• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستارکی پریس کانفرنس پاکستان کی تاریخ کی چند سنسنی خیز پریس کانفرنسوں میں سے ایک تھی۔ الطاف حسین کے خلاف علم بغاوت پہلے بھی بلند کیاگیا مگراس کے لئے گرائونڈ تیارنہ تھی۔ چنانچہ وہ بغاوت نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئی۔ اب چند ماہ پیشتر مصطفیٰ کمال نے بہت دلیری سے کام لیتے ہوئے واشگاف الفاظ میں الطاف حسین کے کردار کو طشت ازبام کیا اور اپنی الگ جماعت کی بنیاد ڈالی جس میں ایم کیو ایم کے چند لیڈر بھی ان کے ساتھ نظر آئے لیکن جو کام فاروق ستار نے کر دکھایا وہ اگر کوئی اور کرتا تو شایداس کی کوئی افادیت نہ ہوتی، انہوں نے نہایت نپے تلے جملوں میں الطاف حسین کی پاکستان دشمنی کو ایم کیو ایم کی پالیسی کے منافی قرار دیا اور بین السطور یہ کہا کہ آئندہ ایم کیوایم پاکستان کا برطانیہ کی ایم کیو ایم سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ پریس کانفرنس میں ان کے ساتھ ایم کیوایم پاکستان کے تقریباً تمام اہم رہنما شامل تھے۔ فاروق ستار نے اس روز وہ سب باتیں کہیں جو اہل پاکستان ایک عرصے سے محسوس کررہے تھے، ’’الطاف بھائی‘‘ کا ’’خاص کیفیت‘‘ میں اوٹ پٹانگ تقریریں کرنا اور اگلے روز معافی مانگنا ایک روزمرہ کا معمول تھا جس پر خود ایم کیو ایم کے کارکن اور رہنما دل میں شرمندگی محسوس کرتے تھے لیکن جبر کے ماحول میں دل کی بات زبان پر نہیں لا پاتے تھے۔ مگراس بار ’’الطاف بھائی‘‘ کی ’’خاص کیفیت‘‘ میں کی گئی ’’ مردہ باد‘‘ (میرے منہ میں خاک) والی تقریر ان کی سیاسی موت کا سبب بن گئی۔ ایک صاحب نے بہت مزے کی بات کہی کہ ’’اُم الخبائث‘‘ نے وہ کام کر دکھایا جو خودحکومت اور اسٹیبلشمنٹ آج تک انجام نہ دے پائی تھی!
میں تجزیہ نگار نہیں ہوں کہ اس حوالے سے کوئی حتمی پیش گوئی کرسکوں یامین میخ نکال کر عوام کو ایک بار پھر کنفیوژ کروں، چنانچہ ایک ’’لےمین‘‘ کے طور پر میری رائے یہ ہے کہ پاکستانی سیاست سے الطاف حسین کا عمل دخل ختم ہوگیا ہے، اب کراچی اور سندھ کے شہری علاقوں کے عوام ان کی ذہنی غلامی سے آزاد ہوگئے ہیں۔ پاکستان کے بارے میں الطاف کی یاوہ گوئی کے بعد کسی بھی محب وطن پاکستانی کے لئے یہ ممکن نہیں رہا کہ برطانیہ میں بیٹھے ایک ایسے شخص کی قیادت کو تسلیم کرے جو اپنے ہی بزرگوں (جو ہمارے بھی ہیں) کے بنائے ہوئے پاکستان کو ایک ناسور قرار دے۔ تاہم ابھی جو کچھ میں نے کہا ہے یہ مشروط ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ فاروق ستار اپنے ساتھیوں کو کس طرح ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ مستقبل کے لئے کیا لائحہ عمل تیار کرتے ہیں۔ ایم کیو ایم میں موجودجرائم پیشہ افراد جن کے فطری لیڈر الطاف حسین ہی ہیں، انہیں کس طرح DEAL کرتے ہیں علاوہ ازیں اسٹیبلشمنٹ اس سارے معاملے کو کس طرح دیکھتی ہے اور کس طرح ACT کرتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہوگا جب کسی لیڈر کی سیاسی موت واقع ہوگی، اگر اس بار بھی غیر سیاسی حکمت عملی اپنائی گئی تو پھر کئے کرائے پر پانی پھر سکتا ہے!
میرے خیال میں اس موقع پر مصطفیٰ کمال صاحب ہی ایک اہم کردار ادا کرسکتے ہیں اگر وہ اپنی انا کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنی جماعت کو پاکستانی ایم کیو ایم میں مدغم کردیں۔ ان کی جماعت کا علیحدہ وجود ان مقاصد کے حصول کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے جن مقاصد کے لئے انہوں نے الطاف حسین کی ایم کیو ایم سے بغاوت کی تھی۔ اس بات سے قطع نظر مجھے ایک بات جو اچھی لگی ہے، وہ ایم کیو ایم کا بطور جماعت باقی رہنا ہے۔ اعتراض اس جماعت کے ’’ڈان‘‘ کی پاکستان دشمنی اور اس کے جرائم پیشہ سیل سے تھا اگر ان دو لعنتوں سے ایم کیو ایم خود کو دور کرلیتی ہے جو فاروق ستار اور ان سے پہلے مصطفیٰ کمال کی طرف سے یقین دہانی کی صورت میں سامنے آئی ہیں تو یہ جماعت سب کے لئے قابل قبول ہے خصوصاً کراچی کے عوام سکھ کا سانس لیں گے جب کوئی بھتہ خور نہیں ہوگا، جب بوری بند لاشیں نہیں ملیں گی اور جب عوام کے کاروبار اور ان کے کاروبارِ زندگی میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی!
کالم کے آخر میں ایک مشورہ ..... خدا کے لئے یہ ’’پاکستان زندہ باد‘‘ قسم کی ریلیاں بند کریں، اس شخص کے مردہ باد کہنے کا اس طرح جواب دینے کی کوئی ضرورت نہیں، جو اس نعرے کے بعد خود مردہ باد ہوچکا ہے۔ اب ضرورت صرف ’’پاکستانی ایم کیو ایم ‘‘ کی قیادت کے لئے دعا کی ہے کہ وہ اپنے عزم پر قائم رہے اور اس نے جس رستے پر چلنے کا اعلان کیا ہے اس پر ثابت قدمی سے چلے اور اس راہ میں آنے والی مشکلات اور صعوبتوں کے لئے خود کو ذہنی طور پر تیار رکھے!

.
تازہ ترین