• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بہت ہی عجیب سا لگا کیونکہ صوفیانہ کلام، حال حلئے او ر انداز ِ گائیکی کے سبب میرا خیال تھا کہ خاتون خود بھی صوفی منش، سائیں ٹائپ اور اللہ لوک قسم کی ہوں گی لیکن ’’سائیں صاحبہ‘‘تو پورے دنوں کی سوداگر نکلیں جس پر ظاہر ہے مجھے کیا اعترا ض ہوسکتا ہے۔ مجھے تو کوفت قلق اس بات پر ہے کہ ہم سوچے سمجھے بغیر اندھا دھند ’’مغربیائے‘‘ جارہے ہیں اور وہ بھی انتہائی بھونڈے انداز میں اس طرح جیسے قسم اٹھا رکھی ہو کہ مغرب کی ہر اچھی شے پر لعنت بھیجنی اورہر بری شے آنکھیں بند کرکے اپنانی ہے۔ ہمارے اور ان کے کلچر ہی نہیں دیگر کنڈیشنز میں بھی زمین آسمان کا فرق ہے لیکن پھر وہی بات کہ نقل کیلئے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔تمہید کچھ زیادہ ہی لمبی ہو رہی ہے سو پہلے خبر پڑھ لیں۔ صوفیانہ کلام کی گائیکی میں ممتاز مقام پر فائز گلوکارہ عابدہ پروین نے کسی میگزین کو انٹرویو دینے کے عوض پانچ لاکھ روپے کا مطالبہ کردیا۔ ان کی صاحبزادی نے معاوضہ کے علاوہ لاہور کی ریٹرن ٹکٹ، فائیو سٹار ہوٹل میں ٹھہرنے کی شرط بھی عائد کردی۔ جب ان کو بتایا گیا کہ پاکستان کے اخبارات ورسائل میں ایسا کوئی رواج نہیں تو کہا گیا کہ اس کے بغیر تو وہ کسی سے بات بھی نہیں کرتیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ فنکاروں کی اکثریت نے انٹرویوز کے لئے معاوضہ طلبی اس لئے شروع کردی ہے کہ اس کا فیشن بن گیا ہے۔اس ساری خبر میں کلیدی لفظ ’’فیشن‘‘ ہے۔ عابدہ پروین پانچ چھوڑ پچاس لاکھ مانگیں، ان کی گائیکی ان کی مرضی اور اک خاص حوالہ سے دیکھیں تو یہ درست بھی ہے کیونکہ جب کوئی فنکار فیڈ آئوٹ ہوتا ہے، زوال کی زد میں آتا ہے تو کوئی اس کا حال پوچھنے کا روادار بھی نہیں ہوتا۔ کیسے کیسے روشن ستارے کیسی کیسی کسمپرسی کے عالم میں تاریکیوں کے گھاٹ اتر گئے۔ سینکڑوں مثالیں سامنے ہیں لیکن کچھ کام ہماری معاشرت اور منڈی کے سائز سے میچ ہی نہیں کرتے۔ عام تام میگزین تو چھوڑیں، صف اول کا کوئی ہفت روزہ یا ماہنامہ بھی یہ ’’سپرلگژری‘‘ افورڈ نہیں کرسکتا کہ گنجی نہائے گی کیا نچوڑے گی کیا۔ گنجی معیشتوں اورگنجی منڈیوں میں یہ ممکن ہی نہیں ورنہ ہمارے ’’سپرسٹارز‘‘ شان، معمر رانا وغیرہ چند لاکھ کی مار نہ ہوتے اور انڈین سٹارز کروڑوں میں وصولیاں نہ کرتے۔ شاہ رخ، سلمان خان، عامر خان یا اکشے وغیرہ اور ہمارے اداکاروں میں ٹیلنٹ کا نہیں منڈی کی قسم اور سائز کا فرق ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں منڈی ہی شرط ِ اول اور حرفِ ِ آخر ہے لیکن ہم تو ابھی گدھوں میں نہ گھوڑوں میں۔ نہ یہ معاشرہ زرعی ہے نہ صنعتی، جاگیردارانہ بھی ہے اور سرمایہ دارانہ بھی۔ ہم تو ’’آدھا تیتر آدھا بٹیر‘‘ بھی نہیں۔ تیتر، بٹیر، کوّے، چیل، کبوتر اور جانے کس کس کا مکسچر ہیں۔ معاشرہ ٹرائبل (قبائلی) ہو یا زرعی، پری انڈسٹریل ہو، انڈسٹریل ہو یا پوسٹ انڈسٹریل اس کے اپنےاپنے ادب، آداب، قواعد و ضوابط اور معیار ہوتے ہیں مثلاً جاہل قبائلی معاشرہ احمقانہ انداز میں اس بات پر فخر کرتا تھا کہ ’’ہمارے نیزے لمبے اور عمریں چھوٹی ہوتی ہیں۔‘‘ یعنی ہم جوانی میں ہی جنگوں کی بھینٹ چڑھ کر فارغ ہو جاتے ہیں۔ دوسری طرف پوسٹ انڈسٹریل عہد میں داخل ہونے والا کامیاب مہذب معاشرہ اس بات پر فخر کرتا ہے کہ ہماری اوسط عمر 80، 85، 90سال ہوگئی ہے۔ پسماندہ معاشروں میں زندگی گھٹیا اور سستی ترین ’’کموڈیٹی‘‘ جبکہ ترقی یافتہ دنیا میں زندگی بہت قیمتی سمجھی جاتی ہے۔ سکینڈے نیوین اکتاہٹوں کا مارا تو خودکشی کرلے گا لیکن آپ پیسےکے بل بوتے پر وہاں سے ’’خودکش بمبار‘‘ بھرتی نہیں کرسکتے۔ بات کہاں سے کہاں جانکلی۔ معیشت کے جبر کے علاوہ کچھ معاشرتی اقدار بھی ہوتی ہیں مثلاً ہمارے ایک نامور مورخ نے بغیر معاوضہ ٹاک شوز میں جانے سے انکار کردیا۔ اک قد آور سینئر کالم نگار نے بلامعاوضہ ’’بیپر‘‘ تک دینا پسند نہ کیا تو یہ ان کی ’’ہمت‘‘ ہے جو مجھ میں نہیں۔ اپنے 40سالہ صحافتی کیریئر میں، میں نے کبھی ’’بارگین‘‘ ہی نہیں کیا کیونکہ زیب ہی نہیں دیا۔ دوسری طرف الیکٹرانک میڈیا میں شاید واحد آدمی ہوں جس سے ہر ٹی وی چینل ایکس کلیسو انٹرویو کرتاہے۔ ہفتہ میں تین دن اپنا ’’رپورٹ کارڈ‘‘ اور ایک دن ’’میرے مطابق‘‘ کے بعد سٹیمنا ہی اجازت نہیں دیتا لیکن باقی تقریباً سارے دن ’’مروت‘‘ کی بھینٹ چڑ ھ جاتے ہیں۔ وجہ؟ کچھ کے ساتھ ذاتی تعلق کی وجہ سے انکار ممکن نہیں، کچھ جونیئرز ہیں جن کا مان رکھنا ہوتا ہے۔ ہر ریکارڈنگ سے دو گھنٹے پہلے اے سی چلے تو سٹوڈیو کا ٹمپریچر نارمل ہوتا ہے، بجلی نہ ہو تو جنریٹر چلتا ہے لیکن گھر پھونک تماشا دیکھ تو وجہ تھوبڑا نمائی نہیں، چار دن ’’جیو‘‘ پر بہت کافی ہیں تو دوسری طرف مجھے ’’اوور ایکسپوژر‘‘ کا شعور بھی ہے لیکن یہ ہماری خوبصورت اقدار میں سے ایک ہے کہ ہر تعلق کا اپنا تقاضا اور احترام ہے۔ کچھ دوست، کچھ چھوٹے بھائیوں جیسے کچھ بچوں کی طرح جن کی حوصلہ افزائی ضروری ہوتی ہے چاہے اپنا کباڑہ ہوجائے۔ عرض کرنے کا مقصد یہ کہ اس قدر اندھا، اندھادھند اور غیرمنطقی قسم کا کمرشل ازم نہ ہمیں سوٹ کرتا ہے اور ہے بھی قبل از وقت۔ باقی عابدہ پروین اور اس ٹائپ کی مرضی۔

.
تازہ ترین