• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میر گل خان نصیر بلوچستان کی ایک نابغہ روزگار شخصیت تھے، دنیا انہیں ایک وسیع النظر سیاستدان ،محقق، مورخ اور ہفت زبان ادیب شاعرومصنف کے طورپر جانتی ہے لیکن افسوس کہ بہت سی دوسری عالی دماغ،عبقری اور جینیس بلوچ وپشتون شخصیات کی طرح انہیں بھی پاکستان کے قومی افق پروہ بلند مقام نہیں ملا جس کے وہ بدرجہ اتم مستحق تھے، اور ان کی شہرت زیادہ تربلوچستان تک محدود ہوکررہ گئی۔بلوچستان کے حقوق واختیارات کے حصول کی جدوجہد میں انہوں نے کئی بار قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ ابتدامیں مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے بھی سیاست کی لیکن بلوچستان کونظر انداز کرنے پر انہوں نے اس سے قطع تعلق کرلیا اورپاکستان نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) میں شامل ہوگئے۔’ون یونٹ توڑ کر بلوچستان کوالگ صوبہ کادرجہ دلانےکی تحریک میںپیش پیش رہے۔ اس ’’جرم ‘‘میں بھی انہوں نے جیل کاٹی۔ 1970کے انتخابات میںان کی پارٹی نے بلوچستان سے قومی اسمبلی کی چارمیں سے تین اورصوبائ اسمبلی کی 20میں سے 9نشستوں کے علاوہ خواتین کےلئے مخصوص واحد نشست بھی جیت لی۔
1972میںسردارعطااللہ مینگل کی قیادت میں نیپ اورجمعیت علماء اسلام کی مخلوط حکومت قائم ہوئی تووہ اس میںوزیرتعلیم مقرر ہوئے۔مرکز میں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی جس نےبعض امور پر اختلافات کی وجہ سے صوبائی حکومت برطرف کرکے گورنر راج قائم کردیا۔ بعدمیں نیپ کوخلاف قانون قرار دے کراس کے تمام سرکردہ لیڈروں کوبغاوت کے الزام میں گرفتار کرکے حیدرآباد جیل میں ڈال دیاگیا۔ میرگل خان نصیر بھی ان میں شامل تھے۔ دوسال تک مقدمہ چلتارہا۔اس دوران جنرل ضیاءالحق نے بھٹو حکومت کاتختہ الٹ کرملک میں مارشل لا لگایا تو نیپ کے اسیروں کےخلاف مقدمہ واپس لے لیا،اس طرح گل خان نصیر سمیت تمام رہنماؤں کورہائی ملی۔سیاست سے تو ان کاتعلق اس کے بعد بھی برقراررہا مگران کی زیادہ ترتوجہ تصنیف وتالیف پرمرکوز رہی،بلوچستان پرانہوں نے کئی کتابیں لکھیں۔سابق ایم این اے میرامان اللہ گچکی کے مطابق جورشتے میں ان کے بھانجے اورخود بھی ممتاز سیاستدان ہیں،میرگل خان نصیر اردر اور فارسی کے قادرالکلام شاعرتھے۔بلوچی شاعری میں تو انہیں ملک الشعرا کادرجہ دیاجاسکتاہے،بلوچ سیاست میںتشدد اورانتہا پسندی کاعنصر ختم کرنے میں انہوں نے قائدانہ کردار ادا کیا۔ اس پرانہیں انتہا پسند حلقوں کی مخالفت کابھی سامنا کرنا پڑا۔ وہ نوشکی کے رہنے والے تھے۔1980کی دہائی میں انکاانتقال ہوا۔
مزاحمت وعلیحدگی کی موجودہ تحریک کے پس منظر میں ملک کے دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے اکثر قارئین ٹیلی فون،خطوط یابرقی مراسلات کے ذریعے یہ پوچھتے رہتے ہیں کہ بلوچستان کااصل مسئلہ کیاہے؟ان کاخیال ہے کہ میں نے اپنے کالموں میں عام تصور سے ہٹ کرایک مختلف بلوچستان کی تصویر کشی کی ہے۔جس بلوچستان کاقلمی چہرہ میں دکھارہاہوں وہ باغی ہےنہ علیحدگی پسند۔ درحقیقت یہ ناراض بلوچستان ہے جواپنے سیاسی و معاشی حقوق واختیارات کی جنگ لڑرہاہے۔سطور بالا میں میرگل خان نصیرکا مختصر تعارف کرانے سے بھی میرامقصد اسی نکتے کواجاگر کرناہے۔گل خان جیساترقی پسند مفکر اپنی کتاب ’’بلوچستان قدیم اورجدید تاریخ کی روشنی میں‘‘ کے صفحہ 357پررقم طراز ہے’’بلوچستان میں جوبے چینی اور کبھی کبھی اشتعال اورسرکشی کامظاہرہ ہوتارہا ہے اس کی بنیادی وجہ بلوچستان کی آزادی کی خواہش یاعلیحدگی پسندی نہیں رہی بلکہ بلوچستانیوں کے جائز سیاسی اورشہری حقوق کی پامالی انتظامیہ کے غیر دانشمندانہ اقدام اورمرکزی اقتدار پر قابض حکمرانوں کی بلوچستان کے تاریخی‘ جغرافیائی اور قبائلی کوائف سےناواقفیت اورسیاسی بے بصیرتی رہی ہے۔ بلوچستان کاپاکستان سے جداگانہ اورکوئی مسئلہ اب تک متنازع نہیںرہاہے۔
ورنہ بلوچستان کے خان ‘نواب‘قبائلی سردار اور معتبرین جنہوں نے تن من دھن سے آل انڈیا مسلم لیگ کاساتھ دیا اورپھرپاکستان کےحق میں ووٹ دے کراسے عالم وجود میں لانے میں بھرپور تعاون کیا۔ ایسا کبھی نہ کرتے،اوراگر ایک مختصر عرصے کے بعد‘جیساکہ خان قلات‘ ریاستی کونسل حکمرانان اورقبائلی فیڈریشن کی بیان کردہ قراردادوں سے ظاہر ہوتاہے۔انہوں نے مسلم لیگ کی مخالفت کی تواس کی بنیادی وجہ بھی علیحدگی پسندی نہیں تھی بلکہ اپنے حقوق کی پامالی کےخلاف احتجاج تھا۔ اس طرح جہاں تک بلوچستان کی قوم پرور اورترقی پسند جماعتوں کاتعلق ہے ان میں سے بھی کسی نے کسی وقت آزاد بلوچستان کانعرہ نہیں لگایاگوکہ وہ تقسیم ہند کے خلاف تھے اس لئے ان کوکانگریس اورہندوؤں کے ایجنٹ کے توہین آمیز خطاب سے نوازاجاتارہا۔لیکن اس وقت بھی ان کامطالبہ لسانی، نسلی، جغرافیائی اورتاریخی تقاضوںکے مطابق بلوچستان کے صوبے کاقیام اوراسے دوسرے صوبوں کے مساوی صوبہ جاتی حقوق دینے کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ جب پاکستان عالم وجود میں آیا توان جماعتوں نے اسے ایک مسلمہ حقیقت کے طورپرتسلیم کرلیا۔خان عبدالغفار خان نے جوان قوم پرور جماعتوںکے تسلیم شدہ رہنما تھے۔پاکستان کی مرکزی اسمبلی میں جس کے قیام پاکستان کے وقت وہ ممبر تھے۔
پاکستان سے وفاداری کاحلف اٹھایا لیکن اس کے باوجود ان سے پاکستان کے ایک وفادار شہری جیسا سلوک نہیں کیاگیا اورپشتونستان کے مطالبے کوجوبلوچستان کی طرح پاکستان کے اندر پشتونوں کے نام سے ایک صوبے کے مطالبہ کے سوااورکچھ نہیں تھا۔ غلط اورمن گھڑت انداز میںان کے خلاف استعمال کیا گیا‘‘۔ آگے چل کرگل نصیرلکھتے ہیں ’’یہ ہے بلوچستان کے مسئلے کی حقیقت جسے ہوا بنا کر دنیا کے سامنے پیش کیاجاتا رہا۔ بلوچستانیوں کے ساتھ جوناانصافیاں ہوئیں ان پرکسی نے غور نہیں کیااور یہ معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی گئی کہ بلوچستان کے لوگ جواس قدر مشتعل اوربرافردختہ ہیں اس کی اصل وجہ کیاہے اوروہ چاہتے کیا ہیں؟
الغرض ان حالات وواقعات کی روشنی میںبنظرغائر دیکھاجائے تو صاف ظاہر ہوگا کہ بلوچستان کے صوبے کامسئلہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جسے حل نہ کیا جاسکے۔ بلوچستان کے باشندے اپنے صوبہ جاتی حقوق کےلئے اور غیرآئینی طریقہ ہائے کار کےخلاف کبھی پرامن اورکبھی مسلح جدوجہد کرتے چلے آرہے ہیں اوراس وقت تک آئینی اورپرامن جدوجہد کرتے رہیں گے جب تک مملکت پاکستان کے اندران کوآزاد شہری کی حیثیت سے ان تمام صوبائی حقوق سے بہرہ مند نہیں کیاجائے گا۔جو مملکت کے دوسرے صوبوں کوحاصل ہیں۔اس کے علاوہ بلوچستان کااورکوئی مسئلہ نہیںہے‘‘ آج اگر کچھ لوگ ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں تواسکی اصل وجہ میرگل خان جیسے بلوچ دانشوروں کی باتوں پرتوجہ نہ دیناہے۔
تازہ ترین