• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لاہور ہائی کورٹ کے جناب جسٹس عبدالعزیز شیخ اور جسٹس شاہد کریم نے تاریخی ورثہ قرار دئیے جانے والے گیارہ مقامات پر دوسو گز اندر اورنج ٹرین منصوبے پر پنجاب حکومت کو تعمیراتی کام کرنے سے روک دیا ہے۔ اس پر قوم فاضل جج صاحبان کی تہہ دل سے مشکور ہے۔ محکمہ آثار ِ قدیمہ سے حاصل کردہ این او سی کو بے معنی قرار دیتے ہوئے عدالت نے عالمی معیار کے ماہرین سے تازہ سرٹیفکیٹس حاصل کرنے کی ہدایت کی ہے۔اس مسئلے پر احتجاج کرنے والی ’’لاہور بچائو تحریک‘‘اور پٹیشن دائر کرنے والے آرکیٹیکٹ، کامل خاں ممتاز اور، بلاشبہ پیش ہونے والے وکلا، تحسین کے لائق ہیں۔ پنجاب حکومت بلاشبہ آگ بگولہ ہوگی۔ وزیر ِاعلیٰ پنجاب معاملے کو سپریم کورٹ میں لے جانے کا عزم کررہے ہیں۔ فی الحال تو من مانی کرنے اور تکبر کے گھوڑوں پر سوار، تمام فیصلے خود سے کرنے والوں کو خاصی زک پہنچ چکی، آگے دیکھیں گے کہ سپریم کور ٹ اس پر کیا کہتی ہے۔
پبلک ٹرانسپورٹ کے خلاف کون ہے ؟اس شعبے کو طویل عرصے سے نظر انداز کیا گیا۔ اب ضروری ہے کہ تمام حکومتیں اس پر توجہ دیں۔لیکن اسے کرنے کا کوئی طریقہ ہونا چاہئے۔ چوہدری پرویز الہٰی نے بطور وزیر ِاعلیٰ پنجاب لاہور کے لئے ایک انڈرگرائونڈ ریلوے سسٹم کی تجویز پیش کی تھی۔ یہ منصوبہ شہباز شریف کے اورنج ٹرین منصوبے سے کہیں بہتر تھا، اُس کی وجہ سے لاہور کا ثقافتی ورثہ تباہ نہیں ہونا تھا۔ آپ کسی بھی ماہرسے پوچھ لیں، انڈرگرائونڈ کو ہی بہترین منصوبہ قرار دے گا۔ سرسے بلند مواصلات، جیسا کہ جنگلا بس سروس اور اب اورنج ٹرین آنکھوں کو دکھتی ہیں۔ چونکہ انڈر گرائونڈ منصوبہ چوہدری پرویز الہٰی صاحب کا تھا، اس لئے شہباز شریف صاحب اسے کس طرح قبول کرلیتے۔ یہ ہے ہمارے رہنمائوں کا ظرف۔ انا کے گھوڑوں پر سوار، تدبر سے عاری، گردنیں اکڑی ہوئیں۔
مجھ جیسے افراد پرویز الہٰی کو جنرل مشرف کے ساتھ دیکھ کر ناپسند کرتے تھے۔ ہم نے مشرف اور فوجی حکمرانی کی ہر چیز پر کڑی تنقید کی۔ ہم نے جمہوریت سے وابستہ ہر سوچ کے لئے دامن دل وا رکھا، اسے سراہا۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے افراد اُس وقت جسٹس افتخار چوہدری کے حامی بن کر سڑکوں پر کھڑے ہوگئے تھے۔ خیال تھا کہ وکلا کی تحریک ملک میں آئین اور قانون کی حکمرانی کاسندیسہ بن کر قوم کی نجات کا پروانہ بن جائے گی۔انہی التباسات نے ہمیں سہار ا دئیے رکھا۔ اور پھر ہر نسل کے لئے اس کی امیدیں اور خواب چراغ بکف اور حوصلہ پرور ہوتے ہیں۔ جب وقت ایک قدم آگے بڑھ جاتا ہے تو صورت ِحال مختلف دکھائی دیتی ہے۔ اُس وقت چوہدری پرویز الہٰی واقعی بہت برے دکھائی دئیے تھے جب اُنھوں نے کہا تھا کہ وہ مشرف کو وردی میں دس مرتبہ صدر منتخب کرائیں گے، لیکن جب ہم اُن کا موازنہ پنجاب کی موجودہ سیاسی قیادت سے کرتے ہیں تو وہ بہت بہتر اور موثر منتظم دکھائی دیتے ہیں۔ وہ ’’ون مین شو‘‘ نہیں تھے، وہ مشورہ کرلیتے،بات سنتے اور معاملات کو ایک نظام کے تحت چلارہے تھے۔ لیکن جب مشرف کو زوال آیا تو اُن کے ساتھ ہی ق لیگ اور چوہدری پرویز الہی بھی دھندلا گئے۔
یہ حقیقت اپنی جگہ پر موجود کہ انڈرگرائونڈ ٹرین لاہور کی دلکشی میں اضافہ کردیتی۔ پیرس اور ماسکو کی طرح یہ لاہور کے شہریوں کا قابل ِ فخر اثاثہ ہوتی۔ یہ نہ صرف اورنج ٹرین سے زیادہ کوریج رکھتی بلکہ اس کی وجہ سے شالا مارگارڈن اور چوبرجی جیسی یادگاروںکو بھی کوئی خطرہ لاحق نہ ہوتا۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے جمہوری حکمران آمروں سے بھی بدترین ثابت ہوسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر مشرف ایک اچھے سامع تھے، موجودہ حکومت کسی کی نہیں سنتی۔ انہیں کابینہ پر یقین نہیں، اور نہ ہی وہ اس طرح کی حکومت کو عملی طور پر تسلیم کرتے ہیں۔سپریم کورٹ کے جسٹس ثاقب نثار صاحب کا فیصلہ اس کی بہترین تشریح کرتا ہے۔ اگر مرکز میں معاملات مثالی نہیں ہیں تو پنجاب میں حالات مزید ابتر ہیں۔ یہاں شاید ہی کبھی کابینہ کا اجلاس ہو ا ہو۔ وزراکی کوئی نہیں سنتا، حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے ارکان ِ اسمبلی کی کوئی حیثیت نہیں، پنجاب کی بیوروکریسی، بہتر سیاست دانوں کی طرح اپنے باسز کا موڈ پہچانتے ہوئے ان کے ہر خبط، چاہے وہ کتنا ہی احمقانہ کیوں نہ ہو، کی تعمیل یقینی بناتی ہے، بس اسی طرح تمام صوبہ چل رہا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ کی مداخلت سے پہلے اورنج ٹرین نے شالا مار گارڈن، چوبرجی اور دیگر تاریخی مقامات کے قریب سے گزرنا تھا۔ اس وقت پنجاب حکومت کے افسران اورنج ٹرین منصوبے کا دفاع کرتے ہوئے اسے مغل فتح کے بعد سے لاہور کی تعمیر و ترقی کا سب یادگار منصوبہ قرار دے رہے تھے۔ فرض کریں اگر ٹرین کا روٹ باغات میں سے بھی گزار دیا جائے تو بھی وزیر ِ اعلیٰ پنجاب کے ستائش گر یہ افسران اس کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیں گے۔ جب ذو الفقار علی بھٹو 1972 میں،جنگ کے بعد، مسز اندرا گاندھی سے مذاکرات کرنے شملہ جا رہے تھے تو اپنی جماعت کا موقف جاننے کے لئے اُنھوں نےپی پی پی سے تعلق رکھنے والے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے تمام اراکین کی لاہور میں ایک میٹنگ رکھی۔ جب یکے بعد دیگرے ارکان اپنا اپنا موقف پیش کررہے تھے تو میرے والد صاحب، جو اُس وقت ایم این اے تھے، نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا کہ اگر مسز گاندھی ٹینک پر بیٹھ کر لاہور آئیں تو یہ افراد، جن سے بھٹو صاحب مشاورت کررہے ہیں، قطار میں کھڑے ہوکر اُن کا استقبال کریں گے اور ان کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالیں گے۔ چنانچہ بہتر ہے کہ ان کی بات سننے میں وقت ضائع نہ کیا جائے۔ میرے والد صاحب نے بات سب کے سامنے دوٹوک انداز میں کہی تھی(پی پی پی کے سابق رہنما رانا شوکت محمود، جو خدا کے فضل سے حیات ہیں اور لاہور میں رہتے ہیں، اس بات کے گواہ ہیں)
میں نے اس بات کا ذکر صرف اس لئے کیا ہے کہ پانچ دریائوں کی اس سرزمین کی نفسیات یہی ہے۔اس نے شمال سے آنے والے ہر حملہ آور کا خیر مقدم کیا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے پنجاب پر حکومت کی تو بھی مسلم اکثریت نے اُن کے خلاف سر نہ اٹھایا۔ ہم سکھ دور کو ’’سکھا شاہی ‘‘ کہتے ہیں لیکن شایدہمیں یہ بات یاد نہ ہو کہ پنجاب کے مسلمانوں کو سکھا شاہی سے نجات برطانوی راج نے دلائی تھی۔ ہمارے آبائو اجداد سکھ حکومت کو تسلیم کرسکتے تھے، جلیانوالہ باغ کی یاد بعد کی نسل کے لئے اذیت ناک نہیں تھی،بعد کی نسل کے کچھ پنجابی جج بھٹو صاحب کو ایک احمقانہ مقدمے میں پھانسی کی سزا سنا سکتے تھے تومحض شالا مار یا چوبرجی کا صفایا بھی ہمارے ’’برداشت آمیز ضمیر ‘‘پر کوئی بوجھ نہ بنتا۔
شہباز شریف صاحب کا اورنج ٹرین منصوبہ شالامار گارڈن کی بنیادوں اور شاہی حمام کے لئے خطرہ بن رہا ہے۔ فرض کریں اگر کوئی اس باغ کو رہائشی کالونی میں بدل کر زمین فروخت کرنے کا اشتہار دے تو پلاٹ خریدنے والوں کی لائن لگ جائے۔ یہ ثقافتی ورثے اور قدیم یادگاروں کا تحفظ رومن، یونانیوں یا دیگر مہذب قوموں کا شعار ہے، ہمیں ان سے کیا سروکار؟ کلچر اور ثقافت کا کون ساکوئی سیاسی فائدہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ دائیں بازو کی مذہبی جماعتیں بھی ایسی چیزوں کو پسند نہیں کرتیں۔ وہ کلچر میں شامل رقص و موسیقی کو ویسے بھی گناہ قرار دیتی ہیں۔ اگر ایک بلڈوزر چوبر جی کو مسمار کرتے ہوئے گزر جائے تو اُن کے کان پر جوں تک نہیں رینگے گی۔ یہ لاہور بچائو تحریک کے کارکنوں اور احتجاج کرنے والے دیگر افراد کی خوش قسمتی ہی ہے کہ ابھی تک اُنہیں ’’را کا ایجنٹ‘‘ قرار نہیں دیا گیا۔ چنانچہ اس کھوکھلے معاشرے میں ہونے والی کچھ اچھی چیزوں پر شکرادا کرنا بنتا ہے۔ جسٹس شیخ اور جسٹس کریم نے شاندار فیصلہ کیا ہے، لیکن افسوس یہ حرف ِ آخر نہیں۔ اپنی زخمی انا کے ساتھ اب پنجاب حکومت آگے تک جائے گی۔ تاہم ان جج صاحب نے تاریکی میں ایک شمع تو روشن کردی ہے۔ اور یہ کوئی معمولی پیش رفت نہیں۔

.
تازہ ترین