پتہ نہیں پاکستان سیاست کے یا سیاست پاکستان کے گرم پانیوں میں کھول رہی ہے، ملک میں بہرطور پریشان کن بحرانوں کی کوئی کمی نہیں۔ کبھی درجہ حرارت تشویشناک حدود تک پہنچ جاتا ہے اور کبھی لگتا ہے اب بھاپ نکل چکی، معاملات نارمل ہونے جارہے ہیں۔ اب یہی دیکھ لیں ادھر پنجاب میں ڈاکٹر طاہر القادری اورعمران خان کی تحریک قصاص اور تحریک احتساب، اگر شیخ رشید کی غیرمعروضی سیاست کے باوجود ان کی تحریک نجات کو بھی اس میں شامل کرلیاجائے جس کی کوئی منطق بنتی ہی نہیں، اخبارات میں شائع شدہ نام چونکہ تین تحریکوں کےہیں اور تیسرا نام ان کی موومنٹ کا ہے، چنانچہ تکنیکی بنیادوں پر ان میں وہ بھی شامل کئے جاسکتے ہیں ان کا ذکر بھی ہوتا رہتا ہے، اسے آپ شیخ رشید کی البتہ میڈیا مہارت ضرور قرار دے سکتے ہیں تو پنجاب میں ان تینوں کے دھرنوں، جلسوں اور جلوسوں نے عوام کی مجموعی عدم شمولیت کے باوجود ہلاگلا کر رکھاہے۔ سڑکوں پر جان پڑتی دکھائی نہیں دیتی۔ کسی پراسرار واقعہ سے البتہ اللہ بچائے۔ جب انسانوں میں ان دیکھی مخلوق بسرعت موجود ہو وہاں متوقع ارضی فسادات سے صرف ِ نظر نہیں کیا جاسکتا۔ اب یہ حضرات ’’سڑک‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’الیکشن کمیشن‘‘، ’’سپریم کورٹ‘‘اور ’’پارلیمنٹ‘‘ کا بھی بہ کثرت حوالہ دینے لگے ہیں، مقصد تینوں تحریکوں کی شدت یا حدت محسوس ہوتی رہے اور ساتھ ساتھ گنجائشوں کا دروازہ بھی کھلارہے۔ منتخب حکومت کی آئینی مدت کی تکمیل میں کوئی موثر (’’فیصلہ کن‘‘ بہت دور کی بات ہے) رکاوٹ پڑتی نظر نہیں آتی، تاہم پاکستان کی تاریخ کے اس پریشان کن تسلسل کا لمحہ، تعلق اس کا اچانک پن کے تقاضے سے ہے اور آج ہی کی تاریخ میں ثبوت اس کا کراچی میںایم کیو ایم کی کہانی کا ’’بڑا دھماکہ‘‘ جس نے نارمل ہوتی ملکی پوزیشن میں پھر بھونچال پیداکردیا، گویا وہی انہونی، ہمارے ملک کا شاید مقدر ٹھہرائی جاچکی!!
اور یہ انہونی شروع ہوتی ہے الطاف حسین کی تقریر سے، متحدہ قومی موومنٹ کے قائدنے کراچی پریس کلب میں لگائے گئے بھوک ہڑتالی کیمپ کے کارکنوں سے کہا ’’180ملین افراد کا ملک باقی نہیں رہے گا‘‘ (خاکم بدہن و خدانخواستہ از کالم نگار) پھر کیمپ میں بیٹھے ان لوگوں سے قائد تحریک نےسوال کیا ’’انہوں نے جیونیوز اور دوسرے نجی چینلوں پر آپ کے بھائی کی تصویر نہ دکھانے اور مناسب کوریج نہ دینےکی وجہ سے حملہ کیوں نہیں کیا؟ وہ میڈیا کے خلاف فوری پر ایکشن لیں، یہ غیرمنصفانہ بات ہے کہ عدالتی احکامات کی وجہ سے ٹی وی چینلوں پر ان کی تصویر نہیں دکھائی جاری، ایسا کرنے پرآپ لوگوں نے ان چینلوں کو توڑ کیوں نہیں دیا؟ بتائیں کہ آپ نے ان چینلوں کو کیوں نہیں توڑا؟ کراچی میں ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ آپ کے قائد کی تصویر نہ دکھائی جائے؟ میڈیا چینلوں کو سبق سکھایاجائے، انہیں وہ سزا دی جائےکہ یہ لوگ دوبارہ ایسی حرکت نہ کریں،آپ نےان چینلوں کے خلاف کچھ کیوں نہیں کیا جو مجھے نہیں دکھاتے۔‘‘ اس موقع پر ایک کارکن نے بھائی کو جواب دیا ’’ہم ان کے کیمرے توڑ سکتے ہیں، انہیں توڑنا ہمارا حق ہے‘‘جس پر الطاف حسین کا جواب تھا ’’بسم اللہ!‘‘ بس اس کے بعد ہنگامہ ٔ حیات شروع ہو گیا، ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار، خواجہ اظہار الحق اور ڈاکٹر عامر لیاقت گرفتار کرلئے گئے (جنہیں کچھ دیر بعد رہا کردیا گیا)۔ نائن زیرو سیل، دفاتر سیل، ریکارڈ قبضے میں، پاکستان کے خلاف لٹریچر اور نقشوں کی برآمدگی کی البتہ اس دفعہ خبر سامنے نہیں آئی! ایک بے گناہ کارکن بھی ہلاک ہوا۔
پاکستان کی سرزمین پر جاری تشدد اور قتل و غارت کے خونی کھیل میں جو اپنی جانوں سے گئے، وہ شہید ہوں یا عامی، وہ جانیں اور ان کے لواحقین، زندگی کے مصائب و عوامل انہی کا حصہ رہ جاتا ہے، باقی اپنی اپنی راہ لگتے ہیں۔ ایم کیوایم کے ٹکٹ پر منتخب رکن سندھ اسمبلی نےاس واقعہ پر پارٹی اور اسمبلی دونوںکی رکنیت سے استعفیٰ دےدیا۔ یہ ان کا حق تھا۔ کاش! ان کے استعفے سے کراچی کی آگ بجھنے کا کوئی امکان بھی پیدا ہوجاتا۔
ریاستی فورسز اور ریاستی اہلکاروں کا اپنا بیانیہ اور اپروچ ہوتی ہے۔ ملکوں اور قوموں کی قیادتیں اس بیانئے کو اپنی رہنمائی اور وژن کی روشنی میں دیکھتی اور پالیسیاں بناتی ہیں۔ یہ بیانیہ بنیادی طور پر کارکردگی رپورٹ کے بطن سے جنم لیتاہے۔ اداروں کے افراد حکومت ِوقت کے احکامات اور آئین و قانون کے پابندہوتے ہیں۔ انہیں جاری سیاسی اور مذہبی پالیسیاں طے نہیں کرناہوتیں نہ یہ ان کا استحقا ق اور دائرہ کار ہے۔
فیصلہ کن زمینی حقیقت ایک ہی ہے، طاقت سے عوامی لیڈرشپ اور جماعتیں سیاست اور عوام سے باہر نہیں نکالی جاسکتیںاور تشدد سے لیڈرشپ اور جماعتیں کامیاب نہیں ہوتیں۔ بالآخر دونوں وقت کے ہاتھوں ناکامی و نامرادی کے تاریک گڑھے میں گر جاتی ہیں۔ یہاں دونوں کام ہوتے رہے ہیں!
آپ دیکھیںپاکستان کے سیاسی ریکارڈ کے مطابق یہاں قومی سیاستدانوں، قومی سیاسی جماعتوں کو بزور طاقت ملک کے منظر سے ہٹانےیا غیرپیداواری کرنے کی کوششوں کا بہت ہی افسوسناک اثاثہ ہماری آئندہ نسلوں کو مطالعہ کاموادفراہم کرتارہے گا۔ گزشتہ صرف تین چار دہائیوں کی بات کریں۔ ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو، آصف علی زرداری، نوازشریف ان میں سے ہر ایک اس ریکارڈ کا حصہ ہے۔ انداز اور اقدامات میں گو بہت نمایاں فرق موجودرہا۔ خواہش اور منصوبہ پاکستان اور پاکستانی عوام کو جمہوری تسلسل اور جمہوری سیاستدانوں سے محروم و مایوس کرنا ہی تھا۔ یہ ناپاک خواہش اور منصوبہ شاید اپنی تقدیر میں نارسائی اور شکست لکھوا کر لایا۔ اس لئے پاکستان کے عوام نے کبھی ایک گھڑی کے لئے بھی اپنے ووٹ، آئین کی بالادستی اور جمہوری تسلسل سے محرومی کے تصور کو قبول نہیں کیا۔ ٹھیک ہے المناک ابواب خون کے آنسو رلاتے ہیں۔
جمہوری تسلسل میں ناکامی نے ملک کو برباد، قوم کو رسوا، جغرافیے کو تباہ، کردار کو ُمردار کیا، ’’کمال دی ہٹیاں‘‘ پھر بھی کھلتی رہیں۔ شاباش، مبارکباداور آفرین ہے پاکستان کے عوام اور سیاستدانوں کو جنہوں نےاپنے تمام کبیرہ و صغیرہ قومی و ذاتی گناہوں کے باوجود، آئین کی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل کا جھنڈا تھامے رکھا۔ آج بھی ملک میں وہی منتخب عَلم لہرارہا ہے، اس آئینی تسلسل کے مکمل کرنے کی جدوجہد جاری، اقتصادیات راستے پہ پڑ چکیں،آئندہ انتخابات میں عوام کے ووٹ کا احترام جوبن پر ہوگا، ہمیں یقین رکھنا چاہئے ’’کمال دی کوئی ہٹی‘‘باقی نہیں رہے گی، الطاف حسین کی ردعمل اور تشددکی تحریک مسترد ہوگی، موجودہ منتخب حکومت اور حزب مخالف دونوں کو عوام کے پاس اپنے حق حکمرانی کے لئے جانے کا موقع ملےگا، انشا اللہ!
پاکستان تین چار دہائیوں میں جمہوری کشمکش کی رگڑیں کھاتے کھاتے بالآخر تیزرفتار اقتصادی نمو،آئینی بالادستی اور بین الاقوامی اعتماد کی راہوں پر چل پڑا ہے، ہمیں جمہوریت کو ان تینوں منازل تک پہنچنےکیلئے بھی بچانا ہے!
.