• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس قسم کی اطلاعات حقیقت پر مبنی بھی ہوسکتی ہیں کہ وزیر اعظم نوازشریف کا ان دنوں سعودی عرب جانا صرف عمرے کے لئے نہیں ہے اس کے پس منظر میں کچھ اور بھی ہے جو وہاں ان کی مصروفیات سے ظاہرہورہا ہے۔ لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ سعودی عرب اس پوزیشن میں آج نہیں ہے کہ وہ امریکی ذہن کو پاکستان کے حق میں بدل سکے وہ اس وقت مشرق وسطیٰ میں ہونے والی اکھاڑ پچھاڑ سے اور افغانستان میں سیاسی بحران سے تشویش میں مبتلا ہے۔ اگر افغانستان میں امریکی حکمت عملی اور کوشش جو وہ الیکشن میں دھاندلی کا معاملہ اپنے سیاسی نظریات کے مطابق طے کرانے کے لئے کر رہا ہے کامیاب نہ ہوئی تو یہ پورا علاقہ سیاسی اورعسکری اعتبارسے بڑے ہاٹ زون میں تبدیل ہو سکتا ہے۔
یہ تو اب بات صاف ہوکر سامنے آگئی ہے کہ شمالی وزیرستان میں جو آپریشن فوج کررہی ہے اس کے پیچھے کئی محرکات کام کر رہے ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ امریکہ اس سے مطمئن نہیں ہے اور افغانستان بھی ناراض ہے۔ غیر ملکی میڈیا میں یہ پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ شمالی وزیرستان میں ہونے والا فوجی آپریشن حقانی نیٹ ورک کو ختم نہیں کر سکا ہے بلکہ وہ امریکی توقعات کو بھی پورا نہیں کرسکا ہے۔ اسی قسم کا ایک بیان اور الزامات قومی پریس میں افغانستان میں امریکی جنرل جوزف ڈینفرڈ کے حوالے سے بھی شائع ہوا ہے۔ اس سے یہ اندازہ لگانا قطعاً مشکل نہیں ہے کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کرانے میں امریکہ کا ہاتھ ہے اور امریکی تو کئی سالوں سے پاکستان پر اس کے لئے دبائو بھی ڈال رہے تھے۔ جیمز ڈوبنز افغانستان اور پاکستان کے لئے امریکہ کے خصوصی نمائندے ہیں، ان کا اس سے بھی زیادہ سخت بیان قومی اخبارات میں شائع ہوا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’’پاکستان سے حقانی نیٹ ورک کو شمالی وزیرستان سے نکالنے کی یقین دہانی لی گئی تھی‘‘۔اب سیاسی صورت حال آپ کے سامنے ہے۔ اس پس منظر میں اگر وزیر اعظم نواز شریف کے سعودی عرب کے دورے کا جائزہ لیا جائے اور سابق صدر آصف زرداری کے اچانک امریکی دورے کا تجزیہ کیا جائے تو پاکستان جن بحرانوں میں گھرا ہوا ہے یہ بحران دونوں لیڈروں کے بیرونی دوروں کے محرک ہیں۔
پرویز مشرف کے دور میں جو ڈیل ہوئی تھی اس میں بھی سابق صدر آصف زرداری نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی طرف سے اہم کردار ادا کیا تھا اور یہی وجہ ہے کہ وہ دوڑ کر امریکہ گئے ہیں تاکہ امریکہ اس ڈیل کی پاسداری کرے جس کا وہ ضامن ہے اور پاکستان میں غیرآئینی تبدیلی کی مخالفت کرے اور جمہوریت کو جو خطرات لاحق ہورہے ہیں اس کی ہمّت افزائی نہ کی جائے۔ امریکہ کی طرف سے امریکی نائب صدر جون بیڈن نے اہم رول ادا کیا تھا۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ میاں نواز شریف کے دورۂ سعودی عرب اور آصف علی زرداری صاحب کے دوروں کے مقاصد ایک ہی جیسے ہیں۔ ایک منظر تو وہ ہے جو سامنے نظر آرہا ہے جو ملکی اور فارن میڈیا میں چھپنے والی خبروں نے اجاگر کیا ہے اور ایک منظر وہ ہے جس پر رازداری کے پردے پڑے ہوئے ہیں اور ہمیشہ ایسا ہوتا ہے۔
23؍جولائی 2014ء کا اخبار جنگ اگر آپ کے پاس ہے تو اس کی سہ ورق پر لگی سرخی کو دیکھئے ’’این آر او میں طے پایا تھا ملک میں تین انتخابات تک مارشل لا نہیں لگے گا۔ اسی سرخی میں یہ بھی ہے کہ مشرف کو ہر حال میں باہر جانا ہے اور وہ جائیں گے‘‘۔ ڈیل اس ضمانت کے بغیر نہیں ہو سکتی تھی۔پہلا الیکشن پرویز مشرف نے کرادیا جس میں پیپلز پارٹی کے آصف علی زرداری صدر منتخب ہوئے اور یوسف رضا گیلانی صاحب وزیر اعظم ہوئے۔ جنہوں نے ہی ’’ڈیل‘‘ کا بھانڈا پھوڑا۔ حالانکہ یہ بات کوئی راز نہ رہی تھی پھر بھی لوگ ان کے پیچھے پڑ گئے۔ دوسرا الیکشن پیپلزپارٹی کی حکومت نے کرایا، اس میں نواز شریف صاحب وزیر اعظم بن گئے۔ اب اس ڈیل کے تحت ایک انتخاب ہونا ہے یعنی تیسرا انتخاب، جس کے انعقاد میں خلل پڑنے کا اندیشہ ہے اور اس کی بڑی وجہ علامہ طاہر القادری اور عمران خان کا رویّہ ہے۔ جو چار سیٹوں کی دھاندلی سے شروع ہوا تھا اور اب مڈٹرم الیکشن کے نعرے بلند ہورہے ہیں۔ مڈٹرم الیکشن کا مطالبہ غیر جمہوری عمل نہیں ہے لیکن یہ سوچنا چاہئے کہ حکومتوں کی روز روز کی تبدیلی کیا ریاست کی سلامتی اور ملک کے نظام کے لئے کسی طور بھی احسن اقدام ہے۔ لیکن ذرا غور تو کریں کہ وقت نے ایسی چال چلی ہے کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوگیا ہے۔ پاکستان میں کیا ہوتا رہا ہے، کیا ہو رہا ہے اور اب کیا ہوگا، ڈوریں کون ہلا رہا ہے۔ یہ وقت کیا چال چل گیا ہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری اور نواز شریف صاحب ایک ہی مشن پر مختلف سمتوں میں محو سفر ہیں این آر او کی روح کو بچانے کے لئے۔ این آر او کے ضامن یہ پوچھ سکتے ہیں کہ آپ ہمیں وعدے یاد دلا رہے ہیں آپ نے بھی اپنے وعدوں اور عہد کی پاسداری کی ہے…؟ ہمارے پاس کیا جواب ہے؟
ہم 1954ء سے امریکہ کے برے بھلے کے ساتھی ہیں، افسوس کے ہم امریکی ذہن کو نہیں سمجھ سکے۔ میں نے 26؍اکتوبر 2013ء کے جنگ میں یہ لکھا تھا کہ ’’دوستوں کے بے وفا ہونے کا وقت آیا‘‘ امریکہ نے ایک حکمت عملی اور اسٹرٹیجی کے تحت پاکستانی فوج کو سوات اور جنوبی وزیرستان میں پھنسایا۔ وہ اسے شمالی وزیرستان میں بھی پھنسانا چاہتا ہے۔ امریکہ کا یہ الزام ہے کہ حقانی گروپ شمالی وزیرستان میں فعال ہے اور وہاں اس کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔ میں نے لکھا تھا کہ پاکستان کو امریکہ پر واضح کر دینا چاہئے کہ پاکستان اپنے کسی علاقے میں مزید فوجی کارروائی نہیں کرے گا لیکن آج جو کچھ سامنے آ رہا ہے وہ کچھ اورہے۔ امریکی کھلم کھلّا یہ کہہ رہے ہیں کہ شمالی وزیرستان کے آپریشن سے ہماری توقعات پوری نہیں ہوئیں۔ یہ وقت کیا چال چل گیا ہے کہ جو کچھ رازداری میں ہوا تھا وہ بھی سامنے آ گیا ہے۔ امریکہ، پاکستان کو آنکھیں دکھارہا ہے۔ تمام سیاسی پارٹیوں کو سوچنا چاہئے کہ انہیں آنے والی صورتحال کا مل کر مقابلہ کرنا ہے۔ وہ چاروں طرف سے دشمنوں میں گھرے ہوئے ہیں۔
یہ بات کہی جارہی ہے کہ زرداری صاحب نے امریکی نائب صدر جوہائیڈن اور دوسرے حکّام سے ملاقاتوں میں پاکستان میں موجودہ سیاسی نظام کا تسلسل یقینی بنانے کے لئے بات چیت کی ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ وہی کچھ ہے جو اخبارات میں شائع ہورہا ہے۔ زرداری ایک ذہین شخص ہیں، وہ اس طرح کی بات نہیں کر سکتے۔ وہ جانتے ہیں کہ امریکہ نے پرویز مشرف سے ڈیل کرانے میں اہم کردارادا کیا ہے لیکن امریکہ،پاکستان کے اندرونی معاملات میں آج مؤثر کردار ادا نہیں کر سکتا اور جو کچھ سامنے لایا جا رہا ہے اس سے مسلم لیگ (ن) کی حکومت اور پیپلزپارٹی کی مقبولیت کوپنجاب،خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں نقصان پہنچے گا۔ امریکہ اس وقت حکومت کے ساتھ اور پیپلز پارٹی کی حمایت میں کھڑا ہو سکتا ہے، جب ان کے اسٹرٹیجک مفادات یکساں ہوں اور جب این آر او ہوا تھا تو پیپلز پارٹی پرویز مشرف اور امریکہ کے اسٹرٹیجک مفادات یکساں تھے۔یہ مذہبی انتہاپسندوں کو پاکستان میں اقتدار میں آنے سے روکنا چاہتے تھے۔ فوج اپنی اسٹرٹیجی سے پاکستان کی بقا کے لئے دہشت گردوں سے لڑ رہی ہے اور وہ اس میں کامیاب ہو جائے گی لیکن حکومت، پیپلز پارٹی اور فوج کیا ایک ہی راستے پر چل رہے ہیں…؟ یہ ایک غور طلب سوال ہے۔
تازہ ترین