• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں حیران رہ گیا، کہیں وہ مذاق تو نہیں کر رہا، یہ سوچ کر میں نے اسے غور سے دیکھا، مگر وہ مکمل سنجیدہ تھا، میں نے کنفیوژ ہو کر کرسی سے ٹیک لگائی تو اگلے ہی لمحے مشرف کے ابتدائی دور کی وہ صبح آنکھوں کے سامنے آ کھڑی ہوئی کہ جب مسلم لیگ سے مشرف کیمپ میں چھلانگ لگا چکا میرا یہی دوست اسلام آباد کے ایک فائیو ا سٹار ہوٹل میں چھری اور کانٹے سے براؤن بریڈ کیساتھ مشروم آملیٹ کھاتا کہہ رہا تھا ’’بھائی جان تعصّب کی عینک اتار کر د یکھو گے تو معلوم ہو گا کہ ہمیں قائد ِاعظم کے بعد اگر صحیح معنوں میںکوئی لیڈر ملا تو وہ مشرف ہے‘‘ پھر زرداری دور کی وہ حبس زدہ شام بھی یاد آگئی کہ جب وفاقی دارالحکومت کے ایک گراؤنڈ میں واک کے بعد بنچ پر بیٹھا میثاقِ جمہوریت کا فین یہی مہربان فرما رہا تھا کہ ’’یہ زرداری صاحب ہی کہ جنہوں نے پرویز مشرف سے ہماری جان چھڑائی اور یہ بھی زرداری صاحب ہی کہ جن کی مفاہمتی سیاست ملکی بقا کی ضمانت بنی‘‘ اورپھر میاں برادران کے آتے ہی مسلم لیگ (ن) میں آ چکے اسی صاحب کو اس دن جب میں یہ سنا چکا کہ’’امریکی سروے کے مطابق ہر سال پاکستان نہ صرف 250ارب ڈالر کا سیلابی پانی ضائع کر دے بلکہ سیلاب سے اربوں کھربوں کا جو نقصان وہ الگ‘‘، اسے جب میں یہ بتاچکا کہ’’چین نے 20ہزار ڈیم بنالئے‘ بھارت 2ہزار ڈیم تعمیر کرچکا اوروہ 9ڈیم تو صرف دریائے کابل پر بنا رہا‘‘، جب میں یہ رونا رو چکا کہ’’ملک کی حالت یہ ہوگئی کہ بنا ویزے کے پاکستانی پاسپورٹ پر تو 29ملکوں میں جایا جا سکے جبکہ غریب اور پسماندہ صومالیہ کے پاسپورٹ پر ویزے کے بغیر 31ملکوں میں جانا ممکن‘‘ اور جب میں لہو لہو پاکستان‘خودکشیاں کرتے عوام‘ باہم دست وگریباں سیاستدان اور مسلسل بڑھتے قرضوں پر نوحہ خوانی کر چکا تو سب کچھ چپ چاپ سنتا میرا یہ دوست پہلی بار بولا ’’بھائی جان فکر نہ کرو‘ مسائل حل ہونے والے کیونکہ قائد ِ محترم بیماری کے باوجود ہمارے مستقبل کیلئے دن رات ایک کئے بیٹھے‘‘، یہ کہہ کر میرے اس سدا بہار سیاستدان نے اپنی ولایتی سگریٹوں کی ڈبی سے ایک سگریٹ نکالا‘ اسے اپنے قیمتی لائٹر سے سلگایا اور پھر دو چار لمبے لمبے کش مار کر کہنے لگا ’’ابھی چند ماہ پہلے میں نے قائد ِ محترم کو اپنے والد کی قبر پر فاتحہ کے بعد یہ دعا مانگتے سنا کہ ’’اے اللہ مجھے اتنی ہمت اور توفیق دے کہ میں ملک وقوم کے مسائل حل کر سکوں‘‘ اور ہاں اک ذاتی بات بتا رہا ہوں دنیا تو پتا نہیں کیا کیا باتیں کرے مگر قائد ِ محترم تو اتنے نرم دل اور محبت کرنے والے کہ اُس دن دعا مانگ کر جونہی وہ واپس مڑے تو میں نے ان کا بازو پکڑ کر ایسے ہی جب کہہ دیا کہ ’’قائد ِمحترم آپ کے والد کی قبر سے میرا ایک تعلق ایسا جو آپ کو بھی معلوم نہیں‘‘ تو قائد ِمحترم حیران ہو کر بولے ’’کون سا تعلق‘‘ میں نے کہا ’’قائد ِ محترم نہ صرف آپکے والد ِ محترم کی قبر میں نے اپنی نگرانی میں تیار کروائی بلکہ جب قبر تیار ہوگئی تو میں نے پہلے قبر میں لیٹ کر دیکھا کہ قبر کی لمبائی یا چوڑائی ٹھیک اور قبر آرام دہ ہے یا نہیں‘‘ یہ سننا تھا کہ قائد ِ محترم کے آنسو چھلکے اور انہوں نے آگے بڑھ کر مجھے گلے لگا لیا‘ میرے اس قومی رہنما نے خاموش ہو کر سگریٹ کا ایک کش مارا تو میں نے طنزیہ لہجے میں کہا ’’قبلہ جہاں تک مجھے یاد آپکے قائد کے والد مرحوم کا قد آپ سے کم ازکم ایک فٹ بڑا اور وزن کم ازکم ڈیڑھ من کم تھا‘ لہٰذا یہ کیسے ممکن کہ آپ قبر کی لمبائی، چوڑائی ماپ سکیں‘‘ جواب آیا ’’آخری مہینوں میں بیماری اور ورزش نہ کرنے کی وجہ سے والد ِ محترم کا جسم پھیل گیا تھا اور جب جسم پھیلا تو جہاں ان کا وزن میرے جتنا ہوا وہاں ان کا قد بھی گھٹ کر تقریباً میرے جتنا ہی ہو گیا تھا‘ مگر یا ر تم قبر کی لمبائی چوڑائی کے چکروں میں کیوں پڑ گئے‘ یہ کیوں نہیں سوچ رہے کہ مجھے اپنے قائد سے اتنی محبت کہ میں انکے والد کی قبر میں لیٹ گیا‘‘۔
قارئین کرام !یہاں تک تو کسی نہ کسی طرح یہ سچ جھوٹ چلتا رہا مگر مشکل اُس وقت ہوئی کہ جب میں نے پوچھ لیا کہ ’’اگر آپ کو اپنے قائد سے اتنی ہی محبت تھی تو پھر7سال مشرف کیمپ میں اقتدار کے مزے کیوں لوٹے ؟ جواب ملا ’’بھائی جان نہ صرف قائد کی محبت میں مشرف کیمپ جوائن کیا بلکہ قائد ہی کی چاہت میں مشرف کی وزارت بھی قبول کی‘ کیونکہ مشرف کے قریب رہ کر میں یہ معلوم کرنا چاہتا تھا کہ ڈکٹیٹر میرے قائد ِ محترم کے حوالے سے کیا سوچ اور کیا کررہا ہے‘‘۔ اس لاجواب جواب پر پہلے تو مجھے بہت حیرانی ہوئی مگر پھر جب اپنے دوست کی ’’عقلمند محبتوں‘‘ کی سمجھ آئی تو بے اختیار مجھے ایران کے 70ویں وزیراعظم امیر عباس ہویدا کی شاہ ایران رضا شاہ پہلوی سے محبت یاد آگئی‘ اس محبت کی ایک جھلک آپ بھی ملاحظہ فرمائیں!
سال1975اور مہینہ جولائی کا‘ سوا سال کے بعد مجلس شوریٰ کے اجلاس میں تشریف لائے شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی نے10منٹ بعد ہی بیزاری سے پہلو بد ل کر اکتاہٹ بھرے لہجے میں ساتھ بیٹھے وزیراعظم امیر عباس ہویدا سے وقت پوچھا‘ جواب آیا ’’عالی جاہ6بجے ہیں‘‘ بادشاہ سلامت نے حیران ہو کر یہی سوال مہندس ریاض (صدر مجلس شوریٰ) سے کیا‘ جواب پھر وہی کہ ’’حضور 6بجے ہیں‘‘ شہنشاہ حیران ہو کربولے ’’حیرت ہے‘ میری گھڑی 5بجار ہی ہے، یہ 1گھنٹہ پیچھے‘‘ یہ کہہ کربادشاہ نے گھڑی اتار کر وقت درست کرنا چاہا تو وزیراعظم ہویدا چلائے ’’قربانت شوم !(میں قربان) یہ آپ کیا کررہے‘ ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ حضور کو گھڑی درست کرنے کی زحمت ہو‘عالی جاہ آپ اپنی گھڑی کو یونہی رہنے دیں ہم 35ملین ایرانی اپنی گھڑیاں ایک گھنٹہ پیچھے کر لیتے ہیں‘‘ ، یہ سن کر شاہ نے مسکرا کر عباس ہویدا کی کمر تھپکائی اور ہویدا نے رکوع کی حالت میں جا کر بادشاہ کے ہاتھ چو م کر گھٹنے چھولئے‘ اب ذرا انجام بھی ملاحظہ ہو‘وقت بدلا‘ انقلاب آیا‘ شاہ ِایران ملک بدر ہوا اور 11مہینے ترکی‘13سال عراق‘ اور 3ماہ 27دن فرانس میں جلا وطنی کے بعد امام خمینی وطن واپس لوٹے تو انقلابیوں کے ہاتھوں گرفتار ہو کر ایک دن میلے کچیلے کپڑوں اور بکھرے بالوں کے ساتھ انقلابی عدالت میں سر جھکائے کھڑے ہویدا کو ’’زمین پر فساد پھیلانے والا اور خدا کا دشمن‘‘ قرار دے کر جب سزائے موت سنائی گئی تو 13سال ایران کے وزیراعظم رہ چکے ہویدا ڈبڈ بائی آنکھوں سے جج کی طرف دیکھتے ہوئے درخواست گزار ہوئے ’’مجھے ایک ماہ کی مہلت دی جائے تا کہ میں اپنی بائیو گرافی لکھ سکوں‘‘ چند لمحے سوچنے کے بعد جج نے یہ درخواست تو رد کر دی البتہ 7اپریل 1979ء کو سزائے موت سے پہلے انقلابیوں نے انہیں جب یہ رعایت دینا چاہی کہ’’اگر وہ چاہیں تو اپنی بوڑھی ماں سے آخری بار مل سکتے ہیں‘‘تو ہویدا یہ رعایت لینے سے انکار کر دیتے ہیں‘ وجہ پوچھی گئی تو پھانسی گھاٹ پر جانے سے چند گھنٹے پہلے دونوں ہاتھوں سے سر پکڑکر زمین پر نظریں گاڑے لکڑی کی کرسی پربیٹھے امیر عباس ہویدا آہستگی سے بولے ’’میں چاہتا ہوں کہ ماں کی نظروں میں میری قیدوبند سے پہلے والی صورت بسی رہے‘‘۔
مگر دوستو وہ نظام اور کہ جہاں انقلاب آئے تو امیر عباس ہویدا پھنس جائے اور وہ نظام بھی اور کہ جہاں خطاب کرتے باراک اوباما کو جو ولسن روک کر ’’جھوٹے، جھوٹ نہ بولو‘‘ کہہ دے تو اوباما بُرا نہ منائے‘ جہاں ایک عام سیاسی کارکن بات کاٹنے پر ڈیوڈ کیمرون کو شٹ اپ کال دے تو کیمرون معذرت کرلے‘ جہاں پنشن لیٹ ہونے پر بوڑھی مائی وائٹ ہاؤس کے سامنے بیٹھے تو بش خود آکر تب تک اسکے ساتھ بیٹھا رہے کہ جب تک مائی کا مسئلہ حل نہ ہو جائےاورجہاں من موہن سنگھ کوتحصیل کی سطح کا ایک پارٹی رہنما اسٹیج سے اتار دے تووہ چپ چاپ نیچے جا کر ایک خالی کرسی پر بیٹھ جائے لیکن جیسا پہلے کہا کہ یہ نظام اور‘ اور ان نظاموں سے ہمیں کیا لینا دینا کیونکہ ہم تو اس نظام کا حصہ کہ جو دیکھتے ہی دیکھتے اچھے خاصے جمہوریت پسند کو رضا شاہ پہلوی بناد ے اور جہاں انقلاب کے بعد بھی موجیں ’’ہویدے‘‘ ہی کریں۔

.
تازہ ترین