• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج موضوع 4اور سب سے پہلے بات ترکی کی، استنبول کے ایک فوجی ڈویژن کی ناکام بغاوت کے بعد فوجیوں کی گرفتاری تو سمجھ میں آئے مگر ایک ہزار اسکول، 12سو فلاحی تنظیمیں، مزدوروں کی 19سو آرگنائز یشنز، 15یونیورسٹیاں اور 35طبی اداروں پر پابندی، 21ہزار اساتذہ سمیت محکمہ تعلیم کے 40ہزار ملازمین، وزارتِ داخلہ کے 8777اور وزارتِ مذہبی امو ر کے 1ہزار ملازمین کی معطلی و گرفتاری، 38صوبائی گورنرز اور 47ڈسٹرکٹ گورنرز کی برخاستگی، 42صحافیوں کے وارنٹ، 10ہزار ماہرین کے پاسپورٹس کی منسوخی اور سینکڑوں دانشوروں کے بیرونِ ملک جانے پر پابندی کے حکم نامے سمجھ سے بالاتر، کیا عوام نے سینوں پر گولیاںکھا کر اور ٹینکوں کے آگے لیٹ کر اسی جمہوریت کو بچایا تھا اور کیا فوجیوں کو ننگا کرنے، ان کے منہ پر تھوکنے، مخالفین کی نماز ِ جنازہ پر پابندی اور انہیں علیحدہ دفنانے سے جمہوریت مضبوط ہو جائے گی، کیا ایسا تو نہیں کہ ترکی کے دشمن جو چاہتے تھے ترک قیادت وہی کچھ کر رہی اور کیا یہ تو نہیں کہ شام،عراق،لیبیا اور مصر میں نفرتوں کے بیج بونے والے یہاں بھی سرگرم عمل ہو چکے، اگریہ سلسلہ جاری رہا تو جمہوریت کیلئے قربانیاں دینے والے بھی یقینا یہ سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ انہوں نے قربانیاں جمہوریت کیلئے دیں یافردِواحد کیلئے، یہ یاد رہے کہ دشمن کی آنکھوں میں تو بہت پہلے سے مصر، ترکی اور پاکستان کی فوج کھٹک رہی،باقی یہاں سیلوٹ اپنے ان افلاطونوں کو کہ جنہوں نے ناکام ترک بغاوت کی آڑ میں پاکستان کو ترکی سے ملا کر اپنی اپنی بھڑاسیں نکالیں، شاید انہیں یہ یاد نہ رہا کہ یہ ترکی نہیں یہ پاکستان،وہ پاکستان کہ جہاں جب فیلڈ مارشل ایوب کے 3جرنیل آدھی رات اسکندر مرزا کو بیڈ روم سے نکال کر دومنٹ میں استعفیٰ لے لیں یا چند گھنٹوں میں مارشل لا لگا کر ضیا الحق چند مہینوں میں بھٹو کو لٹکا بھی دے تب بھی جمہوراور جمہوریت لمبی تان کر سوئی رہے اور پھر مشرف کے مارشل لا والی شام جب اِدھر 17فوجی وزیراعظم ہاؤس میں داخل ہوں تو اُدھر نہ صرف دو تہائی اکثریت والی جمہوریت منہ لپیٹ کر پچھلے دروازے سے نکل جائے بلکہ جمہور اتنی مٹھائیاں بانٹے کہ دکانوں پر مٹھائیاں ہی ختم ہو جائیں۔
آج دوسرا موضوع داعش کا، وہ داعش جس نے عراق،شام اور لیبیا کی اینٹ سے اینٹ بجادی جو اپنے ہیڈ کوارٹر شام سے8سو میل دور سعودی عرب میں دھماکے کرلے،جو 2ہزار میل دور برسلز پر حملہ آور ہو جائے،جو 21سو میل دور فرانس اور ڈنمارک میں قتلِ عام کر دے،جو3ہزار میل دور بنگلہ دیش میں تباہی پھیلا دے، جس سے ہزاروں میل دور یورپ خوفزدہ اور جو اسلام کی ٹھیکیدار بنی ہوئی وہی داعش اپنے ہیڈ کوارٹر سے صرف3سو کلو میٹر دور مسلمانوں کے دشمن اسرائیل کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھے۔۔۔ ایسا کیوں۔۔۔ سوچئے گا ضرور!
آج کی تیسری بات اُس آسٹریلین نرس برونی وئیر کی جس نے سالہا سال اُن مریضوں کی خدمت کی کہ جنہیں ڈاکٹر لاعلاج قرار دے دیں، جنہیں گھر والے، رشتہ داراور دوست احباب سب چھوڑ جائیں اورجنہیں خود بھی معلوم کہ وہ چند دنوں یا دو چار ہفتوں کے مہمان، 8کمروں،4برآمدوں اور 2لانوں والے گھر میں صبح سے شام تک موت کی دہلیز پر بیٹھے ہوؤں کی فرمائشیں پوری کرتی اور مرنے سے پہلے انہیں مرنے سے بچانے میں لگی وہ برونی وئیرجو کبھی کسی کے پیپ زدہ زخم دھوتے ملتی تو کبھی کسی کینسر زدہ کی الٹیاں صاف کرتے پائی جاتی اور جو کبھی کسی کو بائبل سنا کر سکون پہنچاتی تو کبھی کسی کو چرچ لے جاکر اسکا ڈپریشن کم کرتی اسی برونی وئیر اور آخری سانسیں لیتے اسکے مہمانوں کے ساتھ ایک مرتبہ ایک غیر ملکی ٹی وی چینل کی ٹیم نے پورا دن گزارا،اُس روز 10گھنٹے ساتھ بیتا کر شام کو خدا حافظ کہنے سے ذرا پہلے دروازے میں کھڑے ٹی وی چینل کے ٹیم لیڈر نے جب برونی سے آخری سوال کیا کہ’’موت کے قریب پہنچ کر لوگ کیا سوچتے اورکیا کہتے ہیں‘‘تو لمبے بھورے بالوں کو اپنے چہرے سے ہٹاتے ہوئے برونی بولی’’آخری دنوں میں 99فیصد لوگوں کے 5پچھتاوے، کاش لوگوں کو خوش کرنے کی بجائے ہم اپنے خدا کو خوش کر لیتے، کاش زندگی میں ہم اتناہی کام کرتے جتنا ضروری تھا، کاش جو کچھ ہمارے دل میں تھا اس کا ہم بروقت اظہار کر پاتے، کاش ہم اپنی بہتری کے ساتھ ساتھ اس دنیا کی بھلائی کیلئے بھی کچھ کر دیتے اور کاش ہم فضول قسم کے خوف اور پریشانیوں میں وقت ضائع کرنے کی بجائے اپنی مرضی کی زندگی جی لیتے ‘‘ یہ کہہ کر برونی بات کرتے کرتے رُکی اور پھر اس نے ایک لمبی سانس لے کر صحافی کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا’’مجھے آج تک کوئی ایک بھی ایسا نہیں ملا کہ جس نے اپنے آخری دنوں میں یہ کہا ہو کہ کاش وہ کچھ پیسہ اور اکٹھا کر لیتا، بڑا گھر یا مزید مہنگی گاڑی لے لیتا یا کاش وہ کوئی بڑا عہدہ حاصل کر لیتا مطلب جن چیزوں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے بندہ عمر گزاردے، جاتے وقت وہ سب چیزیں بے معنی ہو جائیں ‘‘ برونی نے بات ختم کی، صحافی سے ہاتھ ملایا اور دروازہ بند کر کے قبروں میں ٹانگیں لٹکائے اپنے مہمانوں کی طرف لوٹ گئی لیکن دوستو جب سے میں نے برونی کی باتیں سنیں تب سے میری دعاؤں میں یہ دعا سر فہرست کہ’’سسکی سے ہچکی تک وہ مختصر ترین دورانیہ جسے ہم زندگی کہیں، اللہ اس زندگی کی حقیقت ہم خاک سے بنے انسانوں کو خاک کا حصہ بننے سے پہلے سمجھنے کی توفیق عطا فرمادے ‘‘۔
اوراب آخر میں بات اس شخص کی کہ جس نے ثابت کر دیا کہ اگر نیت صاف اور Personal Agenda نہ ہوتو پھر ناممکن بھی ممکن ہو جائے، جی با لکل میں بات کر رہا ہوں اپنے آرمی چیف کی،اگر حکومتی مہم جو ئیاں تھمی رہیں اور اگر حالات نے کوئی Extraordinary رُخ اختیار نہ کیا تواب یہ طے کہ جنرل راحیل شریف نومبر میں اپنی مدت ملازمت پوری کر کے ریٹائر ہو جائیں گے کیونکہ اب لاہور میں اپنا گھر شروع کروا چکے سپہ سالار کو چند دن پہلے جب پھر ایک اہم شخصیت نے Extensionکی آفر کی تو نہ صرف پھر سے نہ کرتے ہوئے اُنہوں نے اپنی اولین ترجیح وقت پر ریٹائر ہونا بتائی بلکہ یہ بھی کہا کہ انکی خواہش کہ فوج سیاست سے دور رہے، مجھے وہ سہ پہر یاد کہ جب بیسیوں افراد چیف کے گرد گھیرا ڈالے کھڑے ایک ہی بات کئے جارہے تھے کہ’’اس اہم موقع پرآپ فوج کی قیادت نہ چھوڑیں ‘‘ مگر مسلسل مسکراتے راحیل شریف کا ایک ہی جواب تھا کہ’’اہم میں نہیں اہم فوج اور فوج وہ ادارہ کہ جہاں کسی کے آنے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘‘ اور مجھے وہ شام بھی نہ بھولے کہ جب ایک تقریب کے بعد جنرل راحیل شریف کو شرکاء نے ملک کی خراب صورتحال کی داستانیں سنا سنا کر جب یہ کہا کہ’’آپ آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کریں‘‘ تو چیف کا جواب تھا ’’میرا اور فوج کا جو کردار وہ ہم پہلے ہی ادا کر رہے ‘‘، اب اگلے آرمی چیف کا اعلان نومبر میں اورنئے چیف کیلئے 4میں سے کو ن سے 2امیدوار فیورٹ،یہ ذکر پھر سہی۔


.
تازہ ترین