• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چند روز پہلے فوج کے ترجمان نے کہا تھا ریڈ زون اور شاہراہِ دستور پر واقع عمارتیں ریاست کے وقار کی علامتیں ہیں۔ ان کی حفاظت فوج کرے گی۔ آئین کے باغی ڈنڈہ بردار ریاستی وقار کی سب سے بڑی علامت پارلیمنٹ ہاؤس کی چاردیواری توڑ کر اندرآگھسے تو یوں لگا کہ مادِر وطن کا سَتر اُتر گیاہے۔ حکمرانوں کی طرزِ حکمرانی سے سو اختلاف ہیں، ذاتی شکائتیں بھی بہت ہیں مگرتم نے تومیرے پاکستان کو بے وقار کردیا۔ تم نے مادِر وطن کو پوری دنیا میں رُسواکردیا۔ ایٹمی قوت ہونے کے ناطے.... مَیں .... ہر ملک میں سراٹھا کر پھرتا تھا، تم نے میرے شاندار ملک کو روانڈا سے بدتر بنادیا!! دل کا سارا دکھ، اضطراب اور کرب، آنکھوں کے ذریعے بہہ نکلا۔ قائدؒ کی روح یقیناً تڑپ رہی ہوگی!! مگر Misguided بلوائیوں کو روکا کیوں نہ گیا؟ ہر باشعورشخص یہی پوچھ رہا ہے کہ ریاست کیوں پسپا ہوگئی؟ وزیر ِداخلہ ملک کے سب سے محترم ادارے اور پاکستان کے قومی نشریاتی ادارے پر حملے روکنے کا بندوبست کیوںنہ کرسکے؟ کہاں تھی پولیس؟ ایٹمی قوت کے بارے میں دنیا بھر میں یہ خوفناک تاثر گیا کہ یہ تو ایک Banana Republicہے جہاں ایٹمی اثاثے محفوظ نہیں ہیں۔ کون ہے اس کا ذمہ دار؟ پولیس کے سینئر افسر (جو مشکل وقت آنے پر میدان میں کھڑے نہ ہوسکے اور سپاہ کو بے یارومددگار چھوڑ کر سفارشوںکے ذریعے چھٹی منظور کراکے دم دبا کر بھاگ گئے) کس کی سفارش سے تعینات کئے گئے تھے؟ ایس ایس پی جونیجو کو اکیلا چھوڑ کر بھاگ جانے والے پولیس والے صحافیوں پر کیوں چڑھ دوڑے؟ کہاں گئے رینجرز؟ اور کہاں تھی ان عمارتوں کی حفاظت کی ذمہ دار فوج؟ کیڈٹ کالج کے ایک دوست ریٹائرڈ جنرل سے پوچھا کہ اگر کہیں فوج کی فائرنگ سے کوئی شخص ہلاک ہوا ہو اور ہلاکت پر احتجاج کرنے والے مظاہرین بریگیڈ کمانڈر کے دفتر پر آکر ہلّہ بول دیں ، اس کی چاردیواری پر چڑھ جائیں یا اسے توڑنے لگیں تو فوج اس ہجوم کو کیسے ڈیل کرے گی؟ ایک لمحے کے توقف کے بغیر جنرل نے کہا، ’’فوجی گارڈ حملہ آوروںکو بھون ڈالیں گے‘‘!! تو کیا پاکستان کے سب سے محترم ادارے کا تقدّس ایک بریگیڈئیرکے دفتر جتنا بھی نہیں ہے؟فوج نے حملہ آوروں کو کیوں نہ روکا؟ انہیں گرفتار کیوں نہ کیا؟
عمران خان صاحب! آپ تو اس ملک میں ایک بڑے لیڈر کے طور پر ابھرے تھے۔نوجوانوں کو آپ نے صحیح سمت دکھانا تھی۔ آپ اپنے ورکروں کو ملک کے وقار کی علامتوں پر چڑھ دوڑنے کی ترغیب دیتے رہے۔ یہ ادارے ن لیگ یا وزیر ِاعظم کے نہیں ہیں یہ تو میرے، آپ کے اور پوری قوم کی عزّت کے سِمبل ہیں۔آپ کو اندازہ نہیں کہ قومی اداروں کی تذلیل سے آپ کا امیج کس قدر خراب ہوا ہے!۔
تبدیلی ضرور آنی چاہیے۔ نظام میں بھی اور عوام میں بھی...عوام کی زندگی میں بھی، مگر اس طریقے سے جو مہذب قومیں اختیارکرتی ہیں۔ بارہویں یاتیرہویں صدی والے طریقوں سے نہیں...ایسے طریقے سے نہیں جس سے ریاست کی بنیادیں ہِل جائیں،ایسے طرزِ عمل سے نہیں جس سے دنیا میں ہماری جگ ہنسائی ہو۔
٭آئین میں کچھ تبدیلیاں فوری اور ناگزیر ہیں!! پارلیمنٹ کی پانچ سالہ مدّت بہت طویل ہے ۔بے تاب اپوزیشن اور بیقرار عوام کیلئے اتنا طویل عرصہ انتظارکرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ آسٹریلیا میں پارلیمنٹ کی مدّت تین سال ہے، امریکہ اور برطانیہ میں چار سال ہے۔ ہمارے ہاں بھی پارلیمنٹ کی مدّت چارسال ہونی چاہیے۔ اس کیلئے فوری طور پر آئینی ترمیم ہونی چاہیے۔
٭بلدیاتی نظام جمہوریت کیلئے بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔ کسی بھی جمہوری ملک میں بلدیاتی اداروں کے بغیر جمہوریت کا کوئی تصّور نہیں ہے۔ ویسے بھی یہ حکومتوں کی آئینی ذمہ داری ہے کہ لوکل باڈیز کے انتخابات کراکے مقامی حکومتیں قائم کریں ۔ اختیارات اپنے سے جداکرنا صوبائی حکومتوں کیلئے مشکل ہوتا ہے مگرآئینی تقاضا پورا کرنے کی غرض سے فوری طور پر لوکل باڈیز کے انتخابات کا اعلان ہونا چاہیے۔
٭صوبائی خودمختاری کی اہمیت بجا مگر اٹھارویں ترمیم نے فیڈریشن اور صوبوں کے درمیان اختیارات کا توازن بری طرح بگاڑدیا ہے۔ اسی متنازعہ ترمیم کے تحت ایک مضحکہ خیز قانون یہ بنایا گیا کہ قومی اسمبلی میں قائد ِ ایوان اور قائد ِحزبِ اختلاف مل کر نیب کے چیئرمین کا انتخاب کریں گے۔ صورتِ حال یہ ہے کہ کرپشن کیسوں کے سب سے بڑے تفتیشی ادارے ایف آئی اے کے دانت نکال دئیے گئے ہیںاور اسے وزارتِ داخلہ کی باندی بنادیا گیا ہے۔ ایف آئی اے وزارتِ داخلہ کی اجازت کے بغیر کسی بددیانت اور لٹیرے کے خلاف تفتیش کرسکتی ہے نہ اسے گرفتار کرسکتی ہے۔ کرپشن کی روک تھام کیلئے اپنے وسیع اختیارات کے باعث نیب بڑا موثر کردار ادا کر سکتا ہے لیکن وہ نیب جو آزاد ہو.....اگر حکومت اور اپوزیشن مل کر چیئرمین کا تقرر کریں گی یعنی چیئرمین دونوں کا پسندیدہ ہوگا تو وہ دونوں بڑی پارٹیوں کے کرپشن میں ملوث ارکان کے خلاف کیسے کارروائی کرسکے گا؟چیئرمین نیب کی تقرری کے موجودہ طریقہ کار سے نیب کے بھی دانت نکال دئیے گئے ہیں۔ اس طرح مقررکردہ چیئرمین حکومت اور اپوزیشن کو ناراض کرنے کی کبھی جرأت نہیں کرے گا وہ صرف دکھاوے کیلئے چھوٹے موٹے سرکاری افسروں کے خلاف کارروائی کرتا رہے گا مگر سیاستدان احتساب سے مستثنیٰ ہو جائیںگے۔عملی طور پر احتساب کے ادارے غیر موثرہوچکے ہیں اس لئے آئین میں بھی فوری تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ایف آئی اے کو انڈیا کی CBI کی طرح آزاد اور غیر جانبدار ادارہ بنایا جائے اور نیب کا چیئرمین سرچ کمیٹی کے ذریعے مقرر کیا جائے۔
٭جمہوریت کسی ملک میں بھی احتساب کے موثّر نظام کے بغیر نہیں چل سکتی۔ محاسبے کی چھلنی کمزور اور سکروٹنی کا نظام غیر موثّر ہوگا تو زندانوں میں جانے والے ایوانوں میں پہنچ جائیں گے۔ پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ محاسبے کے ایسے مضبوط بیریئر نصب ہوں جنہیں دولت اور اقتدار کی کرینوں سے ہٹایا نہ جاسکے اور سیاست کو دھن دولت بڑھانے اور جرائم کے تحفظ کیلئے استعمال کرنے والے جنہیں عبور کرکے اسمبلیوں تک نہ پہنچ سکیں۔ دھاندلی روکنے سے زیادہ اہم یہ ہے کہ لٹیروں اور بدمعاشوں کو پارلیمنٹ میں جانے سے روکا جائے۔ اس مسئلے کا بنیادی حل یہ ہے کہ پورے ملک سے اعلیٰ کردار کے حامل سات سے دس افراد پر مشتمل سرچ کمیٹی (Search Committee)تشکیل دی جائے جن میں دوباکردار ریٹائرڈ جج، دونیک نام صحافی، بہت اچھی شہرت کے دو ریٹائرڈ جنرل اور دوایسے سول سرونٹ ہوں جنہوں نے دورانِ ملازمت حکمرانوں کے غیرقانونی احکامات ماننے سے انکار کیا ہو۔ احتساب بیورو اور الیکشن کمیشن کے سربراہوں کا انتخاب سرچ کمیٹی کرے۔ اس کمیٹی کو اس طرح آئینی تحفظ حاصل ہو کہ کسی پارٹی کی بھی حکومت ہو،یہ کمیٹی قائم ودائم رہے اور بلا روک ٹوک اپنا کام جاری رکھ سکے۔ انتخابات منعقد کرانا، دھاندلی کی اقسام سے باخبر ہونا اور انہیں روکنا عدالتی نوعیت کا کام (judicial function)نہیں ہے یہ انتظامی کام ہے۔ جج صاحبان کا مزاج، کام اورتجربہ ایسا نہیں ہوتا کہ وہ ایسی ذمّہ داری کو مؤثر طریقے سے نبھا سکیں۔ اس لئے چیف الیکشن کمشنر کیلئے ریٹائرڈ جج کی شرط ختم ہونی چاہیے۔ منصفانہ انتخاب کرانے کیلئے سول سروسز میں سے نیک نام اور بلا رورعایت قانون نافذ کرنے کی شہرت رکھنے والے سخت گیر افسروں کی ضرورت ہے۔ موجودہ آئین تمام پارٹیوں کا متفقہ آئین ہے اس کی متعلقہ دفعات پوری سختی کے ساتھ لاگو کرنے والا غیر جانبداراور جرأ تمند الیکشن کمشنر بدکردار افراد کو قانون ساز اداروں میں داخل ہونے سے روک سکتاہے۔
ہمارا سیاسی نظام بڑی بنیادی اصلاحات کا متقاضی ہے کیونکہ اس میں کچھ ایسے مذاق بھی روارکھے گئے ہیں جو کسی خودمختار ملک میں قابلِ قبول نہیں ہوسکتے ۔ کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ کسی دوسرے ملک کا شہری ترکی، ایران، ملائیشیا یا کسی بھی خودمختار ملک میں وہاں کی کسی سیاسی پارٹی کا سربراہ بن سکے؟ ہرگز نہیں! پاکستان میں سیاست اور قیادت کا حق صرف اسے ملنا چاہیے جس کے تمام تر سیاسی اور معاشی مفادات اپنی دھرتی سے وابستہ ہوں۔ ایسا کوئی بھی شخص پاکستان میں کسی public officeکیلئے نااہل قرارپائے:
٭جس کے پاس ڈبل شہریت یا ڈبل پاسپورٹ ہو۔
٭جس نے کسی قومی بینک سے اپنے یا بیوی بچوں کے نام پر قرضہ لے کر واپس نہ کیا ہو یا معاف کروایاہو۔
٭جس نے کسی پراجیکٹ میں کمیشن لیا ہو۔
٭برادری ازم اور پیسے کا زور توڑنے کیلئے ضروری ہے کہ پارلیمنٹ کی آدھی نشستیں متناسب نمائندگی کے ذریعے پُر کی جائیں تاکہ کم وسائل رکھنے والے اہل افراد بھی اسمبلیوں میں پہنچ سکیں۔
٭اس ملک میں جب بھی کوئی حقیقی تبدیلی اور انقلاب لائے گا تو سب سے پہلے صدیوں پرانے گلے سڑے کریمنل جسٹس سسٹم کو تبدیل کرے گا۔ کرپشن، نااہلی، بدنیتی اور تاخیر کی جونکوں نے اس سسٹم کا خون چوس لیا ہے اور اب یہ ڈلیورکرنے کے قابل نہیں رہا۔ ہرروز تھانوں اور کچہریوں کے باہر انصاف کی تلاش میں خوار ہوتے ہوئے لاکھوں افراد اس سسٹم کی ناکامی کی شہادت دے رہے ہوتے ہیں۔ جس سسٹم کو متمول اور بااثر اپنے حق میں موڑ سکتے ہیں اور جو کسی ڈاکو اور اغواکا رکو کئی دھائیوں سے کوئی سزا نہیں دے سکا اس سسٹم سے ہم کیوں چمٹے ہوئے ہیں؟ کیا کسی پارٹی نے اس طرف غورکیا؟ کیا کسی پارٹی کے تھنک ٹینک نے اس کا متبادل سسٹم تجویز کیا ہے؟ـ
’’سول نافرمانی کرو، بل جمع نہ کراؤ، بینکوں سے پیسے نکلوالو، باہر رہنے والے پاکستانیو! پیسے مت بھیجو‘‘ جیسے اعلانات سن کر دل ڈوبا ہوا تھا اور ملک کے بارے میں سوچ کر غمگینی اور افسردگی کا شکار تھا کہ ایک دوست (جو سینئر بینکرہے) ملنے آگیا میں نے پوچھا کہ دھرنوں سے ملکی معیشت پر کیسے اثرات ہوں گے؟ کہنے لگا ’’ملک کی معیشت کو irreparable loss (ناقابلِ تلافی نقصان) پہنچ چکا ہے‘‘۔ پھر اس نے اپنے گاؤں کی ایک کہانی سنائی۔
اکبر اور اصغر دوبھائی تھے اور بڑے لڑاکے۔ والد کی وفات کے بعد جائیداد کے تنازے پر اکثر لڑتے رہتے تھے اور بوڑھی ماں بیچاری دونوں کو سمجھاتی رہتی تھی ۔ ایک دن دونوں بھائی گتھم گتھا ہوگئے ایک کے ہاتھ میں چھری تھی اور دوسرے کے ہاتھ میں درانتی....ماں نے چھڑانے کی کوشش کی دونوں نے ایک دوسرے پر وار کئے جو ماں کے جسم پر لگے۔ ایک کا ماں کے سرپر دوسرے کا گردن پر لگا۔ماں کے سر اور گردن سے خون بہنے لگا۔ ماں کا خون دیکھ کر دونوں اتھرے نوجوانوں کے خون کی گردش رک گئی اور اگلے ہی لمحے دونوں نے ہتھیار پھینک کرماں کے پاؤں پکڑ لئے۔پھر اُس کے بعد گاؤں والوں نے انہیں کبھی لڑتے نہیں دیکھا۔
ہمارے سیاستکار مادرِ وطن کو اور کس قدر لہولہان کرکے ہتھیار پھینکیں گے؟
تازہ ترین