• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کافی عرصہ پہلے کی بات ہے۔ دفتر سے گھر جاتے ہوئے سرخ اشارہ پا کر میں نے گاڑی کو بریک لگائی۔ گاڑی کا درجہ حرارت اور اپنا بلڈپریشر نارمل رکھنے کےلئے انجن بند کردیا کیونکہ ٹریفک وارڈن سروس روڈ پر موٹر سائیکل سواروں سے ’’تبادلہ ٔ خیال‘‘ میں مصروف تھا۔ گاڑیوں کا اژدہام زیادہ اورسرخ اشارہ جلد کھلنے کا امکان کم۔ ٹریفک پولیس کی طرح سگنل من مانی پر آمادہ۔
ایک خوش پوش نوجوان نے مجھے گاڑی کا شیشہ نیچے کرکے بات سننے کااشارہ کیا۔ ان دنوں گاڑیاں زبردستی چھیننے کے واقعات کم ہوتے تھے اورراہ گیروں کو لفٹ دینے کا رواج تھا۔ میں نے بھی یہ سوچ کر کہ نوجوان لفٹ کا خواہاں ہے شیشہ نیچے کیا اور نوجوان کی طرف استفہامیہ نظروں سے دیکھا۔ نوجوان غیرضروری تمہید کے بغیر بے تکلفی سے بولا ’’اپنے گھرانے کا واحد کفیل اور صبح سے بھوکا ہوں ازراہ انسانی ہمدردی دوچار ڈالر عطا فرمائیں۔ شکرگزار ہوں گا۔‘‘
میں نے تازہ دھلے، کلف لگے کپڑوں میں ملبوس نوجوان کی طرف دیکھا۔ اس کے مہذب لہجے اور غیرمہذب مطالبہ پر غور کیا اور پوچھا ’’برخوردار نہ تو چہرے مہرے سے بھکاری لگتے ہو نہ سارے دن کے بھوکے۔ پھر بھی مانگ رہے ہو اور وہ بھی پاکستانی روپوںمیں نہیں ڈالروں میں، چکر آخر کیا ہے؟‘‘
نوجوان شاید اس سوال کا جواب دینے کے لئے ذہنی طور پر تیار تھا۔ اعتماد سے بولا ’’میں پیشہ ور بھکاری ہوں نہ شوقیہ گداگر۔ میں ایک ضرورت مند ہوں، جو آپ سے بھیک نہیں دوستانہ امداد مانگ رہا ہوں کیونکہ کام کرنے کی مجھے عاد ت نہیں۔باپ دادا کی وراثتی جائیداد میں نمودونمائش، خوش خوراکی اور اللوں تللوں میں لٹا چکا ہوں۔ مقروض ہوں اور اصل زر کجا سودکی ادائیگی سے بھی قاصر۔ اپنا اور اپنے سہل پسند مفت خورے اہل خانہ کا پیٹ پالنے کا یہی ایک آسان اور مفید طریقہ ہے۔سفید پوشی کا بھرم بھی قائم رہتا ہے اور خوش لباس و خوش خوراکی کا شوق بھی پوراہو جاتا ہے۔‘‘
اشارہ بند تھا اور ویگنوں، گدھاریڑھیوں،رکشوں نے اشارہ کھلنے پرتیزرفتاری سے نکلنے کےامکانات ختم کردیئے تھے۔ اس لئے گپ شپ کے خیال سے میں نے پوچھا ’’اس قیمتی اورصاف ستھرے لباس میں بھیک ڈالرمیں مانگنے کا راز کیاہے؟ کسی کو بھلا ترس کیوں آئے گا؟ کسی متمول اور سخی کا دل کیوں پسیجے گا؟ تم مستحق، معذور نہ مجبور اور مانگ بھی سودخور مہاجنوں کی طرح رہے ہو،‘‘
’’سرجی! آدمی پھٹے پرانے لباس، مردنی شکل و صورت اور پاکستانی روپے کے ذکر سے خاندانی گداگر لگتا ہے۔ اپنے بیگانے سب نشانہ ٔ تضحیک بناتے اور چندٹکوں پر ٹرخاتے ہیں۔ ’’ہٹے کٹے ہو محنت مزدوری کیوں نہیں کرتے‘‘کی گردان الگ سننا پڑتی ہے۔ آج کے ترقی یافتہ اور مہذب دور میںمانگنے کا صحیح طریقہ یہی ہے۔ یہ گداگری نہیں مارکیٹنگ ہے۔ پیسہ بٹورنے اور عیش کرنے کی ماڈرن تکنیک۔ میں گداگر نہیں ’’اکنامک منیجر‘‘ ہوں ۔ میں خیرات نہیں امداد طلب کرتا ہوں۔‘‘
’’آپ نے کبھی اپنے حکمرانوں اور ان کے اقتصادی و معاشی مشیروں کو نہیں دیکھا۔ کشکول ہاتھ میں لے کر دنیا میں بھیک مانگنے نکلتے ہیں تو چہرے مہرے سے مفلس، ضرورت منداور مجبور نظرآتے ہیں نہ لباس، سفری سہولتوں اورزیراستعمال اشیا سے کسی غریب، مقروض اور بدحال ریاست کے شہری۔بڑے سے بڑے، خوشحال سے خوشحال اورترقی یافتہ سے ترقی یافتہ ملک میں بھی اتریں تو لگتا ہے لینے نہیں کچھ دینے آئے ہیں۔ان کے لباس، گاڑیوں اورطورطریقوں کو دیکھ کر میزبان ملک کے حکمران اور اعلیٰ عہدیدار سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ یہ بادشاہ سلامت اور شہزادے ہمارے سادہ رہن سہن، انداز میزبانی کو کنگلے پن پر محمول نہ کریں چنانچہ وہ اپنا بھرم قائم رکھنےکے لئے ان فائیوسٹار بیگرز کی جھولی میں ریال،ڈالر، پونڈ اور درہم و دینار ڈال کر خوش ہوتے ہیں اور اکناک منیجرز اپنی کامیابی پر پھولے نہیں سماتے کہ کیسے انہیں اپنی قوم کی طرح بے وقوف بنایا۔‘‘
نوجوان نے بولناشروع کیا تو بولتا ہی چلا گیا ’’سر جی! گداگر ا ور اکنامک منیجر میں زمین و آسمان کافرق ہے۔ بھیک اور امداد دو الگ الگ چیزیں ہیں لیکن آپ جیسے پسماندہ ذہن اورفرسودہ انداز ِ فکرکے لوگ جو آج تک ٹیکس، غنڈہ ٹیکس اوربھتہ خوری میں تفریق نہیں کرسکے اس باریک فرق کو کیا سمجھیں گے۔ انکم ٹیکس اور سیلزٹیکس کے ساتھ دوگنا بلکہ کئی گنا وِد ہولڈنگ ٹیکس، ایڈوانس انکم ٹیکس اور سپیشل ٹیکس ادا کرکے کبھی نہیں پوچھتے کہ اس ریاستی زور زبردستی، جیب تراشی اور غنڈہ ٹیکس میں کیا فرق ہے۔ گاڑیوں کے لائف ٹائم ٹیکس، ٹوکن ٹیکس، رجسٹریشن فیس، ٹرانسفرمیشن میں کئی گنااضافے کا کیا جواز ہے؟ حرف شکایت زبان پر لانا تو درکنار احتجاج کرنےوالوں کو حق بجانب تک نہیں سمجھتے کہ کہیں لوگ سفید پوش اورکنجوس ہی نہ سمجھ لیں۔‘‘
یہ کہہ کروہ تیزی سے ایک مہنگی او ر نئی نویلی گاڑی کی طر ف بڑھ گیا جس پر نمبر پلیٹ نہیں تھی اور پچھلی سیٹ پر ایک سوٹڈ بوٹڈ آدمی نیم دراز تھا۔ نمبر پلیٹ نہ لگوانے کی ایک وجہ تو یہ ہوسکتی ہے کہ رجسٹریشن فیس، ٹرانسفرمیشن، وِدہولڈنگ ٹیکس، ایڈوانس انکم ٹیکس اور ٹوکن فیس میں کئی گنااضافےکے بعد لوگ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن آفس کارخ کرنے سے کتراتے ہیں اور ہر ناکے پر پانچ سوہزار کی ادائیگی کو آسان سمجھتے ہیں جبکہ دوسری اورمعقول وجہ یہ ہے کہ کسی طاقتور اور بااثر فرد سے جو مہنگی گاڑی میں سوار ہو بھلا کون پوچھ سکتا ہے کہ وہ نمبر پلیٹ لگوائے بغیر گاڑی سڑک پر کیسے لایا؟ اگر صاحب بہادرکا تعلق کسی شاہی خاندان یا اس کے مقربین سے ہوا تو نوکری گئی اور ذلت اس پر مستزاد!!
تازہ ترین