گیا۔ یہاں شام کے تقریباً 4بج چکے تھے۔ اب واپسی لاہور کا سفر شروع کرد یا ۔مگر بس وقت پر نہ ملنے کی وجہ سے کافی لیٹ ہوگیا اور افطاری راستے میں ایمن آباد موڑ کے قریب کرنی پڑی۔رات کو تراویح کی نماز کے بعد کہیں جاکر گھر پہنچا ۔ ہم نے کہا حاجی صاحب روزے کا ٹائم تو ماشاء اللہ بڑااچھا پاس ہواہوگا۔ کہنے لگے وقت تو اچھا پاس ہوا مگر رات کو جب حساب کیا تو آٹھ سو روپے خرچ ہوچکے تھے ۔ کہنے لگے مسئلہ صرف یہ ہے کہ میری تنخواہ میں آٹھ سو روپے کا ایک روزہ افورڈ نہیں ہوسکتا ۔ اسی لئے دوسرے روزے کو اس طرح کی حرکت سے گریز مناسب سمجھا ۔ منصوبہ یہ طے ہوا کہ دوسرے روزہ کو دفتر سے واپسی پر دو چار سو روپے کی سٹیج ڈراموں اور فلموں کی سی ڈیز خریدی جائیں اورگھر بیٹھ کر روزے کے تین چار گھنٹے آرام سے گزارے جائیں ۔
ہم نے حاجی صاحب سے دوسرے روزہ کو دفتر کی مصروفیات کے بارے میں پوچھا تو فرمانے لگے کیا بتاؤں کہ ماتحت سٹاف اوّل تو ہمیشہ سے ہی عقل سے پیدل ہوتا ہے مگر روزوں میںتو یہ لوگ معمول سے کچھ زیادہ ہی کام چور اور کند ذہن ہو جاتے ہیں ۔ ایسے لگا کہ روزوں میں شاید ان کی عقل گھاس چرنے گئی ہوئی ہے ۔ دفتر میںان کم بختوں نے ایسا ذلیل کیا کہ انہیں ذرا بھی خوفِ خدا نہیں تھا کہ ان کا افسر روزہ سے ہے۔ کہنے لگے صبح دفتر جاکر ایک ڈیڑھ گھنٹے میں ضروری فائلیں نمٹا ئیں اورپھر دفتر کے پیچھے ایک کمرے میں رکھی ہوئی چار پائی پر لیٹ گیا ۔سوچا باقی وقت وہاں سوکر گزارا جائے ۔ مگر یہ کم بخت سٹاف کہاں باز آنے والا تھا ۔ ہر تھوڑی دیر بعد کوئی نہ کوئی کلرک اندر جھانک کر دیکھتا اور ہاتھ میں پکڑی فائل کی طرف اشارہ کرتا ۔ بڑی مشکل سے ڈانٹ کے ایک کوواپس بھیجتا تو تھوڑی دیر بعد کوئی دوسرا اہلکار کوئی سرکاری چٹھی کو ضروری چٹھی کا نام دے کر آدھمکتا ۔
بس بھئی کیا پوچھتے ہو دفتر کا سارا وقت اسی تماشے میں گزر گیا ۔ حرام ہو جو ان کم بختوں نے کوئی گھنٹہ بھر کے لئے بھی سکون سے آنکھ لگنے دی ہو۔بالآخر تنگ آکر 1بجے دفتر سے چھٹی کر لی تاکہ ایسا نہ ہو کہ یہ جاہل اسٹاف گالی گلوچ کھانے سے آگے نکل کر میرے سے مار ہی نہ کھالے۔ بڑی دفعہ دل کیا کہ ان میں سے کسی ایک کو دو چار لگا دوں مگر چونکہ معلوم تھا کہ روزہ صبر اور برداشت کا نام ہے اس لئے حرام ہے جو ہم نے کسی پر ہاتھ اٹھا یا ہو ۔ واپسی گھر کے سفر میں ایک اشارے پر ایک موٹر سائیکل والے سے منہ ماری ہوگئی ۔ لگتا تھا کوئی ہٹا کٹا ’’بے روزایت‘‘ آدمی ہے ۔اس نے روزہ رکھنا تو بالکل نہیں سیکھا ہوگا مگر ایسے لگا کہ روزہ دار کی حیا اور احترام بھی اسے چھو کر نہیں گزرا۔ اشارے پر اتنا بھی صبر نہ کیا کہ کسی روزہ دار کو پہلے گزرنے دے ۔ بیچ میں موٹر سائیکل نکال ماری۔ بات توتو میں میں سے بڑھ کر ہاتھا پائی تک جانے والی تھی کہ میں نے آخر کہہ دیا میں روزے سے ہوں۔وگرنہ اس کانگڑی کو چیر پھاڑ کر رکھ دینا میرے لئے کوئی چنداں مشکل نہیں تھا ۔ خیر اللہ اللہ کرکے گھر پہنچا۔ یہاں بازار سے لائی ہوئی سی ڈیز چلا کر آرام سے لیٹ گیا۔ مگر اپنے مقدر میں آرام کہاں تھا ۔ ہر آدھے گھنٹے بعد کبھی کوئی بچہ اور کبھی بیوی آکرکوئی نیاکام اور کوئی نئی فرمائش شروع کردیتے ۔ بڑی دفعہ سمجھایا کہ میں روزہ سے ہوں اورمجھے پانی سے باہر مت نکالو۔ مگر روزہ دار کے احترام سے عاری یہ بے وقوف بیوی بچے باز آنے والے کہاں تھے۔تنگ آکر آخر بیوی کو دوگالیاں اور بڑے بیٹے کو کان سے پکڑ کر دو تھپڑ لگانے پڑے، تب جاکر یہ لوگ اپنی فضول حرکتوں سے تھوڑا باز آئے اور ہمیں تھوڑی دیر کے لئے بغیر کسی مداخلت کے کوئی فلم دیکھنی نصیب ہوئی اور اس بہانے روزے کا تھوڑا وقت سکون سے کٹ گیا ۔ آخر میں ہم نے حاجی صاحب سے پوچھا کہ کل بھی روزہ رکھنے کا پروگرام ہے ؟
کہنے لگے کیوں نہیں بھئی سال بعد تو رمضان آیا ہے ۔یہ بڑا برکتوں والا مہینہ ہے اوریہ مہینہ دراصل صبر ، برداشت اور دوسرے مسلمانوں کے دُکھ درد اور پریشانیوں کو سمجھنے اور اُن کے دُکھ درد میں شامل ہونے کا درس دیتا ہے۔ ہم حاجی صاحب کی دین فہمی کی داد اور ان کے ماتحت اسٹاف اور بیوی بچوں پر ترس کھائے بغیر نہ رہ سکے!!
تازہ ترین