• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
برصغیر پاک و ہند ہجرت کو انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کہا جاتا ہے۔ 1947میں ایک کروڑ سے زائد افراد نے اپنا گھر بار چھوڑا۔انہی ہجرت کرنے والے خاندانوں میں دو خاندان عبدالحمید مرحوم اور ریاض احمد مرحوم بھی شامل تھے۔ضلع سنام کے عبدالحمید اور ضلع کرنال کے ریاض احمد آپس میں گہرے دوست تھے۔عبدالحمیدکا زرعی رقبہ ضلع کرنال کے چاروں طرف پھیلا ہوا تھا، ان کا شمار برصغیر کے بڑے زمینداروں میں ہوتا تھا جبکہ ریاض احمد پنجاب ٹرانسپورٹ کمپنی کے مالک تھے۔ایک صبح کا واقعہ ہے کہ عبدالحمید علاقے کے سرپنچ کی حیثیت سے لوگوں کے مسائل سن رہے تھے کہ اچانک ریاض احمد اپنے والد پروفیسر محمد فیض کے ہمرا ہ عبدالحمید کے ڈیر ے پر پہنچ گئے ۔دونوں باپ بیٹا پر پریشانی کے آثار واضح تھے۔اس سے پہلے کہ عبدالحمید کچھ بولتے پروفیسر فیض محمد نے قائد کا فرمان پڑھ کرسنا دیا۔بڑی بڑی جاگیریں ،آسودہ زندگی اور اپنے لوگوں کو راتوںرات چھوڑ کر پاکستان جانا آسان نہیں تھا۔جبکہ دوسری جانب برصغیر کی بڑی ٹرانسپورٹ کمپنی کے مالک کے لئے بھی فوری اپنی درجنوں بسیں اور ٹرک سمیت پوری کمپنی بیچناممکن نہیں تھا۔بہر حال چند گھنٹوں میں صرف جائیداد کے کاغذات اور چند زیورات لے کر پاکستان کا رخ کیا گیا۔برصغیر کے نوابوں میں شمار ہونے والے وہ خاندان جن کا ذکر انگریز لارڈ کی طرف سے چھپنے والی سرکاری کتاب میں ہر سال کیا جاتا تھا۔آج اپنا" زر" اور" زمین" چھوڑ چکے تھے،جبکہ ایک "زن"ہی ان کے پاس بچا تھا , لوگوں کے گھروں کی عزتوں کی حفاظت اور فیصلہ کرنے والے اپنی خواتین کو بچانے پر مجبور تھے۔نانا ابو بتایا کرتے تھے کہ جس دن ہم وہاں سے نکلے تھے دوگھنٹے بعداس علاقے پر حملہ ہوگیا ،جس میںہزاروںلوگ شہید اور زخمی ہوئے ۔ یہ عبدالحمید اور ریاض احمد کوئی اور نہیں تھے بلکہ راقم الحروف کے دادا اور نانا تھے۔ان کے لینڈ کلیم کے کاغذات کو دیکھ کر نواب لیاقت علی خان نے کہا کہ لاہور میں اتنی گنجائش نہیں کہ انہیں آباد کیا جاسکے اور پھرانہیں آباد کئے جانے والے نئے شہر ڈیرہ غازی خان بھیج دیا گیا۔ پاکستان آکر ان کو جو کلیم ملا وہ اس کا عشر عشیر بھی نہیں تھا جو ان کے پاس متحدہ ہندوستان میں تھا۔
قائد کے حکم پر خوشحال اور آسودہ زندگیوں کو قربان کرنے والے یہ صرف ایک عبدالحمید کی کہانی نہیں ہے بلکہ ہزاروں عبدالحمید اپنا گھر بار ،جائیدادیں اور جاگیریں چھوڑ کر اپنے پاکستان کی طرف ہجرت کرنے والوں میں شامل تھے۔یہ ہجرت محض اردو بولنے والوں یا پنجابی بولنے والوں کی نہیں بلکہ یہ ہجرت خوشحالی ، آسودگی اور خوشیوں سے بھری زندگی کی دکھ اور پریشانیوں سے بھرپور زندگی کی طرف تھی۔کمال تو یہ ہے پاک سرزمین پر آنے والے کسی اردو یا پنجابی بولنے والے خاندان کے چہروں پر کوئی پچھتاوا اور ندامت نہیں تھی۔اپنی عورتوں کی آبرو ریزی،جاگیروں کی قربانی،ماں باپ کے بہیمانہ قتل کے باوجود اس آس پر زندہ تھے کہ اب ہمارا اپنا پاکستان بن گیا ہے۔تاریخ کی بدترین خونریزی میں اس خاکسار کے پرنانا پروفیسر فیض محمد صاحب شہید ہوگئے تھے ۔
آج جب کوئی شخص یہ بات کہتا ہے کہ مہاجر محب وطن نہیں ہیں او ر یہ اس مٹی کے غدار ہیں تودادا عبدالحمید اورنانا ریاض احمد جیسے لاکھوں بزرگوں کی قربانیوں کی داستانیں یا د آجاتی ہیں۔بچپن میں دادی اماںجب تحریک پاکستان کی قربانیوں کا ذکر کرتی تھیں تو تجسس سے بھرپور واقعات سننا اچھا لگتا تھا مگر آج جب وہ واقعات یاد کرتا ہوں تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔پاکستان میں اردو بولنے والے تمام مہاجر وں کی وطن عزیز سے لازوال محبت پر کوئی شک نہیں کرسکتا۔وطن عزیز کی بنیادوں میں جتنا کراچی کے مہاجر بھائیوں کا خون ہے شاید ہی کسی کا ہو۔ دو روز قبل ایم کیو ایم کے سربراہ نے جو کچھ بھی پاکستان اور ملکی اداروں کے بارے میں کہا وہ کسی بھی مہاجر کی سوچ نہیں تھی۔بلکہ الطاف حسین کے بیانات کے لئے مذمت بھی چھوٹا لفظ ہے۔
آج چند تلخ حقائق قارئین کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔متحدہ قومی موومنٹ اپنے قیام سے لے کر چند سال پہلے تک اسٹیبلشمنٹ کی سب سے پسندیدہ جماعت تھی۔90کی دہائی میں ہونے والے آپریشن کے علاوہ ہمیشہ ایم کیوایم کو مخصوص ادارے کی سپورٹ حاصل رہی۔ الطاف حسین کی جس تقریر کا حوالہ دے کر کہا جاتا ہے کہ وہ غداری کے مرتکب ہوئے ہیں تو وہ تقریر 2004میں بھارت کے ایک مشہور اشاعتی ادارے کی تقریب میں کی گئی۔عمران خان پاکستان جبکہ الطاف حسین لندن سے شریک ہوئے تھے۔کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ 2004میں ایم کیو ایم کس کی اتحادی تھی؟ کیا ادارے قوم کو بتاسکتے ہیں کہ ایم کیو ایم کے خلاف ملک دشمن سرگرمیوں کے ثبوت بھجوانے پر سابق صدر صاحب کیا کہا کرتے تھے ۔12مئی کو کراچی میں ہونے والی خونریزی کے وقت ایم کیو ایم کادفاع مشرف نے کیسے کیا تھا۔کیا کراچی سمیت ملک کے سمندروں کی مالک پورٹ اینڈ شپنگ کی وزارت 10سال تک ایم کیو ایم کے پاس نہیں رہی۔بدقسمتی سے یہ باتیں تلخ ضرور ہیں مگر حقیقت پر مبنی ہیں۔لیکن ان سب بالا حقائق کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پاکستان کے خلاف بات کرنے والے کو آزاد چھوڑ دیا جائے بلکہ میری رائے میں تو وطن عزیز کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے والے کی آنکھ پھوڑ دینی چاہئے۔
آج ہم سب چاہتےہیں کہ کراچی کے حالات فوری ٹھیک ہوجائیں۔بھئی جو بیماری آپ نے 20سال میں پیدا کی ہے اسے کم از کم چند سال تو دیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے جب اچانک 200افراد کو تحویل میں لے لیتے ہیں تو اس سے ایم کیو ایم کمزور ہونے کے بجائے مزید مضبوط ہوتی ہے۔کیونکہ وہ 200خاندان آپس میں مزید متحد ہوجاتے ہیں۔اگر یہی عمل قانونی تقاضوں کے مطابق جوڈیشل طریقہ کار کے تحت کریں تو شاید 200میں سے صرف20لوگو ں کو سزا ہو ،مگر اس کے نتائج دو ررس ہونگے۔پھر کوئی الطاف حسین مہاجروں کے جذبات سے نہیں کھیل سکے گا۔ہمارا مسئلہ ہے کہ ہم سب دہائیوں کی بیماری کو مہینوں میں ختم کرنا چاہتے ہیں۔جبکہ اسی سے ہی جڑا ایک اور معاملہ ایم کیو ایم پر بطور سیاسی جماعت پابندی لگانے کا ہے۔میری ذاتی رائے میں ایک الطاف حسین کی سزا پوری سیاسی جماعت کو دینا نقصان دہ ہوگا۔ہاں الطاف حسین سمیت پاکستان کے خلاف بات کرنے والے ہر شخص کو نشان عبرت بنایا جانا چاہئے مگر لوگوں سے ان کا سیاسی حق چھیننا غلط ہوگا۔بے شک الطاف حسین سمیت چند افراد پر سیاسی سرگرمیوں کی پابندی لگا کر غداری کا مقدمہ چلائیں مگر پورے ایک طبقے کو اپنے خلاف مت کریں۔آج ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلسل پراسس کے ذریعے معاملات کو ٹھیک کیا جائے۔ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے اور ماں جذبات سے نہیں حکمت سے کام لیتی ہے ۔جبکہ ڈاکٹرفاروق ستار کی پریس کانفرنس نے شاید پاکستانیوں کے مشتعل جذبات کو تو ٹھنڈا کردیا ہو مگر انہیں ابھی اپنی ذاتی پوزیشن کلیئر کرنی ہے۔ڈاکٹر صاحب آپکی آخری وفاداری ، محبت اور زندگی کا آخری عشق صرف اورصرف اس زمین اور اس کے رہنے والوں سے ہونا چاہئے نہ کہ کسی ایک فرد سے۔یہ ملک ہے تو ہماری سیاسی جماعتیں بھی ہیں اور ہمارے لیڈر بھی ہیں اگر پاکستان نہیں تو پھر کچھ نہیں ہے کچھ بھی نہیں ہے ۔اے وطن تو سلامت رہے،تاقیامت رہے۔آمین


.
تازہ ترین