• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دو اہم دنوں کے بیچ بہت کچھ بدلتے دیکھاجن میں تحریک انصاف جس نے خود سے وابستہ لوگوں کی توقعات کوآسما ن پرپہنچایا وہ ابھری اوراس کے دوران ہی عام لوگوں کی ایک بڑی حمایت سے محروم بھی ہوئی وہ دن تھے11مئی 2013کے عام انتخابات کے اور 7اگست 2016کے،جب تحریک انصاف نے عمران خان کی قیادت میں پشاورسے احتساب مارچ کا آغازکیا۔
عام انتخابات کے دن اسلام آباد میں اپنے سابقہ ادارے کے دفترجاتے ہوئے عجیب مناظردیکھے لوگ تھے کہ تحریک انصاف کے کیمپوں میںامڈے جارہے تھے اوران کیمپوں میں جگہ کم پڑتی جارہی تھی عام یعنی غیرسیاسی اورانتہائی تعلیم یافتہ ومتمول لوگ اپنے ساتھ کھانے اورچائے سے بھرے تھرماس بھی ساتھ لے کران کیمپوں میں براجمان تھےجہاں وہ ووٹروں کو ووٹوں کی پرچیاں دے کرپولنگ اسٹیشنز کی طرف بھیج رہے تھے یہ صرف تحریک انصاف کے خاص اورعام سپورٹرزکی حالت نہیں تھی بلکہ ووٹربھی کسی اورکے کیمپ سے ووٹ نمبرلینے کو تیارنہ تھے تحریک انصاف کے کیمپ سے تھوڑے ہی فاصلے پرایک پرانی جماعت کا کیمپ لگا تھا جس میں ایک بوڑھا شخص دوبچوں کے ساتھ دوکرسیاں لگائے تحریک انصاف کے کیمپ کی جانب حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا اورکوئی بھی اس سے ووٹ کی پرچی تک لینے نہیں آرہا تھاپھراسی شام سے پہلے ایک رشتہ دارکی فوتگی کے باعث مجھے پشاورآنا پڑایہاں جو حالت دیکھی وہ تواسلام آباد سے بھی کافی مختلف تھی لوگ تھے کہ تحریک انصاف پرفدا ہوئے جارہے تھے صرف حیات آباد کے انٹری پوائنٹس پروہ حالت تھی کہ یقین ہوچلا کہ اب تحریک انصاف کو حکومت بنانے سے کوئی نہیں روک سکتا ان لوگوں میں بھی زیادہ تروہ تھے جنہیں کبھی کسی کے سیاسی جلسے اورکیمپ میں نہیں دیکھا گیاتھااوراسی شام پھرنتیجہ بھی آگیا کہ تحریک انصاف خیبرپختونخوا میںسب سے بڑی جماعت بن کرابھری اورحکومت بناکراقتدارمیں آگئی ۔ یہیں سے اس کے دعوئوں اورصلاحیتوں کا اصل امتحان شروع ہوگیا۔
یہی وہ دن تھا جب تحریک انصاف ایک آسان حالت سے نکل کرمشکل میں پھنس گئی ۔ اس کامیابی کے دن سے لیکراس جماعت نے خیبرپختونخوا پر حکمرانی کی۔ اورکتنی خوش قسمت تھے وہ کہ ان کی اپنی حکمت عملی کہیں یا اپوزیشن جماعتوں کاان کے ساتھ گٹھ جوڑ۔کہ ان تین سالوںکے دوران انہیں کہیں سے کوئی مشکل پیش نہیں آئی اوران کی حکومت چلتی رہی ۔وقت گزرتا گیا اورتحریک انصاف نے بے رحم احتساب کے نام پر احتساب کمیشن بناکرلوگوں کے توقعات کو پھرسے پرلگادیئے کہ چلیں اب کرپٹ سیاستدانوں اوربیوروکریسی پر ہاتھ ڈالاجائے گااورپھراس حوالے سے چند بڑی خبروں نے تحریک انصاف کے گراف کوبلند کردیا کہ تحریک انصاف نے اپنے ہی وزیرمعدنیات ضیااللہ آفریدی کو گرفتارکرلیا، ہر طرف واہ واہ اورجے جے ہوگئی لیکن اچانک اس کام کوبریک لگ گیا تحریک انصاف کو احساس ہوگیا کہ شاید وہ کچھـ" غلط "کربیٹھی ہے کیونکہ جس شخص کو اس نے ڈی جی احتساب کمیشن بنایا تھا وہ توعمران خان کی تقریروں سے یہ اندازہ لگائے بیٹھا تھا کہ شاید کسی پربھی ہاتھ ڈالنے کا اسے مکمل اختیارہے مگراسے توروک دیا گیا کہ اب وہ ذرا یہ کام کچھ یوں کرے کہ کوئی ناراض بھی نہ ہو۔ یہی وہ وقت تھا کہ میڈیا پرہونے والی بحث کے ذریعے لوگوں کو احساس ہوا کہ تحریک انصاف بھی ایک سیاسی جماعت ہی ہے اوراس سے زیادہ کوئی چیز نہیں۔ خیبرپختونخوا جہاں گزشتہ تین سالوں سے تحریک انصاف کی حکومت ہے اوراسے برسراقتدارآکرمختلف نعروں کو عملی جامہ پہنانے کا موقع ملاتوکئی اپنے اس سے دورہوگئے تاہم جہاں پراسے اقتدارنہیں ملا ابھی تک عوام کا وہ طبقہ اس کے جادوئی اثرمیں مبتلا ہے۔
خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف نے اپنے بنیادی نعرے سے پیچھے ہٹ کراس احتساب سے ہاتھ کھینچ لیا جووہ کسی بھی اورجماعت کا کرنا چاہتی ہے لیکن اپنے لئے اسے کچھ رعایتیں درکارہیں کہ نہیں ابھی نہیں۔ پھر اس نے اس کا حل نکال لیا اوراحتساب کے قانون کوبدل کراس کی اصل جان نکال دی اوراب یہ احتساب بھی اسی احتساب کی ایک شکل بن گیا ہے جس پرتحریک انصاف ہمیشہ سے تنقیدکرتی آئی تھی۔
اس دوران تحریک انصاف نے لوگوں کوبتایا کہ وہ صوبے کےاسپتالوں کو عمران خان کے بنائے ہوئے شوکت خانم اسپتال کے برابرلائے گی جس پریقینا کسی حدتک کام بھی ہوا ہے لیکن اتنا بھی نہیں کہ وہ لوگ مطمئن ہوسکیں جنہوں نے اس کے لئے سڑکوں پرنکل کراپنا ماضی بدلااورغیرسیاسی سے سیاسی بن گئے ۔
تحریک انصاف نے صوبے میں پولیس کو خودمختاری دے کر یقینا بہت اہم کام کیالیکن اس کے اثرات بھی جب آئیں گے تب پتہ چلے گا کہ کیا وہ پولیس جوبے لگام حالت میں پلی بڑھی تھی اس سے وہ کام لیا جاسکے گا جس کی اب اس سے توقع کی جارہی ہے لیکن جب یہ سب کیا جارہا ہے توذرا یہ بھی یاد دلاتے چلیں کہ یہ پولیس کبھی کبھی شام کے بعد علاقوں میں گشت کرکے لوگوں کو احساس دلاتی تھی کہ حکومت ان کی حفاظت کے لئے موجود ہے اورجب اس نے یہ کام چھوڑدیا توپشاورکے پوش علاقے حیات آباد میں لوگوں کے دروازے پر دستک دے کربھتہ مانگنے والوں کو آزادی مل گئی۔
پھرتحریک انصاف نے بہت دیر کے بعد صوبے میں آخرکاراس قانون کو بھی کسی حد تک بے جان کرکے منظورکرلیا جس کے تحت حکومت اورسرکار میں موجود لوگوں کو ذاتی کاروبارکرنے کی اجازت نہیں تھی اس قانون کو بھی اس حالت میں منظورکیا گیا کہ اس میں سے لوگوں کے منتخب ایم پی ایزکونکال لیا گیا کہ وہ اب اس کی زد میں نہیں آسکیں گے۔ سمجھوتوں کی ایک لائن ہے جس پرتحریک انصاف چلتی رہی اورپھر7اگست 2016کادن بھی آیا جب لوگوں نے دیکھا کہ عمران خان خود جلوس کی قیادت کررہے ہیں اورجلوس میں صرف وہ لوگ موجود تھے جنہیں ایم پی ایز اورناظمین گھیرگھارکرساتھ لائے تھے کہ اگروہ لوگوں کو لانے میں ناکام ہوتے توان کی پارٹی میں پوزیشن خراب ہوتی۔ اس دن اس جلوس میں وہ کوئی بھی شامل نہیں تھا جوبے وجہ تونہیں لیکن بغیرکسی مفاد کے 11مئی 2013 کے دن تحریک انصاف کے ساتھ کھڑے ہوگئے تھے اس جلوس میں بہت سارے وہ تھے جن کا مفادتھاکہ وہ مستقبل میںبھی پارٹی کا ٹکٹ حاصل کرسکیں یا ان کے ساتھ کے وہ لوگ تھے جواپنے ان منتخب نمائندوں کا ساتھ دینے آئے تھے۔
ان دودنوں کے بیچ بہت کچھ بدل چکا ہے لیکن پتہ نہیں پارٹی کے سربراہ عمران خان کو کس رنگ کی عینک لگائی جاچکی ہے کہ انہیں اس رنگ میں یہ نظرنہیں آرہا کہ اب لوگ ہاں لوگ یعنی عام لوگ ان کے ساتھ نہیں نکلے۔ ایسے میں ان کے ارد گرد لوگوں میں پتہ نہیں کوئی موجود بھی ہے یا نہیں جوانہیں بتا سکے کہ وہ جو بغیر کسی مفاد کے ساتھ آئے تھے کہ ان سے کہیں پیچھے رہ گئے ہیں۔


.
تازہ ترین