• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ کیسا کالم، کہ لکھنا بوجھل ہوچکا ہے۔ قصداً بہت ساری تلخ حقیقتوں سے پہلوتہی اس لیے ضروری کہ موقع محل مناسب نہیں۔ ریاستی سیاسی امور اور دوراندیشی، باریک بینی کا ساتھ چولی دامن کا رہتا تو تلخ حقیقتیں وجود ہی نہ پاتیں۔ بھلا تدبر، فہم و فراست۔۔۔ ہماری سیاست سے دور کا واسطہ نہیں۔ الطاف حسین نے حسب توفیق بمطابق عادت، برمحل موقع وہی کچھ کہا جو ہمیشہ سے کہتے آرہے ہیں۔ کیسا بڑا جرم، کونسا ایسا جرم، جو جناب سے منسوب ہو اور ثبوت سے محروم رہے۔ سب کچھ روز روشن کی طرح عیاں اس لیے بھی کہ جرائم دن دیہاڑے کرنے میں حیا نہ شرم، جھجک نہ ہچکچاہٹ رہی۔ حکمت کہاں سے ڈھونڈیں؟ سیّد مودودی ؒکا ایک کتابچہ ’’تبلیغ کی حکمت‘‘ ایام جمعیت میں رٹ لیا تھا۔ کتابچہ، سیاسی ترویج، جدید مارکیٹنگ، پبلک ریلیشنز کا حتمی، اساسی اور بنیادی رہنما اصول وضع کرگیا۔ بات سچ کہ حکمت کے تقاضے پورے کیے بغیر کسی شعبہ زندگی کی ترویج وترقی ناممکن، کجا کہ ریاستی امور یا دینی معاملات فہم وفراست اور تدبر سے محروم رہیں۔ آج بہت ساری بربادی کا سبب ہماری نادانی ہی تو ہے۔ آسیب کا سایہ ہے کہ وطن عزیزکو نت نئی مشکلات کا سامنا ہے۔ یہ آسیب سر سے اترے گا بھی یا نہیں؟ کشمیر کی نئی نویلی ابھرتی تحریک آزادی خم ٹھونک کر ایسے سامنے کہ بھارتی ریاستی مشینری اس کی بے باکی کا مقابلہ کرنے میں بے بس ہو چکی ہے۔ بھارتی پارلیمان، ایجنسیاں، میڈیا، ار ایس ایس، شیوسینا غرضیکہ ہر شعبہ و طبقہ زندگی سرجوڑ کر بیٹھا، کچھ سجھائی دینے کو نہیں۔ ایسی تحریک چلی کہ ارض پاک کی جوانی لوٹ آئی ہے۔ امید، آس دوبارہ روشن، روشنی چکا چوند کر رہی ہے۔ اور بھی کئی اچھی خبریں، آج سے پاکستان دنیائے ٹیسٹ کرکٹ کا چیمپئن بن چکا ہے،ہم ہی تو ورلڈ نمبر1ہیں۔ میانوالی کی جم پل نیازی شیر جوان مصباح الحق نے دنیائے کرکٹ پر سبز ہلالی جھنڈا گاڑ دیا ہے، شاباش مصباح۔ پاک چین اقتصادی راہداری نے ایک دنیا آباد کر رکھی ہے، خوشگوار تہلکہ مچا رکھا ہے۔ شروعات ہی ایسی، ایک نئی تاریخ رقم ہونے کا نقطہ آغاز ہی تو ہو چکا ہے۔ اچھی خبریں مستحکم ضرور، بری خبریں بھی جان چھوڑنے کو نہیں۔ خوشی میں غم پیوست اور دکھوں سے خوشی جڑی ایک مستقل سلسلہ ہی تو ہے۔ بڑی دیر سے، اچھی خبر ابھی پوری طرح آتی نہیں، ایک ہنگامہ فساد، ارتعاش اس سے کہیں پہلے آماجگاہ ڈھونڈ لیتا ہے۔
الطاف حسین نے پاکستان کا کچھ نہیں بگاڑا، اپنے تئیں خودکش جیکٹ پھاڑ دی۔ کیا یہ سوچی سمجھی اسکیم اور کسی بین الاقوامی کھیل کا ایک سین ہے؟ ’’ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے‘‘۔ گہری سازش اور بڑے فساد کا پیش خیمہ، ممکن ہے۔ ایم کیو ایم کی ہمیشہ سے خواہش رہی ہے کہ جرائم کے خلاف آپریشن، ضابطے اور قانون کی عملداری وپاسداری کا امین بننے کی بجائے سیاسی رنگ میں لت پت نظر آئیں۔ خدشہ کہ کراچی اور حیدرآباد کی بدنظمی کی شامیں طویل نہ ہو جائیں۔ پچھلے سال جب رینجرز نے90 عزیز آباد کی دہلیز ٹاپی تو ایم کیو ایم چار دانگ عالم مکمل طور مشکل صورتحال سے دوچار نظر آئی۔ قوی امکان یہی تھا کہ نکلنا مشکل رہے گا۔ ملک بھر میں دو رائے نہیں تھیں کہ ایم کیو ایم کی تنظیمی سیاسی خود اعتمادی متزلزل ہو چکی تھی۔ اخلاقی، سیاسی، نفسیاتی کیفیت بغیر پیندہ برتن میں مقید تھی۔ یہاں یہ بات بہرحال نظر انداز کرنی مشکل کہ ایم کیو ایم کا رعب ودبدبہ اور اثر و رسوخ جرائم، دھونس دھاندلی نہیں بلکہ ان کی سیاسی مقبولیت اور اثر و رسوخ ہے۔ ہاں یہ ضرور کہ اس جماعت نے سیاسی اثر و رسوخ کے سائے میں جرائم کا ایک وسیع اور موثر نظام ترتیب دے رکھا ہے۔ آج فاشسٹ پارٹی کا روپ دھار چکی ہے۔ اہم یہ نہیں کہ کراچی حیدرآباد سے باہر ایم کیو ایم کا کیا امیج یا تاثر بن چکا ہے اہم اتنا ہی کہ کراچی حیدرآباد نے اپنے سیاسی مستقبل کابڑا حصہ ایم کیو ایم کے پلو سے باندھ رکھا ہے۔ آپریشن کی اصل کامیابی اور کارنامہ، اردو بولنے والے کو قائل کرکے ایم کیو ایم سے علیحدہ کیا جانا تھا۔ یہ اسی وقت ممکن رہتا جب ہمارے سیاسی نابغہ روزگار فہم وفراست سے کراچی کے مکینوں کی رنجشوں اور قضیوں کو دور کرنے کی حکمت عملی وضع کرتے۔ کوئی سیاسی حل نکالتے۔ عسکری قیادت کی ذمہ داری اور ان کے منصب کے مطابق بھی کہ ایم کیو ایم کے لواحقین کو قومی دھارے میں رکھنے کے لیے جتن ہوئے۔ بدقسمتی کہ فہم وفراست سیاسی قیادت کے قرب وجوار میں موجود ہے نہیں جبکہ آپریشن کرنے والے لوگ طاقت اور سیاسی شعور کو یک جاں، جان چکے ہیں۔ غلط فہمیاں، سیاسی غلطیوں پر مجبور کر دیتی ہیں۔ چنانچہ کامیابیاں بجائے اثرات مرتب کرتیں جھگڑوں، جھمیلوں، روگ کے گورکھ دھندوں کا ترنوالہ بن گئیں۔ شروع آپریشن ہی سے پائوں سیاسی جھمیلوں پر ایسا آیا کہ پھسل گیا۔ ایم کیو ایم کو غیر موثر بنانے کا آیا موقع گنوا دیا۔ پچھلے سال NA-246 کے انتخابی معرکہ نے آپریشن کو بہت نقصان پہنچایا۔ لکھ بھی دیا تھا، بعدازاں کئی دفعہ تذکرہ کیا کہ آپریشن کے شروع دنوں میں سیاسی فوائد کے چکر میں پڑنا، عاقبت نااندیشی اور نااہلی ہی نے ثبت ہونا تھا۔ عمران خان جیسے دائمی نومولود سیاستدان ہمیشہ کی طرح ممد و معاون بن گئے۔ خیال رہا کہ NA246کا انتخابی معرکہ سر ہوتے ہی، کراچی حیدرآباد میں عمران خان کا سیاسی طوطی بولے گا۔ چشم تصور میں ایم کیو ایم نے تو فنا ہو جانا تھا۔NA-246کا الیکشن ہی تو تھا جو تحریک انصاف اور آپریشن ماسٹرز کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا گیا۔ سیاسی دائو پیچ اور تگ دو کی ایک اپنی دنیا ہے۔ اس دنیا کے سکندر بہرحال سیاستدان ہی ہیں۔ بعدازاں کراچی کے بلدیاتی الیکشن نے یہی کچھ ثابت کیا۔ تحریک انصاف ابھرنے سے پہلے بن کھلے مرجھا گئی، آج کراچی میں قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ وہ دن ہے اور آج کا دن، کراچی آپریشن کو جانچنے، پرکھنے کے دو عدد محدب عدسے بن چکے ہیں۔ ایم کیو ایم کے ماننے والے آپریشن کو اپنی عینک سے دیکھتے ہیں اور بقایا پاکستان دوسری نظر سے۔ ایم کیو ایم کے جرائم کی فہرست طویل ہے، تھوڑی سی ہوشمندی اور دانشمندی سے کام لیا جاتا تو گمان اغلب اہالیان کراچی بھی جوق در جوق باقی ماندہ قوم وملک کے صفحے پر نظر آتے۔ آپریشن کا فائدہ اہالیان کراچی ہی کو تو پہنچنا تھا، بلکہ پہنچ رہا ہے۔ چنانچہ کراچی کی اکثریت کو مطمئن رکھنا، کرنے کااصل کام تھا۔متحدہ قائد کے جرائم انتہائی گمبھیر اور اس قدر کثیر کہ کوئی وجہ نہ تھی، کراچی کے لوگ باآسانی مطمئن نہ ہو پاتے؟ ان کی رنجشوں اور کدورتوں کو ایڈریس کیا جانا تھا۔ توجہ نہ دی گئی۔ بلوچستان میں نمایاں کامیابی فقط اس لیے کہ کوئی سیاسی زاویہ یا فائدہ نہ رکھا گیا۔ بلوچستان میں کئی خرابیوں سے صرف نظر فقط اسی لیے کہ مبادا بڑا کام متاثر نہ ہو۔ آج پوری بلوچ قوم ملک کے شانہ بشانہ دہشت گردوں اور دشمن کے سامنے یکسو کھڑی ہے۔ صدق دل سے یکسو ہوں کہ ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن میں اہالیان کراچی کو بنفس نفیس شریک کار بنانا ہوگا۔ دوررس فائدے اور نتائج برآمد ہوں گے۔ ’’رینٹ اے لیڈر (Rent a Leader)‘‘ کسی قاعدے ، فائدے کے نہیں ہوں گے۔ تاثر یہ ہے بلوچ علیحدگی پسندوں کی طرز، ایم کیو ایم بھی ’’کھلے بندوں‘‘ بین الاقوامی طاقتوں اور بھارت کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی ہے۔ ایک عرصے سے بالتحقیق لکھ رہا ہوں کہ بھارت اور امریکہ پاکستان میں انارکی، افراتفری، انتشار پھیلانا چاہتے ہیں۔ پاک چین اقتصادی راہداری سے لیکر کشمیر میں بھرپور ابھرتی تحریک ِ آزادی تک، ایک ہل چل اور کھلبلی مچ چکی ہے۔ قائد تحریک بقلم خود، تنگ آمد بجنگ آمد، نے طبل جنگ سوچ سمجھ کر بجایا ہے بلکہ تاثر یہ ہے کہ دشمن طاقتوں کی رہنمائی میں ہی تو بجایا ہے۔ مطمح نظر، آخری جنگ جان کرسب کچھ جھونکنے کی تیاری کر چکے ہیں۔ یقیناً یہ طبل جنگ ایک طرف الطاف حسین کی اتھاہ مایوسی کا مظہر تو دوسری طرف شاطر دشمن کا بحالت مجبوری آخری بھرپور وار بھی۔ نتائج کیا نکلیں گے؟ یقیناً فتح و کامیابی ریاست پاکستان کی ہی رہے گی۔
نقصان کا تخمینے لگانے کا موقع نہیں نہ اس پر اب سوچ وبچار کرنے کا فائدہ ہے البتہ خود احتسابی ساتھ ساتھ ضروری ہے۔ بحیثیت قوم یکسو ہو کر، اس آخری وار کو خالی وناکام بنانا ہوگا۔ اہالیان کراچی ہی نے تو پاکستان بنایا۔ پاکستان سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے بھی یہی لوگ تو ہیں۔ پاکستان کا سمجھدار پڑھا لکھا طبقہ بھی یہی۔ ایک عرصہ تک فیڈریشن کا محافظ بنا رہا۔ اہالیان کراچی کو ہر قدم پر ساتھ رکھنا ضروری ہے۔ ساری قوم کو اکٹھا رکھ کر کمی بیشی کو پورا کرنا ہو گا۔ غلطیوں پر آہ وبکا کا وقت گزر گیا، مطلب یہ نہیں کہ غفلت اور کم عقلی کو آگے بھی ساتھ رکھیں۔ تکرار صرف اتنی کہ سیاسی اور عسکری قائدین سیاسی مفادات میں نہ الجھیں۔ دشمن ایک ایسی آخری جنگ کا آغاز کر چکا ہے جس کا مقصد کشت وخون، انتشار اور انارکی کے علاوہ کچھ بھی تو نہیں۔

.
تازہ ترین