• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کشمیر میں ہندوستانی فوج کا ظلم و ستم جاری ہے۔ کشمیریوں کی قوم پرستی کی تحریک کئی مراحل سے گزری ہے اور اب ایسے مقام پر پہنچ چکی ہے کہ کشمیری آزادی سے کم کسی شرط پر خاموش ہونے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ پاکستان اس تحریک کی حمایت کرتا ہے اور اس کی سفارتی اور اخلاقی مدد کرتا ہے۔ لیکن پاکستان میں مسئلہ کشمیر کا بیانیہ کافی حد تک خود کلامی اور خود فریبی ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بیانیہ اس کی سفارتی تنہائی پر پردہ پوشی کا کام دیتا ہے۔ بھارت کا تاثر ہے کہ ملک کے الجھے ہوئے اندرونی مسائل سے بھی توجہ ہٹانے کے لئے مسئلہ کشمیر پر شور برپا کیا جاتا ہے۔
پندرہ اگست کو ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی نے انتہائی اشتعال انگیز بیان دیتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو پاکستان میں بلوچ مسئلے کے ساتھ ملانے کی کوشش کی۔ انہوں نے آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور بلوچستان کو مقبوضہ کشمیر کے مساوی قرار دینے کی مضحکہ خیز کوشش کی۔ پاکستان کے میڈیا میں نریندر مودی کی اس کوشش کو ناکام قرار دیاگیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا نریندر مودی کی چال ناکام ہو گئی؟ بظاہر تو ایسا نہیں لگتا کیونکہ پاکستان سے باہر مودی کے بیان کی نہ تردید ہوئی اور نہ ہی مذمت۔ بلکہ افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے بلوچستان کے سلسلے میں ہندوستان کے وزیر اعظم کے موقف کی تائید کی۔ امریکہ، یورپ حتی کہ چین جیسے ملک نے بھی نریندر مودی کے بیان پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا۔ اگر خاموشی کو نیم رضا مندی گردانا جائے تو مودی اپنے مقصد میں کسی حد تک کامیاب نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ دنیا نے کشمیر کی طرح نریندر مودی کے بیان کو بھی نظرانداز کردیا۔ لیکن پاکستان میں میڈیا میں یہ تاثر دیا گیا جیسے ہر طرف سے نریندر مودی کی مذمت کی گئی ہو۔پاکستانی میڈیا خود کلامی اور خود فریبی کے مرض میں بہت دیر سے مبتلا ہے۔
پاکستان میں مخصوص حلقے مخصوص مقاصد کے لئے بیانیہ ترتیب دیتے ہیں اور پھر میڈیا اسے ناقابل تردید حقیقت کے طور پر پیش کرتا ہے۔ ابھی کل تک پاکستان کے مخصوص حلقے طالبان کے ذریعے افغانستان میں اسٹرٹیجک گہرائی کے متلاشی تھے۔ جب تحریک طالبان پاکستان اور دوسرے شدت پسندگروپوں نے پورے پاکستان میں شورش برپا کی اور ہزاروں لوگ مارے گئے تو تب بھی یہی بیانیہ تھا کہ یہ قاتل ہمارے راستے سے بھٹکے ہوئے بھائی ہیں ان کو بہلا پھسلا کر دوبارہ مرکزی دھارے کا حصہ بنایا جائے۔ جب ان قاتلوں کے لیڈر فضائی حملوں میں مارے جاتے تھے تو پاکستان کے وزیر داخلہ آنسو بہاتے تھے۔ تب ساری دنیا کو علم تھا کہ پاکستان تباہی کے راستے پر گامزن ہے لیکن پاکستان کے اندر اس سچائی کو ماننے والے بہت کم تھے۔
اسی طرح اس سے پہلے جب بھی دنیا میں کوئی دہشت پسند پکڑاجاتا تھا تو اس کا کہیں نہ کہیں پاکستان سے تعلق ظاہر کیاجاتا تھا۔ لیکن پاکستان کے اندر بیانیہ تھا کہ یہ ملک کو بدنام کرنے کی یہود و ہنود کی سازش ہے۔ پھر جب اسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں مارا گیا تو پاکستان کے اندر امریکہ مخالف بیانیہ زور شور سے پیش کیا گیا۔ اسے جائز طور پر پاکستان کی سالمیت کے خلاف حملہ قرار دیا گیا۔ لیکن دنیا نے پاکستان کے موقف کی تائید نہیں کی: دنیا کی نظر میں اسامہ بن لادن دہشت گرد تھا جسے پاکستان نے پناہ دی ہوئی تھی۔ حال ہی میں جب طالبان کا امیر ملا منصور مارا گیا تو ہم نے پھر یہی واویلا کیا۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ پاکستان کی جغرافیائی سلامتی کی خلاف ورزی کی کسی ملک نے مذمت نہیں کی۔ چلئے مغربی ممالک تو امریکہ کے حاشیہ نشین ہیں، چین اور عرب ملکوںکو کیا ہوا کہ وہ بھی پاکستانی موقف کی تائید نہیں کرتے۔ بظاہر ہم سو لو فلائٹ پر رواں رہتے ہیں اور اس کے لئے ایک بیانیہ تیار کر لیتے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا سولو فلائٹ پر رواں دواں تنہائی کا شکار پاکستان کشمیریوں کے لئے عالمی سطح پر نرم گوشہ پیدا کر سکتا ہے۔ بظاہر ایسا نظر نہیں آتا کیونکہ دنیا پاکستان کو اس کے ماضی کے تناظر میں دیکھتی ہے جس میں وہ دہشت گردوں کی پناہ گاہ تھا۔
اس وقت پاکستان سفارتی تنہائی کا شکار ہے۔ اسکے زیادہ تر پڑوسی ممالک اس سے نالاں اور خفا ہیں۔ امریکہ نے پاکستان کی امداد کو حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کے ساتھ مشروط کردیا ہے۔ یورپی ممالک تو امریکی پالیسی کے ساتھ چلتے ہیں اس لئے ان سے بھی کوئی توقع رکھنا عبث ہے۔ ایک چین ہے جو پاکستان کے ساتھ مثبت تعلقات نباہتے ہوئے بڑی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ لیکن چین بھی کشمیر کے مسئلے پر خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔اس لئے پاکستان کشمیریوں کے لئے کچھ کر نہیں پارہا۔ دنیا کشمیر کے مسئلے کو پاک و ہند تنازع سمجھتے ہوئے کسی طرح کی دخل اندازی کرنے سے گریزاں ہے۔ کشمیر کے مسئلے کی موجودہ صورت حال پاک و ہند تعلقات کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
موجودہ کشیدہ تعلقات کی بھاری ذمہ داری ہندوستان پر عائد ہوتی ہے۔ابھی ہندوستان کے انتخابات نہیں ہوئے تھے کہ پاکستان نے اسے تجارتی مراعات دینے کا فیصلہ کر لیا۔ پاکستان اس کا اعلان نئے وزیر اعظم کے منتخب ہونے کے بعد کرنا چاہتا تھا تاکہ مستقبل کی ہندوستانی انتظامیہ پر تجارتی مراعات کا مثبت اثر پڑے۔ تعلقات کو مثبت سمت دینے کے لئے وزیر اعظم نواز شریف نریندر مودی کی رسم حلف برداری میں شریک ہوئے۔ توقع کی جا رہی تھی کہ دونوں ملکوں کے تعلقات معمول پر آجائیں گے لیکن اس دوران پٹھانکوٹ میں دہشت گردی ہوئی جس کی وجہ سے ہندوستان نے مذاکرات کرنے سے انکار کر دیا۔ جب پاکستان پر یہ واضح ہوگیا کہ ہندوستان کسی بھی صورت تعلقات کو معمول کی سطح پر لانے کے لئے تیار نہیں ہے تو اس نے مسئلہ کشمیر کو زیادہ زور شور سے اٹھانا شروع کردیا۔ اسی دوران مقبوضہ کشمیر میں ہندوستان کے خلاف قومی تحریک میں پھر سے تیزی آنا شروع ہو گئی۔ آہستہ آہستہ پاکستان کے اندر کشمیر کا موجودہ بیانیہ سامنے آیا۔
پاکستان میں کشمیر کا موجودہ بیانیہ اس وقت تک رہے گا جب تک ہندوستان تعلقات کو معمول پر نہیں لاتا۔ لیکن کیا ہمسایوں اور دنیا سے کٹا ہوا معاشی بحرانوں کا شکار پاکستان کشمیریوں کی منزل آسان کر سکتا ہے؟ ظاہر بات ہے کہ اس کا مثبت جواب دینا مشکل ہے کیونکہ عام طور پر ایک کمزور دوسرے کمزور کی مدد کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔

.
تازہ ترین