• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
16مارچ 2013کو پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے پاکستان کی 13 ویں لیکن آمریت کے سائے کے بغیر پانچ سالہ آئینی مدت پوری کرنے والی پہلی قومی اسمبلی کے بارے میں رپورٹ کرتے ہوئے آنکھیں خوشی سے نم ہو رہی تھیں کہ ملک میں جمہوریت کا پودا جڑ پکڑ چکا۔ یہ یقین ہو چلا تھا کہ اب ملک میں جمہوریت کی ناؤ کبھی ہچکولے نہیں کھائے گی۔ تاریخ کے اس باب کو رقم کرنے کا سہرا جہاں پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرسن آصف علی زرداری کی مفاہمتی پالیسی کو جاتا ہے وہیں بطور اپوزیشن رہنما میاں نواز شریف کی جلاوطنی سے سیکھے ہوئے سبق کے بعد ان کی سیاسی بصیرت کا بھی بہت بڑا عمل دخل تھا۔ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین سمیت دیگر جمہوریت پسند رہنماؤں نے بھی اپنے کردار سے ثابت کیا کہ پاکستان بھی اب ان ممالک کی صف میں شامل ہو چکا جہاں آمریت ماضی کا قصہ بن چکی۔اس کے بعد 11 مئی کے عام انتخابات میں سونامی کے نام پر پاکستان میں تبدیلی کے نعرے کے ساتھ عمران خان کی قیادت میں پاکستان تحریک انصاف نے اسٹیٹس کو کی سیاسی جماعتوں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تو پاکستان کی سیاست سے لاتعلق رہنے والے عوام کی بہت بڑی تعداد نے ان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے پہلی بار طویل لائنوں میں لگ کر اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ قوم کو عمران خان اور تحریک انصاف کی صورت میں ایک نئی امید نظر آئی اور انہوں نے اپنے انگوٹھے کی چھاپ سے روایتی سیاست دانوں کی گردن سے عملی طور پر سریا نکال دیا۔ عوام نے خیبر پختون خوا میں بھاری مینڈیٹ دے کر عمران خان کے نعروں کو عملی شکل دینے کا تجرباتی میدان فراہم کر دیا۔ گیارہ مئی کے عام انتخابات کے بعد ایک سول جمہوری حکومت سے اقتدار دوسری سول جمہوری حکومت کو منتقل ہوا تو اسے جمہوریت کا اہم سنگ میل قرار دیا گیا۔ لیکن صرف ایک سال اور ڈھائی ماہ کے بعد انتخابات میں دھاندلی کو جواز بنا کر نیا پاکستان بنانے کے نعرے لگانے والے عمران خان احتجاجی دھرنے کے زور پر جمہوری وزیر اعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ان کے اسی آزادی مارچ کے دوران اسلام آباد کے داخلی راستے پر تعینات اسلام آباد پولیس اہلکار زارو قطار روپڑا اور اس نے سوال اٹھایا کہ کیا اس پاکستان کے لئے ہمارے آباؤ اجداد نے قربانیاں دی تھیں۔تحریک انصاف کے اس نئے پاکستان کی ایک جھلک جیو نیوز کی آزادی مارچ کی کوریج کرنے والی ٹیم کے ہمراہ ڈیڑھ گھنٹہ تک میں نے بھی ہفتہ کی شب اس وقت دیکھی بلکہ جھیلی جب جلسہ گاہ میں کوریج کے لئے پہنچنے پر مشتعل کارکنوں نے جیو نیوز کی گاڑی کو یرغمال بنا لیا۔تبدیلی کے ان علمبرداروں کے روئیے کو دیکھ کر دل سے ایک ہوک اٹھی کہ کیا یہی وہ نیا پاکستان تھا جس کی امید پاکستان کے سادہ لوح عوام نے لگائی تھی ۔ ریڈ زون کے دہانے پر بیٹھ کر پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان نے احتجاجی سیاست کے اس گڑے مردے کو اکھاڑ دیا ہے جسے میثاق جمہوریت کے بیلچے سے منوں مٹی تلے دبا دیا گیا تھا۔بلند بانگ دعوے کرنے والے کپتان نے خود کو اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے ۔ معاملات کو مبینہ طور پر پوائنٹ آف نو ریٹرن تک پہنچانے والے عمران خان نے میاں نواز شریف کو یہ دھمکی بھی دے ڈالی کہ دو دن بعد وہ کارکنوں کو روک نہیں پائیں گے ۔ادھر حکومت نے تحریک انصاف کے آزادی مارچ اور خیابان سہر وردی پر دھرنا دینے والے ڈاکٹر طاہر القادری سے مذاکرات کے لئے الگ الگ کمیٹیاں قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔اعلی سطحی اطلاعات کے مطابق حکومت معاملات کو بات چیت کے ذریعے قابل قبول حل کی طرف لے جانا چاہتی ہے جس میں وہ پارلیمنٹ کے ذریعے آئین میں ترمیم کے تحت نئے الیکشن کمیشن کے قیام اور موجودہ اسمبلی کی معیاد کو چار سال تک کرنے پر تیار ہو جائے گی ۔دوسری طرف کپتان اور نیا پاکستان بنانے کے پرویز مشرف کے پرانے اور ان کے نئے ساتھی شیخ رشید کے بلند و بانگ دعووں کے پس پردہ کچھ محرکات ضرور ہیں جو پتہ دیتے ہیں کہ حکومت کے لئے سب اچھا نہیں ہے۔ بطور عینی شاہد جہاں تیرہ اور چودہ اگست کی درمیانی شب پارلیمنٹ ہاؤس کے احاطے میں منعقدہ جشن آزادی کی قومی تقریب میں مسلح افواج کے دستے کو وزیر اعظم میاں نواز شریف کو سلامی پیش کر تے دیکھا وہیں پہ یہ پہلو بھی غور طلب تھا کہ موجودہ صورتحال کے باعث جہاں وزیر اعظم کے چہرے پر گہری سنجیدگی تھی تاہم تقریب کے اختتام پر میڈیا کے نمائندوں سے غیر رسمی بات چیت میں آرمی چیف با لکل ریلیکس نظر آئے۔ اسی طرح آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کے دھرنوں کے دوران ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج لاہور کی طرف سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر کی درخواست کے بارے میںفیصلہ سنایا جانا بھی غیر معمولی ہے ۔
ملکی تاریخ کے اس نازک موڑ پر سیاسی قیادت کو ایک بار پھر بھرپور کردار ادا کرنا ہو گا اور یہ رویہ بھی ترک کرنا ہو گا کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں تقریریں کرتے ہوئے جمہوریت اور آئین کی حفاظت کا عزم کریں اور ایوان سے باہر نکل کر احتجاج کرنے والوں کی پیٹھ تھپکیں ۔ وقفے کے بعد قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس بھی پیر سے شروع ہو چکے ہیں اس لئے حکومت فوری طور پر پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے احتجاج کرنے والوں کو پر امن طور پر معاملے کا حل نکالنے پر قائل کرے کیوں کہ اسی طرح جمہوریت کی گاڑی پٹری پر چلتی رہ سکتی ہے اور آئین پاکستان بھی مقدم رہے گا۔تحریک انصاف کے قائد یہ بات نہ بھولیں کہ پاکستان کے عوام کے لئے وہ امید کی ایک کرن بن کر ابھرے تھے اور اگر یہ کرن طلوع کے ساتھ ہی ڈوب گئی توملکی سیاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا اور وہ لوگوں کو برس ہا برس کے بعد میسر آئے متبادل کو چھین لیں گے۔اپنے خطاب میں عمران خان نے یہ تو کہہ دیا ہے کہ وہ نہیں چاہتے کہ انتشار پیدا ہو اور فوج آ جائے تو ان سے یہ بھی درخواست ہے کہ وہ دی گئی ڈیڈ لائن کے بعد بھی ریڈ زون میں داخل ہونے کا راست اقدام کسی صورت نہ کریں ورنہ وہ یاد رکھیں کہ اگر اس بار ریڈ زون عبور ہوا تو شاہراہ دستور پر موجود عمارتیں ہی اس کی لپیٹ میں نہیں آئیں گی بلکہ جمہوریت میں بھی وہ شگاف پڑے گا کہ جس کو پر کرنے میں ایک بار پھر برسوں ددرکار ہوں گے۔تاریخ میں ان کا نام نئے پاکستان کی بنیاد رکھنے والے رہنما کے طور میں لیا جائے گا یا وہ چاہیں گے کہ ایسے رہنما کے طور پر یاد رکھے جائیں جو ایک جمہوری پاکستان کو ایک بار پھر آمریت کے حوالے کرنے کا باعث بنا ،فیصلہ ان کے ہاتھ میں ہے۔
تازہ ترین