• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
افغانستان کے متنازع صدارتی الیکشن کے آڈٹ میں تاخیر اور اس کے نتائج سے متعلق غیر یقینی صورت حال ملک کے سیاسی و دفاعی نظم و نسق کی منتقلی پر ایک تاریک سایہ ڈال رہی ہے، ایک ایسے وقت جب مغربی لڑاکا فوجیوں کے انخلاء کی حتمی مدت ختم ہونے میں محض چند ماہ رہ گئے ہیں۔ اس کی وجہ سے افغانستان میں 2014کے بعد امن و استحکام کے امکانات بھی معدوم ہوتے جارہے ہیں۔نئے صدر کی حلف برداری کے لئے گزشتہ طے کردہ 2 اگست کی تاریخ پہلے ہی گزر چکی ہے۔ اب تک کسی نئی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا۔
25 اگست کو الیکشن کے نتائج کا اعلان کرنے کے صدارتی ترجمان کے بیان اور آڈٹ رواں ماہ کے اواخر تک مکمل ہوجانے کی بین الاقوامی فریقین کی امیدوں کے باوجود بدستور یہ سب محض خوش فہمیاں ہی لگ رہی ہیں۔حریف امیدواروں کے درمیان اگست میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی مصالحانہ کوششوں کے بعد واشنگٹن کو توقع ہے کہ رواں ماہ کے اواخر تک فاتح امیدوار کا اعلان کردیا جائے گا۔ دونوں حریف امیدواروں کا کہنا ہے کہ وہ اگست کے اواخر تک صدر کی حلف برداری کی تاریخ پر متفق ہوجائیں گے۔لیکن آڈٹ کا عمل بمشکل ہی انجام پارہا ہے۔ بین الاقوامی برادری کے کچھ اراکین کو توقع ہے کہ آڈٹ عمل تین ہفتوں کے اندر اندر پایہ تکمیل تک پہنچ جائے گا۔ لیکن کیا 4اور 5ستمبر کو ویلز میں ایک اہم نیٹو کانفرنس کے انعقاد تک ایک نئے صدر عہدے پر فائز ہوسکے گا، یہ بدستور ایک جواب طلب سوال ہے۔
سیاسی تعطل کو ٹالنے کے لئے امریکی وزیر خارجہ جان کیری کو دو بار مداخلت کرنا پڑی جس کا خطرہ اس وقت پیدا ہوگیا تھا جب 14 جون کو افغان الیکشن کے دوسرے مرحلے میں دھاندلی کے الزامات سامنے آئے جس سے ایک بدترین تنازع کھڑا ہوگیا۔الیکشن پر کھڑے ہونے والے جھگڑے سے نہ صرف ملک میں سیاسی اور نسلی تفریق کے مزید گہرا ہونے بلکہ سیاسی امور کی منتقلی کا عمل پٹری سے اترنے کا خطرہ بھی پیدا ہوگیا تھا۔ اس پر صدر اوباما کو حریف امیدواروں اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو ارجنٹ فون کرنے پڑے جس کے نتیجے میں جان کیری کی ثالثی میں ان کے درمیان 12 جولائی کا معاہدہ طے پایا۔
اگرچہ کیری ایک بظاہر صاف ستھرا فارمولا سامنے لائے ہیں جس نے سیاسی تعطل کو ختم کرکے الیکشن کے بعد شروع ہونے والے جھگڑوں کو ایک تباہ کن بحران میں تبدیل ہونے سے روکا ہے تاہم غنی اور عبداللہ کے حلقوں کے مابین دو طرفہ معاہدے کی تفصیلات طے ہونا باقی ہیں۔ اور جیسا کہ عموماً ہوتا ہے اصل فساد تفصیلات میں ہی پنہاں ہے۔معاہدے کا ایک پہلو قانونی طور پر کامیاب امیدوار کا تعین ہے۔ اس میں ڈالے گئے تمام 80 لاکھ ووٹوں کی مکمل اسکروٹنی کا نکتہ شامل ہے جسے بعد ازاں کیری نے آج تک کہیں بھی ہونے والا سب سے بڑا اور پیچیدہ ترین الیکشن آڈٹ قرار دیا ۔ معاہدے کا دوسرا نکتہ ایک قومی اتحادی حکومت کے قیام کے لئے شراکت اقتدار کے معاہدے کا ہے جو دونوں رہنماؤں کی جانب سے بعدازاں تشکیل دی جانےچاہئے ۔
اور امریکہ بھی یہ وسیع تر مفاہمت اس طرح کرانے کے قابل ہوسکا جب اس نے دھمکی دی کہ اگر تعطل برقرار رہا تو وہ تمام تر معاونت منقطع کردے گا۔ لیکن آڈٹ کے تکنیکی طریق کار اور قومی اتحادی حکومت کے سیاسی طریق کار دونوں کو عملی شکل دینا اذیتناک حد تک انتہائی مشکل ترین کام ثابت ہوا ہے۔ دونوں حلقوں کے درمیان اختلافات کے باعث دونوں اہدف کی جانب پیش رفت متاثر ہوئی ہے۔آڈٹ کے قواعد و ضوابط پر اختلافات کے نتیجے میں یہ عمل پہلے سے ہی چار بار معطل ہوچکا ہے نیز اس مشق کا انعقاد بھی سست روی اور بے ترتیبی کا شکار ہوا ہے۔ درحقیقت اب تک یہ آڈٹ ایک سنجیدہ اور پائیدار انداز میں شروع ہونا باقی ہے۔ کیونکہ فی الحال 23 ہزار میں سے صرف ایک ہزار کے لگ بھگ بیلٹ بکسوں کا آڈٹ ہی ہوسکا ہے۔اگرچہ دونوں امیدوار ووٹوں کے استرداد کے لئے اقوام متحدہ کا مجوزہ معیار مبینہ طور پر تسلیم کرچکے ہیں لیکن عبداللہ کے حلقے کے اعتراضات کے باعث آڈٹ گزشتہ ہفتے کے روز اپنی مقررہ تاریخ پر شروع نہیں ہوسکا۔
یہ عمل اگلے روز 3 اگست کو عبداللہ کی ٹیم کی غیر موجودگی میں دوبارہ شروع ہوا جو بدستور شکوک و شبہات کا اظہار کرتے پھر رہے ہیں۔ لہٰذا یہ بات اب بھی غیر یقینی ہے کہ کیا آڈٹ عمل ہمواری کے ساتھ آگے بڑھ سکے گا اور اسے مکمل ہونے میں کتنا عرصہ لگے گا۔ لیکن سب سے نتیجہ خیز سوال جو بدستور حل طلب ہے یہ ہے کہ اگر آڈٹ عمل کے نتائج کو بھی چیلنج کردیا گیا تو پھر کیا ہوگا۔ پھر کیا طریقہ اختیار کیا جائے گا اور فیصلہ سنانے کے لئے کیا مقررہ مدت طے کی جائے گی؟اگر الیکشن کے فاتح امیدوار کے تعین کے عمل میں کئی رکاوٹوں کا سامنا ہے تو کیری کی جانب سے کرائے گئے معاہدے کا دوسرا پہلو اور زیادہ مشکل ہے۔ ہارنے والے امیدوار کو شراکت اقتدار کے انتظام کے تحت آئندہ حکومت کا حصہ بنا کر تھوڑا سا فائدہ پہنچانا ۔۔ باالفاظ دیگر اس کی اشک شوئی کرنا ... کاغذ پر تو بڑا شاطرانہ لگ رہا ہے لیکن اس کا حقیقت کا روپ دھارنا اتنا آسان نہ ہوگا۔
دونوں فریق پہلے سے اس کا اشارہ دے چکے ہیں کہ دونوں کے پاس اس کی اپنی اپنی تشریحات ہیں کہ ایک قومی اتحادی حکومت کیا معنی رکھتی ہے ۔ ایک امریکی تجزیہ کار نے معاہدے کے اس حصے کو تشویش ناک حد تک مبہم اور نامکمل قرار دیا ہے۔ لیکن سب سے اہم سوال جس کا جواب نہیں دیا گیا یہ ہے کہ فاتح امیدوار کا اعلان کیے جانے کے بعد اپنے حریف کو اقتدار میں شریک کرنے سے اسے کیا فائدہ ہوگا؟لہٰذا یہ بات باعث حیرت نہیں کہ اتحادی حکومت پر جاری مذاکرات دونوں فریقوں کے درمیان برقرار اختلافات کی وجہ سے دشوار نظر آتے ہیں۔ اشرف غنی کے حلقے کے ایک ترجمان نے یہ بات کچھ اس طرح بیان کی۔ ایک اتحادی حکومت کے قیام جیسے انتہائی نازک معاملے، جس کی ماضی میں ہمارے سیاسی نظام میں کبھی کوئی گنجائش نہیں رہی، پر کسی سمجھوتے تک پہنچنے کے لئے ٹھیک ٹھاک گفتگو و شنید کی ضرورت ہے۔
اس الجھن کے باعث دونوں امیدواروں سے ایک اتحادی حکومت کے معاہدے پر دستخط کرانے کے لئے کیری اگست میں واپس بھاگے بھاگے کابل گئے۔ لیکن اس معاہدے کی تفصیلات سامنے آنا بدستور باقی ہے اور دونوں فریقین کے درمیان اختلافات دوبارہ جنم لے سکتے ہیں۔اگرچہ الیکشن آڈٹ کی ساکھ کو یقینی بنانا بھی اہم ہے لیکن سست و اٹکتے ہوئے عمل سے پیدا ہونے والی غیر یقینی افغانستان کے سلامتی اور سیاسی نظم و نسق کی منتقلی پر واضح اثرات مرتب کرے گی۔
عمل کی سست روی کا مطلب ہے کہ مجوزہ سیکورٹی منتقلی کے اہم حصوں میں مزید تاخیر… یعنی دو معاہدوں پر دستخط۔ جن میں سے ایک کابل اور واشنگٹن کے درمیان 2017 تک بچی کھچی امریکی فوجی موجودگی کو طے کرنے کا دوطرفہ سیکورٹی معاہدہ (بی ایس اے) ہے اور دوسرا اسٹیٹس آف فورسز ایگریمنٹ (سوفا) ہے جو دیگر نیٹو ممالک کے لئے ضروری ہے تاکہ وہ بچی کھچی فورس میں شامل ہوسکیں۔ اس کے نتیجے میں مغرب کے انخلاء کی حکمت عملی ایک ایسے وقت نہ صرف پیچیدگی کا شکار بلکہ خطرے میں پڑسکتی ہے جب باقی ماندہ لڑاکا افواج کا انخلاء زیر تکمیل ہے۔
الیکشن کے فاتح امیدوار کے تعین میں کسی بھی قسم کی تاخیر سے افغان مفاہمت کے امکانات پر بھی نمایاں سیاسی مضمرات مرتب ہوں گے جو اگر 2014 کے بعد ملک کے استحکام کی اساس نہیں تو اس کے لئے لازمی ضرور ہے۔ کامیاب امیدوار کے اعلان اور ایک قانونی حکومت کی تشکیل میں جس قدر تاخیر کی جائے گی، جیسے جیسے مغربی فوجی انخلاء کی تاریخ نزدیک آتی جارہی ہے، طالبان کے لئے مفاہمتی عمل میں شامل ہونے کا فائدہ اتنا ہی کم ہوتا جائے گا۔
ایک غیر یقینی ماحول میں یقیناً طالبان کے لئے کسی بھی طرح کے امن مذاکرات میں شامل ہونے میں کوئی فائدہ نہیں۔ بلکہ طالبان رہنما غیر یقینی صورت حال سے زیادہ سے زیادہ اعتماد حاصل کرتے نظر آرہے ہیں۔
اس کی مثال طالبان کے رہنما ملا عمر کے عید کے موقع پر جاری کردہ پیغام اور طالبان کی فوجی مہم میں بڑھوتری کی صورت میں نظر آتی ہے۔ خبروں سے پتہ چلتا ہے کہ طالبان جنوبی (قندھار اور ہلمند) اور مشرقی (ننگرہار جس کا دارالحکومت جلال آباد ہے) صوبوں میں اپنی سرگرمیوں میں مزید شدت پیدا کررہے ہیں اور دیگر جگہوں پر بھی مزید نڈر حملوں کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔
دوسری جانب اگر ایک قانونی فاتح جسے وسیع تر قبولیت بھی حاصل ہو، کو مسند اقتدار پر بٹھادیا جاتا ہے تو اس سے طالبان پر لڑائی کی بجائے مذاکرات کا راستہ اپنانے کے لئے دباؤ پڑے گا۔ لیکن ایک قانونی حکومت کے قیام میں جتنا زیادہ وقت لگے گا اور نیٹو کے انخلاء کی ڈیڈ لائن جتنی زیادہ نزدیک آتی جائے گی، حکومت اور مسلح اپوزیشن کے درمیان کسی بھی سیاسی گنجائش پیدا ہونے کا امکان کم سے کم تر ہوتا جائے گا۔
آڈٹ کے نتائج میں تاخیر اور اختلاف کی بہت بھاری قیمت چکانی پڑسکتی ہے۔ لہذا یہ سب کے مفاد میں ہے کہ اس عمل کو بروقت اور معتبر انداز میں مکمل کیا جائے۔ درپیش چیلنجوں کو کم کیے بغیر یہ ہدف بدستور قابل حصول ہے۔ لیکن اس کے لئے اقوام متحدہ اور امریکہ کی اگر اضافی نہیں تو کم از کم مکرر کوششیں درکار ہیں۔ اور ان سب سے بڑھ کر اس کے لئے اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ دونوں کی طرف سے سیاسی بالغ النظری اور دانش مندی درکار ہوگی نیز ان کے پیروکاروں میں مصالحت کی روح کی ضرورت ہوگی۔انتخابی عمل کے اطمینان بخش نتائج کا متبادل اتنا خوفناک ہے کہ تصور کرنا بھی ممکن نہیں یعنی افغانستان کے سیاسی و سلامتی نظم و نسق کی منتقلی کے عمل کا پٹری سے اترنا، بین الاقوامی برادری کی جانب سے معاشی معاونت کا خاتمہ اور ملک کا انتشار و مزید خونریزی میں مبتلا ہونے کا امکان ان تمام تر خطرات کے ساتھ جو اس کے پڑوسیوں اور علاقائی امن و سلامتی کو لاحق ہوں گے۔
تازہ ترین