• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ میں کساد بازاری کی وجہ سے برآمدات میں کمی اور اندرون ملک طلب و رسد گرنے کی وجہ سے امریکی بجٹ خسارہ 14؍کھرب کے لگ بھگ پہنچ چکا ہے، ستمبر میں امریکہ کا ماہانہ بجٹ خسارہ 2؍کھرب ڈالر رہنے کا امکان ہے جبکہ ملک کو 11؍ماہ کے دوران 13؍کھرب 78؍ارب ڈالر بجٹ خسارے کا سامنا ہے۔
ڈالر کا موقف دوسری جنگ عظیم کے بعد نہایت ہی غیرمستحکم ہوچکا ہے اور کسی بھی وقت ڈالر دنیا کی دیگر کرنسیوں کے لئے ایک بہت بڑی مصیبت بن سکتا ہے۔ 2009ء میں بیورو آف انٹرنل ریونیو کے سابق سربراہ ٹی کول مین انڈریو نے کہا تھا کہ ’’چاہے وہ انسان ہو یا شیطان میں ہر اس نفس کو چیلنج کروں گا جو میری اس بات سے اختلاف کرے گا کہ موجودہ صورت حال میں ڈالر مزید ایک دہائی تک بھی باقی نہیں رہے گا‘‘۔ زرمبادلہ کی عالمی منڈی میں ڈالر کی قدر میں مسلسل کمی واقع ہورہی ہے، امریکی اقتصادیات کی نائو ہچکولے کھا رہی ہے گزشتہ برسوں میں (2003 تا 2012ء) اٹھارہ بار امریکی خزانے کی طرف سے شرح سود میں کمی کی گئی ہے لیکن اس سے ڈالر کو استحکام حاصل نہ ہوسکا ڈالر کے مقابلے میں دنیا کی چھوٹی بڑی کرنسیوں کی قدر میں لگاتار اضافہ ہورہا ہے۔ یورو کے روپ میں ڈالر کی حریف کرنسی پیدا ہوچکی ہے جس نے تھوڑے ہی عرصہ میں نمایاں جگہ بنالی ہے، تیل اور سونے کی مارکیٹوں کے عدم استقرار کے علاوہ امریکہ کا عراق، شام، لیبیا، افغانستان اور پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران جنگی اخراجات میں ہونے والے اضافے نے ڈالر کو ناقابل اعتبار کرنسی بنا ڈالا ہے۔ بش انتظامیہ امریکی تاریخ کی سب سے زیادہ فضول خرچ اور جنگی انتظامیہ تھی اس کے عہد تاریک میں قومی قرضہ 13ٹریلین تک پہنچ گیا تھا جن میں سے ایک تہائی قرضے چین، جاپان اور سعودی عرب سے لئے گئے تجارتی خسارہ 900ارب ڈالر تک پہنچ گیا تھا، امریکہ کا ہر شہری تین ہزار ڈالر کا مقروض بن چکا ہے۔ جو کرنسیاں یورو سے مربوط ہیں وہ کافی حد تک محفوظ ہیں۔ یورو کے عالم وجود میں آنے کے بعد ڈالر کے عدم استحکام کے سبب پریشان بعض چھوٹے ممالک نے اپنی کرنسیوں کو یورو سے منسلک کرنے کی کوششیں شروع کردی ہیں۔ عرب ممالک میں سب سے پہلے یمن نے اپنے زرمبادلہ کے تمام اثاثہ جات کی یورو میں تبدیلی کا اعلان کیا تھا۔ عراق کے سابق صدر مرحوم صدام حسین نے بھی ڈالر سے ناطہ توڑنے کا اعلان کیا تھا اور عربوں پر زور دیا تھا کہ وہ اپنی کرنسیوں کے استحکام اور تیل کی قیمتوں میں ہر روز ہونے والے اتار چڑھائو سے نجات حاصل کرنے کے لئے اپنی کرنسیوں کا تبادلہ یورو میں عمل میں لائیں، عربوں کے لئے امریکہ کے رعب و دبدبہ کے سبب اپنی کرنسیوں کو ڈالر کے سوا کسی اور کرنسی سے مربوط کرنا آسان نہیں ہے اور ملک عزیز کے لئے تو تقریباً ناممکن ہے۔ عرب ممالک نے اپنے تمام مالیاتی اثاثہ جات زرمبادلہ کے ذخائر بیرونی جائیدادیں منقولہ اور غیرمنقولہ اثاثے ڈالر میں تبدیل کر رکھے ہیں۔ دنیا کے بے شمار بینکوں میں خلیجی ممالک کے حکمرانوں، تاجروں اور شیخوں کی کثیر دولت ڈالر ہی کی شکل میں جمع ہے انہوں نے ڈالر کے سوا کسی اور کرنسی کو متبادل کرنسی کے طور پر کبھی نہیں سوچا، اب جبکہ ڈالر کے سفینے میں سینکڑوں سوراخ ہوچکے ہیں تو یہ لوگ اس سفینے کے دیگر مسافروں سے ہٹ کر یہی سوچ رہے ہیں کہ اس سفینہ کو کس طرح پار لگایا جاسکتا ہے جبکہ ان کے ساتھ سفر کرنے والے دوسرے مسافر اب اس بوسیدہ کشتی کے بجائے کسی دوسرے مضبوط اور محفوظ جہاز کے ناخدائوں سے روابط قائم کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔
ڈالر کی حقیقی قدر و قیمت کیا ہے؟ فیڈرل ریزرو نے گزشتہ دنوں 13؍ٹریلین امریکی ڈالر چھاپنے کا حکم دیا ہے تاہم اسے انتہائی خفیہ رکھا جارہا ہے، ریزرو بینک کے ملازمین سے بھی کہا گیا ہے کہ وہ باہر اس کا ذکر نہ کریں، سونے اور چاندی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے چاندی نے گزشتہ 15سال کا ریکارڈ توڑ دیا ہے جبکہ سونا 25سالہ ریکارڈ توڑنے والا ہے۔ امریکی کانگریس نے 1913ء میں فیڈرل ریزرو سسٹم متعارف کرایا تھا، سونے سے ڈالر کی شرح 1.35 رکھی گئی تھی، جنگ عظیم کے بعد دنیا بھر کے سونے نے امریکہ کا رخ کرلیا کیونکہ یورپ جنگ عظیم دوم میں تباہ ہوگیا جبکہ امریکہ براہ راست کسی حملے اور تباہی سے محفوظ رہا یورپ کی تعمیرنو کے لئے بڑی اور خطیر رقم کی ضرورت تھی سونے کو کرنسی کا معیار بنانے کی پالیسی وقتی طور پر تبدیل کردی گئی، اخراجات کو کنٹرول کرنے یا ٹیکس لگانے کے بجائے نوٹ چھاپنے کی پالیسی اختیار کرلی گئی سیاسی اور فوجی طاقت کے بل بوتے پر امریکہ نے دنیا سے ڈالر کو ریزرو کرنسی کے طور پر منوالیا۔ بعدازاں امریکہ نے OPEC سے معاہدہ کرلیا کہ تیل کی خرید و فروخت صرف امریکی ڈالر میں ہوگی۔
اس معاہدے سے سونے کے بجائے تیل ڈالر کے لئے زرضمانت بن گیا اور ڈالر مضبوط ہوگیا۔ اس کی طلب میں بھی اضافہ ہوا، امریکہ نے خلیج فارس میں تیل کی دولت سے مالا مال ریاستوں کی کسی قسم کے حملے یا مقامی بغاوت کی صورت میں بھرپور حفاظت کا وعدہ کیا لیکن حالات سدا ایک جیسے نہیں رہتے یہ بات تاریخ ہمیں بتاتی ہے۔ امریکی مصنف ویلارڈ کانیلٹن نے یہ بات دنیا کو سمجھانے کے لئے ’’ڈالر کی موت کا دن‘‘ کتاب لکھی، ویلارڈ نے مذکورہ کتاب میں لکھا ہے ’’انسانی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ دنیا کی کوئی معاشی طاقت ماضی میں اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکی جب اس کے محاصل کی شرح قومی آمدنی کے 30فی صد کے برابر ہوگئی، امریکہ میں محاصل کی مجموعی شرح 30فی صد سے تجاوز کررہی ہے، گزشتہ صدی کی ساتویں دہائی میں اوسطاً ہر امریکی اپنی بارہ ماہ کی آمدنی میں سے 4ماہ کی آمدنی محاصل کی ادائیگی میں دے دیا کرتا تھا‘‘۔ ویلارڈ کے بیان کے مطابق امریکہ کی اقتصادیات تیزی کے ساتھ اپنی تباہی کے آخری دہانے پر پہنچ رہی ہے جہاں سے اس کی واپسی ممکن نہیں، ایک جرمن ماہر معاشیات کلاوس نوئے نے ڈالر کے زوال کی پیش گوئی کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’آپ لوگ امریکی تاریخ کے اس لمحے میں داخل ہوچکے ہیں جب ایک آدمی ماچس کی تیلی کے بجائے دس ڈالر کے نوٹ سے آگ جلائے گا، ڈاکٹر کلاوس کا دعویٰ ہے کہ ڈالر کے انحطاط کا دور شروع ہوچکا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ آئندہ دہائی کے وسط تک ڈالر 1923ء میں جس طرح جرمن کرنسی منظر سے غائب ہوگئی تھی اس طرح ڈالر بھی گمنامی میں چلا جائے گا اور اسے ایک دن ’’منسوخ کرنسی‘‘ قرار دے دیا جائے گا جس طرح 6؍مئی 1971ء کو امریکی ڈالر پر قیامت ٹوٹ پڑی تھی اس دن کئی یورپی بینکوں نے امریکی کرنسی کی خرید و فروخت بند کردی تھی کہ امریکی کرنسی کے متزلزل موقف کے سبب متعدد یورپی بینکوں کے سامنے ڈالر فروخت کرنے والوں کی قطاریں لگ گئی تھیں۔

.
تازہ ترین