• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عمران خان کیا چاہتے ہیں۔ یہ ایک مشکل سوال ہے۔ شاید انہیں بھی اس کا جواب پوری طرح معلوم نہیں اس کا اندازہ اسی سوال پر ان کے مبہم جوابات سے ہوتا ہے، عمران خان 11 مئی کے انتخابات سے قبل تمام قومی اور بین الاقوامی اداروں کی سروے رپورٹوں کے برعکس کلین سویپ کے دعوے دارتھےاوراتنے پراعتماد کے کئی شرائط بھی لگادیں۔ ان کےعدلیہ،فخرالدین جی ابراہیم کی سربراہی میں قائم الیکشن کمیشن اورنگران حکومتوں سمیت کسی کے بارے میں کوئی تحفظات نہیں تھے۔ انتخابات کےنتائج آنے سے پہلے تک عمران خان نےانتخابات کے حوالے سے کوئی بڑا اعتراض نہیں اٹھایا تھا۔ نتائج آنا شروع ہوئے تو تحریک انصاف کے بعض رہنماوں نے( ن لیگ) کو مبارکبادیں بھی دے ڈالیں۔ پھر آہستہ آہستہ احساس ہونا شروع ہوا کہ دھاندلی ہوگئی۔ عمران خان اور ان کی جماعت کے ارکان اسمبلیوں میں آئے حلف لیا خیبر پختونخوا میں حکومت بھی سنبھالی جو کہ جمہوری روایات کی عمدہ پاسداری تھی۔ مگر ساتھ ساتھ عمران خان نے یہ بھی کہنا شروع کردیا کہ وہ انتخابات کو تسلیم کرتے ہیں دھاندلی کو نہیں پھر ان کی جانب سے پنجاب کے چار حلقوں میں انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کا مطالبہ سامنے آیا۔ ان حلقوں کو دیکھا جائے تو سیالکوٹ کے حلقے این اے 120 سے( ن) لیگ کے خواجہ آصف 21 ہزار سے زائد ووٹوں کی برتری سے کامیاب ہوئے۔لاہور کا حلقہ این اے 122 جہاں سے عمران خان( ن) لیگ کے سردار ایاز صادق سے تقریبا 9 ہزار ووٹوں سے ہارے،این اے 125 لاہور جہاں سے خواجہ سعد رفیق نے تحریک انصاف کے حامد خان کو لگ بھگ 39 ہزار ووٹوں سے شکست دی اور این اے 154 لودھراں جہاں سے تحریک انصاف کے جہانگیر ترین کو آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لینے والے صدیق بلوچ سے تقریبا 10 ہزار ووٹوں سے مات ہوئی۔اس حلقے میں( ن) لیگ کے امیدوار تیسرے نمبر پر رہے۔ان سب حلقوں میں ہار جیت کا مارجن خاصا تھا،اگر عمران خان کا مقصد یہ چار حلقے کھلوا کر صرف دھاندلی کی نشاندہی کرنا تھا تو صرف ایک ہی صوبے کے حلقے کیوں اور صرف وہی حلقے کیوں جہاں تحریک انصاف کے امیدواروں کو شکست ہوئی۔ بقول عمران خان کے دھاندلی تو پورے ملک میں ہوئی توصرف انہی حلقوں میں انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کا مطالبہ کیوں کیا گیا یہ تو عمران خان ہی بہتر جانتے ہیں لیکن پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ مطالبہ پورا کرنے کا اختیار حکومت کے پاس تھا نہ الیکشن کمیشن کے پاس یہ کام صرف الیکشن ٹریبونلوں کو کرنا تھا،اور ٹریبونل ایسا حکم تب ہی دیتے ہیں جب ابتدائی طور پر اس حلقے میں دھاندلی کے کچھ شواہد ملیں۔ دوسرے اب یہ بھی واضح ہو چکا ہے کہ انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق سے دھاندلی ثابت نہیں ہوسکتی ہے۔ اگر کوئی ایسا حلقہ منتخب کیا جائے جہاں سب کو یقین ہو کہ شفاف انتخابات ہوئے ہیں اور وہاں انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کرائی جائے تو بڑی تعداد میں غیر تصدیق شدہ ووٹ سامنے آئیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہرگز نہیں ہوگی کہ وہاں دھاندلی ہوئی بلکہ اصل وجہ مقناطیسی سیاہی کا درست طریقے سے استعمال نہ ہونا ہوگا۔ عمران خان نے انتخابات میں عدلیہ کے کردار پر انگلیاں بھی اٹھائیں لیکن جب توہین عدالت کیس میں سپریم کورٹ نے بلایا توانہوں نے کہہ دیا کہ انہوں نے کبھی اعلیٰ عدلیہ کی بات نہیں کی وہ تو صرف ریٹرننگ افسران کے کردار کی بات کرتے ہیں۔ لیکن سابق چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں یہ احساس ہوا کہ وہ بھی اس دھاندلی میں ملوث تھے،آہستہ آہستہ یہ فہرست بڑھتی چلی گئی میڈیا بھی ذمہ دار ٹھہرادیا گیااور پھر مطالبہ ہوا کہ صرف چار حلقوں کا نہیں پورے ملک کا الیکشن آڈٹ کرایا جائے ۔عمران خان کے الزامات بڑھتے گئے ان کے احتجاج میں بھی شدت آتی گئی لیکن وہ اس احتجاج میں دیگر اپوزیشن جماعتوں کو ساتھ نہ ملا سکے۔ حالانکہ دھاندلی کا شکوہ تو تقریبا سب ہی جماعتیں کررہی تھیں۔ عمران خان کہتے ہیں کہ ان کا مقصد انتخابی دھاندلی کو بےنقاب کرنا اور انتخابی نظام کو درست کرنا ہے۔ اس سے تو کوئی بھی اختلاف نہیں کرتا،دھاندلی کے خلاف اگر تحریک انصاف کی 58 شکایات سامنے آئیں تو الیکشن جیتنے والی مسلم لیگ(ن) کے امیدواروں کی جانب سے بھی 68 شکایات الیکشن ٹریبونلوں میں دائر کی گئیں۔ عمران خان دھاندلی کے الزامات کے حوالے سے جن غیر سرکاری تنظیموں کی رپورٹوں کے کسی ایک جملے کا حوالہ دیتے ہیں تواگلے ہی جملے میں وہی رپورٹیں یہ بھی کہتی ہیں کہ مئی 2013 کے انتخابات 2002 اور 2008 کے مقابلے میں زیادہ شفاف تھے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ دھاندلی نہیں ہوئی۔ اس سے کسی کو اختلاف نہیں ہوگا کہ دھاندلی موجودہ انتخابی نظام کا حصہ بن چکی ہے۔ اب اس نظام کو کیسے درست کرنا ہے۔ کیا احتجاج،لانگ مارچ یا دھرنوں سے یہ ٹھیک ہوجائے گا بالکل نہیں اسے ٹھیک کرنے کے لئے پارلیمنٹ میں قانون سازی کرنا ہوگی۔ ایک سال کے دوران عمران خان اور ان کی جماعت نے دھاندلی کا شور تو بہت مچایا لیکن پارلیمنٹ میں کوئی ایسا مسودہ قانون پیش نہیں کیا جس سے انتخابی نظام کو بہتر بنایا جاسکے۔ اب جبکہ اسی مقصد کے لئے ایک پارلیمانی کمیٹی بن چکی ہے اور تحریک انصاف بھی اس کا حصہ ہے تو اگر انتخابی اصلاحات ہی مقصد ہے تو اس فورم پر بات کی جاسکتی ہے۔ اگر عمران خان کے مطالبے کے مطابق فوری نئے انتخابات کرائے جائیں تو وہ بھی موجودہ قوانین اور انتخابی نظام کے تحت ہی ہوں گے اور وہی الیکشن کمیشن کرائے گا جس کو خان صاحب اب مسترد کر چکے ہیں۔ کیونکہ الیکشن کے لئے اسمبلیاں ختم کرنا ہوں گی نہ پارلیمنٹ ہوگی نہ نیا قانون اور نیا الیکشن کمیشن بن سکے گا تو خان صاحب کے الزامات اور مطالبات کچھ سمجھ سے بالاتر دکھائی دیتے ہیں۔ عمران خان کرکٹر ہیں اور وہ کرکٹ کی وہی سنسنی خیزی سیاست میں بھی لے آئے ہیں۔ ان کی سیاست میں بھی معلوم نہیں آگے کیا ہوگا۔ لیکن کھیل میں ایک چیز اسپورٹس مین اسپرٹ بھی ہوتی ہے۔ ایمپائر کا فیصلہ چاہے آپ کے حق میں نہ ہو تسلیم کیا جائےاور اس فیصلے پر احتجاج کرتے ہوئے دوبارہ میچ کرانے کا شور ڈالنے کی بجائے اچھی کارکردگی سے وہی میچ جیتنے کی کوشش کی جائے۔
تازہ ترین