• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
برطانیہ میں اردو شاعری کے مستقبل کے سفر پرغور کرتے ہوئے مجھے وہ گاجر یاد آگئی جسے پرانے زمانے میں گدھے کے منہ سے تین چار انچ آگے سر کے ساتھ باندھ دیا جاتا تھا اور گدھا اس کے حصول کی خواہش میں اس وقت دوڑتا رہتا تھاجب تک منزل نہیں آجاتی تھی۔ میں نے بر منگھم کے چوبیس سالہ نوجوان یاسر عرفان سے ملنے کے بعدسوچا کہ سفر کے اختتام پر گدھے کو تو شاید گاجر مل جاتی ہو گی مگر برطانیہ میں اردو شاعری کے مسافروں کوبھی گاجر ملنے کا امکان کم ہی نظر آتاہے۔ یاسر عرفان برمنگھم میں پیدا ہوا اردو اس کی مادری زبان تھی سو بولنی آگئی لکھنا پڑھنا والدہ نے سکھا دیا۔اور اب وہ انگلش سے اردو کے ترجمہ کا کام کرتا ہے۔اردو شاعری کے ساتھ بھی اس کی دلچسپی سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔اس کی دلچسپی سے جو دلچسپ گفتگونمودار ہوئی میں اس میں آپ لوگوں کو بھی شریک کرنا چاہ رہا ہوں۔جس میں زیادہ تر میں خاموش ہی رہا۔ کیا بولتا۔ بولنے کو کچھ تھا ہی نہیں۔
’’منصورصاحب میں اردو شاعری کا ایک معمولی طالب علم ہوں۔اور میں نے آج کے دور کے تقریبا تمام مشہور اردو شاعروں کی کتابیں دیکھی ہیں لیکن ان کے شعروں کوآج کے تناظر میں رکھ کر دیکھا جائے تو زیادہ تر شعر اپنا مفہوم کھو دیتے ہیں۔مثال کے طور پراب یہ جو چراغِ راہ ہے یہ یہی اسٹریٹ لائٹ ہے جو ہر گلی میں ہر سڑک پرلگی ہوئی ہے۔ اور اگر کہیں کوئی ٹوٹ گئی ہے تو یہ کونسل یا بلدیہ کا پرابلم ہے شاعر کا نہیں کہ وہ کہے
چراغِ راہ نہیں تھے وگرنہ منزل سے
یہ پاں کچھ تو شناسا ضرور ہو جاتے
اور اگر اس کا کوئی مفہوم ہے تو وہ پھر دوسو سال پرانے لوگ جان سکتے۔ میں نہیں ‘‘
میں نے کہا ’’کوئی اور مثال ‘‘
کہنے لگا’’میر کارواں کی ترکیب کو لے لیجئے۔ آج کے دور میں اس کا مفہوم ڈرائیور کا ہے۔ وہ بس کا ڈرائیور بھی ہو سکتا ہے۔ ٹرین کا ڈرائیور بھی۔ ہوائی جہاز کا پائلٹ بھی ہو سکتا ہے۔لیکن یہ شعر دیکھئے
کارواں کے سب مسافر سوچتے ہیں شام سے
صبح دم کس سمت میر کارواں لے جائے گا
اب یہاں یہ میر کارواں کوئی بس ، ٹرین یا ہوائی جہاز اغوا کر کے کہیں لے جانے والا دہشت گرد محسوس ہو رہا ہے۔میں اس کے جواب میں ہونہہ کے سوا اور کچھ نہ کہہ سکا اور وہ بولتا چلا گیااب دیکھئے اردو شاعری میں جہاں کرنسی کا ذکر آیا تو صرف عربوں کی کرنسی کی بات کی گئی ہے یعنی درہم و دینار کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔ آج کے دور میں ڈالر اور پونڈ کی موجودگی میں درہم و دینار کی کیا تک ہے۔اور اگر صرف کسی تہذیبی تعلق کی بنا پردرہم و دینار کے لفظ استعمال کئے گئے ہیں تو پھربھی یہ زیادتی ہے کیونکہ پھر پہلا حق تو روپیہ کا ہے ‘‘
میں نے حیرت سے اسے دیکھا اور کہا’’ عرفان یار بہت جدید تر نظریا ت ہیں تمہارے مگر لگتا ہے تم نے صرف روایتی شاعروں کا مطالعہ کیا ہے ‘‘ کہنا لگا ’’نہیں مجھے کسی نے بتایا تھا کہ برطانیہ کے سب سے جدید شاعر ساقی فاروقی ہیں مگرمیں نے ان کے نام میں ساقی لفظ کو دیکھ کر اندازہ کرلیا تھا کہ کیسے جدید تر ہو سکتے ہیں جنہوں نے اپنا تخلص ہی ساقی رکھا ہوا ہے۔ اردو شاعری میں ساقی کی بہت زیادہ اہمیت ہے اس کے بارے میں ہزاروں شعر کہے گئے ہیں مگر آج کے دور میں ساقی کیا ہے۔ کسی پب میں کام کرنے والی کوئی لڑکی یا کوئی لڑکایعنی بارٹینڈر۔۔اب اس کی تعریف میں کتابوں کی کتابیں لکھی گئی ہیں اور لکھی جارہی
ہیں یہ میری سمجھ سے بالاتر ہے۔‘‘ میں نے پوچھا
’’کیا ساقی فاروقی کو پڑھا بھی ہے‘‘ بولا
’’نہیں کسی نے ان کایہ شعر سنایا تھا یہی کافی ہوا کہ
اپنے اندر کی گرتی دیواروں پر
اتنی دھوپ اتار کہ سایہ ناز کرے‘‘
میں نے کہا’’یہ تو بڑا جدید شعر ہے ‘‘ کہنے لگا ’’ہو گا جدید مگر یہ سایہ دیوار کا جو موضوع ہے یہ میرے حلق سے نہیں اترتا۔کیا کہوں شاعر کیوں یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت میں درخت ، سائبان یعنی چھتیں وغیرہ نہیں ہوتیں کہ لوگوں کو دیواروں کے سائے میں بیٹھنا پڑتا ہے۔‘‘
میں نے پوچھا
’’فیض احمد فیض کو پڑھا تم نے‘‘ کہنے لگا
’’ہاں دلچسپ شاعر ہیں ان کے کچھ شعر پڑھ کر تو میں بہت ہنسا تھا مثال کےطور پر
فکر دلداری گلزار کروں یا نہ کروں
ذکر مرغانِ گرفتار کروں یا نہ کروں
یہ شعر پڑھ کر مجھے اپنے ایک دوست کا پولٹری فارم یاد آجاتاہے جو مرغانِ گرفتار کا کاروبار کرتا ہے‘‘ میں نے پریشان ہوکر اسے بتایا کہ
’’یہاں مرغانِ گرفتار سے مراد یہ چکن نہیں جو ہم کھاتے ہیں۔ یہ مرغ تو ایک اور پرندہ ہے جو شاید ہم نے نہیں دیکھااور یہ دوسرا مصرعہ فیض کا نہیں شاید سودا کا ہے‘‘ کہنے لگا’’اس بات پر تو مجھے اور زیادہ ہنسی آئے گی کیونکہ پھرتو اس شعر میں یہ پوچھا گیا ہے کہ چڑیاگھرکا ذکر کروں یا نہ کروں۔کیونکہ گرفتارشدہ نادرپرندے چڑیا گھروں میں ہی ہوتے ہیں۔
میں نے طنزیہ پو چھا ’’فیض کا اور کوئی دلچسپ شعر‘‘ توبولا
’’یہ شعر تو خیر بہت مزے دار ہے
جگہ جگہ پہ تھے ناصح تو کوبکو دلبر
انھیں پسند، انھیں ناپسند کیا کرتے
اسے سوچتے ہی یہ منظر میری آنکھوں کے سامنے آتا ہے کہ جگہ جگہ پر سپاہی کھڑے ہیں اور گلی میں محبوبائیں پھر رہی ہیں۔ یہ سیدھا سادہ کرب کرالنگCURB CRAWLINGکا واقعہ دکھائی دیتا ہے۔ جہاں پسند یا ناپسند کرنے کی مہلت پکڑے جانے کے خوف کی نذر ہو جاتی ہے۔ پھر یہ جو ناصح ہے یہ مجھے آج کے دور میں پولیس والے کے علاوہ کوئی اور نہیں سوجھتا۔اسی طرح محتسب بھی پاکستانی تھانیدارکا نظر آتا ہے۔محتسب کے اس مفہوم سے فیض کا یہ شعر کتنا واضح ہو جاتا ہے
محتسب کی خیر اونچاہے اسی کے فیض سے
رند کا، ساقی کا، مے کا، خم کا، پیمانے کا نام
لیکن انڈیااورخاص طور یہاں برطانیہ میں یہ شعر تقریبا بے مفہوم ہے۔ پاکستان میں بھی اگر خدانخواستہ شراب پر پابندی ختم کردی گئی تو پھرکسی محتسب کے فیض سے شراب کا نام اونچا نہیں ہو سکے گا‘‘
قارئین!میں اس نئی نسل کے دوہری شناخت رکھنے والے نوجوان کو اردو شاعری کی روایت کہاں تک سمجھاتاسو میں نے اس کے ساتھ قطعاََ بحث نہیں کی۔ مجھے اس بات کا بھی احساس ہے کہ اردو شاعری کو ابھی تک اپنے زمانے کوساتھ لے کر چلنا نہیں آیا۔شاید اردو شاعری بھی وہی گاجر ہے جس کے حاصل کرنے کی تگ ودو میں گدھا بھاگتا چلا جا رہا ہے۔بیچاری گاجر۔۔۔

.
تازہ ترین