• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پچھلے آٹھ سالوں میں غزہ پر اسرائیل کا یہ چوتھا حملہ ہے۔ جس کی بے رحمی میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ اس کی شدت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر مسلسل احتجاج اور نشاندہی کے باوجود اسرائیل نے جنگ بندی کے بعدپھر سےبمباری کا آغازکردیا اوربنجامن نیتین یاہوکی حکومت نے پرامن حل کی تمام کوششوں کو دشوار ترین مقام پر پہنچادیا ہے۔اسرائیل کو تمام ڈپلومیٹک ذرائع سے متنبہ کردیا گیا تھا کہ اتنی گنجان آبادی پر اس قدر شدید حملوں کے نتیجے میں نقصان صرف سول آبادی کا ہوگا۔ حملے کی اس شدت سے یہی نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ اسرائیل اندرونی طور پر کس قدر بیمار ہے۔ غزہ کی آبادی پر ہر قسم کی جبری پابندیوں اور آبادی کے گرد دیوار کی تعمیر کے باوجود ہر چند سالوں کے بعد اتنی شدید بمباری اور حملوں کی ضرورت آخر کیوں پیش آتی ہے؟ اس کی دو ہی وجوہات ہوسکتی ہیں یا تو مزاحمت بہت شدید ہے! یا اسرائیل مسلسل ظلم کے ذریعے فلسطینیوں کو اس علاقے سے باہر دھکیلنا چاہتا ہے۔ دوسری صورت زیادہ واضح اور یقینی ہے۔ اسرائیل حماس کو عسکری میدان میں شکست دینا چاہتا ہے۔ مگر اتنی کوششوں کے باوجود حماس ’’انتفادہ‘‘ کے ذریعےاورمضبوط ہوئی ہےاور اسرائیل اخلاقی اور سیاسی سطح پر مزید کمزور۔دو طرفہ جنگ بندی کی ایک بڑی شرط غزہ کی فلسطینی آبادی کیلئے اسرائیل یا مصر کی جانب سے پرامن گزر گاہ۔ جیسے مصر کی رفاح گزر گاہ۔ اس کیلئے بین الاقوامی قوتوں کو مصر کو مجبور کرنا ہوگا۔ مگر حماس کے اخوان المسلمین سے دیرینہ اور برادرانہ تعلقات کی وجہ سے مصر اسرائیل کے ذریعے حماس کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ اور اسرائیل ہر صورت میں حماس کو غیرموثر اور غیرمسلح دیکھنا چاہتا ہے۔ تمام دنیا میں حکومتی سطح پر مسلم ممالک کے سربراہوں کی جانب سے جس چشم پوشی اور بے حسی کا مظاہرہ کیا گیا ہے اس کی ایک ہی وجہ ہوسکتی ہے کہ بعض عرب ممالک بشمول مصر کے حکمران کیلئے جمہوریت سے خائف ہیں لہٰذا وہ ہر اس تحریک کا سر کچلنا چاہتے ہیں۔ جس میں جمہور کی آزادی اور آزادی رائے مقصود ہو۔ چاہے اس کیلئے درپردہ اسرائیل کا ساتھ ہی کیوں نہ دینا پڑے۔نارویجئن اسٹیبلشمنٹ اسرائیل فلسطین مسئلے کو جتنا قریب سے جانتی ہے اس کا اندازہ امریکہ کے علاوہ شاید کسی اور ریاست کو نہ ہو۔ اوسلو مذاکرات، معاہدات امن نوبل انعامات کے اقدام کیلئے عوامی اور حکومتی سطح پر بہت زیادہ تعلقات استوار کئے گئے۔ ان رابطوں کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کے حق میں ایک بڑی لابی متحرک ہوگئی ہے۔ حکومتی پالیسی خواہ کتنی ہی اسرائیل نواز ہو عوام میں فلسطینیوں سے ہمدردی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس مثبت انداز فکر کو روز افزوں بڑھاوادینے میں یوں تو سوشل میڈیا کا بہت بڑا ہاتھ ہے تاہم سابق وزیر اعظم کورے ویلوح۔ قومی ٹیلی وژن) NRK)کی صحافی برائے مڈل ایسٹ سیسل وولڈ اور سرجن ڈاکٹر میڈز گلبرٹ نے جو کردار ادا کیا ہے۔ اس نے نارویجیئن معاشرے کی سوچ کا انداز بدل کر رکھ دیا ہے۔اتفاق سے یہ تینوں اپنے کیریئر کے آغاز میں اسرائیل دوست شمار کئے جاتے تھے کورے ویلوخ نہایت فلسفیانہ اور مدبرانہ انداز میں فلسطین کا دفاع کرتے ہوئے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہونے کے باوجود غزہ کے گھیرائو اور قبضے پر بضد ہونے کے فیصلوں سے انحراف کئے بغیر اس تنازع کا پرامن حل ممکن نہیں۔ فساد کی اصل جڑ رکاوٹوں اور قبضے پر ڈٹے رہنے میں ہے۔کورے کی نظر میں نہایت روشن پہلو یہ ہے کہ اسرائیل اور اس سے باہر ممالک کے یہودی بھی اسرائیل کے دفاعی طریقہ کار کو تنقیدکی نظر سے دیکھ رہے ہیںکہ اس طریقے کے نتیجے میں نفرت اور حقارت بڑھے گی جو اسرائیل کی تباہی کا پیش خیمہ ہوسکتی ہے۔ مستقل امن کیلئے اسرائیل ہی کو پیش قدمی کرنی ہوگی اور بہت جلد۔ TV جرنلسٹ سیسل وولڈ صحیح اور غلط کا فیصلہ کئے بغیر صرف حقیقت کی عکاسی کی ترجمان ہیں۔ ہم غزہ میں اس لئے زیادہ مصروف ہیں کہ تنازع کا تعلق ناانصافی سے ہے اور میری پیشہ وارانہ ذمہ داری ہے کہ میں جنگ کو انسانی جسم پر محسوس ہوتے ہوئے دکھائوں۔ اس حقیقت کی عکاسی نے رائے عامہ کو صحیح فیصلوں میں مدد دی ہے۔ عبرانی اور عربی پر عبور رکھنے کی وجہ سے ان کیلئے حالات کا تجزیہ کرنا آسان ہے۔ مڈل ایسٹ کے بارے میں ان کی کتاب Check Point جنگ۔ جبر، موت اور ناامیدی کی داستان ہے۔ سیسل نے چیک پوائنٹ میں دونوں فریقوں کے نقطہ نگاہ کو اجاگر کیا ہے۔سوشل میڈیا پر ہر ایک مہم کے ذریعے مطالبہ کیا گیا ہے کہ سیسل کو NRK کے رپورٹر کی حیثیت سے فارغ کیا جائے۔سیسل کی نظر میں جینوا کنونشن کے مطابق مغربی علاقوں پر قبضہ اور غزہ کا حصار غیرقانونی ہے۔ڈاکٹر ماڈز گلبرٹ کے جنون کی داستان قدرے مختلف ہے۔ ان کی ہمدردی PLO حماس یا الفتح سے نہیں بلکہ Apartheid کا شکار فلسطینیوں سے ہے۔ لہٰذا 2012-2008 اور 2014 میں جب بھی غزہ پر حملہ ہوا الشفا ہسپتال کو ڈاکٹر گلبرٹ کی خدمات حاصل رہیں۔ 2008کے کرسمس میں جب تمام غیرملکی صحافیوں اور رضاکاروں کیلئے غزہ جانا ممنوع قرار دے دیا گیا تھا۔ گلبرٹ اور ایرک فوس نے الشفاء کے ٹیلی فونک ذرائع سے اسرائیل جارحیت اور بربریت سے تمام دنیا کو آگاہ کیا تھا۔ گلبرٹ کے میڈیکل جنرل Lancet میں تحریر کردہ مضمون ’’غزہ کے الشفاء ہسپتال میں‘‘ کو چشم دید گواہ کی حیثیت حاصل ہے۔ جولائی 2014 میں غزہ سے واپسی پر جب اوسلو میں ان کا والہانہ اور پرجوش استقبال کیا گیا تو انہوں نے بے اختیار کہا کہ اصل ہیرو تو فلسطینی عوام ہیں۔ جنگی حالات کی وجہ سے اسرائیل کیلئے ڈیلٹا، یوایس ایئرلائن، نارویجئن، SAS اور KLM نے اپنی پرواز یا تو بند کردی ہیں یا بہت محدود۔ معاشی طور پر لاطینی امریکہ کے کئی ممالک نے تجارتی معاہدے منسوخ کردیئے ہیں۔ اسرائیل کے خلاف تمام دنیا میں احتجاج کی ایک لہر دوڑ گئی ہے۔ تمام یورپین شہروں میں جلوس نکالے جارہے ہیں جارج گیلوے، مسلم خاتون Ridley Yvene، نورمان فنکلیسٹائن فلسطینیوں کے حق میں ہر محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ اسرائیل اور پوری دنیا کے امن پسند یہودی اس تمام صورتحال سے مطمئن نہیں وہ پریس کانفرنس کے ذریعے اسرائیلی پالیسی سے اپنی لاتعلقی کا اظہار کررہے ہیں۔ ان میں پروفیسر نوریت پیلیڈ اور Break the Silence نامی سابق فوجیوں کی تنظیم سب سے زیادہ متحرک ہے۔ آن لائن میڈیا پر اسرائیل کی Apartheid پالیسی۔ ممنوعہ ہتھیار مثلاً سفید فاسفورس بم اور Dime بم کے استعمال، ناجائز بستیوں کی تعمیر اور غزہ میں محصور گنجان آبادیوں پر بمباری کے خلاف مطالبہ کیا گیا ہے کہ اسرائیل پر جنگی جرائم کا مقدمہ قائم کیا جائے۔ یہ بین الاقوامی سطح پر اسرائیل کے خلاف سب سے مضبوط اور کامیاب آواز ہے۔ نیویارک ٹائمز میں ایک انٹرویو میں فلسطین اسرائیل سیکورٹی کے لیڈر Shlomo Brom نے کہا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل نے جو حکمت عملی اپنائی ہے وہ حکومت کرنے کیلئے ہے نہ کہ مسئلہ حل کرنے کیلئے عمومی مسلمان رہنما اگرچہ خواب خرگوش میں مست ہیں مگر فلسطینیوں کیلئے تمام یورپ، لاطینی اور شمالی امریکہ میں جو تحاریک منظم کی جارہی ہیں اس سے تو یہی خیال کیا جاسکتا ہے کہ
ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
تازہ ترین