• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میٹھے بول میں جادو ہے
ہماری زبانیں من حیث القوم لکڑ کی ہوگئی ہیں، کوئی لوچ نہیں، مٹھاس نہیں، لحاظ نہیں، سختی کا جواب سخت اور اخلاقیات لخت لخت، کیا یہی معاشرتی حسن ہے؟ اگر اپنا حق خوش اخلاقی سے مانگا جائے تو مثبت نتائج نکلتے ہیں، ایک گیت بہت اچھا اور موضوع سے لگا کھاتا؎
کدی تے ہس بول وے
نہ جند ساڈی رول وے
اگرباپ بیٹی سے کہے ’’جلدی سے کھانا دے دو!‘‘ تو بیٹی کھانا تو دے دی گی مگر بے دلی سے، اورممکن ہے ٹھنڈا ٹھارہی لے آئے، لیکن یوں کہے ’’بیٹی! مجھے کھانا دے دیں گی؟‘‘ تو وہ بڑی پریت سے کھانے کی ٹرے سجا لائے گی۔ ہم کام لیتے ہیں اور دھونس دیتے ہیں۔ اگر کوئی برا بھلا کہے تو مسکرا کر خاموش ہو جائیں، وہ آئندہ کبھی گستاخی نہیں کرے گاکہ جسے برا کہا اس نے جواب دینا بھی گوارا نہ کیا۔ اس طرز عمل سے معاشرتی لڑائیاں بہت کم ہو جاتی ہیں۔اللہ تعالیٰ نےفرمایا ہے: ’’لوگوں سے خوبصورتی کے ساتھ بولو‘‘ سلام کا تبادلہ یعنی ماحول خوشگوار بنا دیتا ہے اورسلامتی عام ہو جاتی ہے۔ جو بندہ نماز کے بعداچھی طرح بولے سمجھو اس کی نماز قبول ہوگئی۔ ہم نے ایک شخص کو دوسرے سے یہ پوچھتے سنا ’’تیرے وڈے دا کی حال اے‘‘ اس نے جواب دیا ’’ڈنڈے ورگااے‘‘ یہ بات یوں بھی کی جاسکتی تھی ’’تہاڈے وڈیاں دا کی حال اے؟‘‘ اور جواباً یوں کہا جاسکتا تھا ’’الحمدللہ ٹھیک نے‘‘لفظوں کا انتخاب اورکہنےکا انداز بہت کچھ بدل دیتا ہے اس لئے زبان میں نرمی پیدا کی جائے۔ ادب احترام کا خاص اہتمام کیا جائے۔ آس پاس پھول ہی پھول کھل اٹھیںگے ۔فضا معطر ہو جائے گی۔ دوریاں نزدیکیوں میں بدل جائیں گی۔
٭٭٭٭٭
اور اب وہ قصاص تحریک کے پائیدان پر!
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے کہا ہے: ’’وزرا کو بھاگنے نہ دیاجائے۔ ‘‘عوامی تحریک کے پائیدان پر سوار شیخ رشید اب عمران خان کے کنٹینر پر چڑھنےنہیں دیئےجارہے حالانکہ وہ ہمیشہ کسی بھی سیاسی ایمپلی فائر کے بہترین ووفر ثابت ہوئے ہیں۔ قبلہ قادری صاحب نے قصاص کا دائرہ ماڈل ٹائون سانحے سے پھیلا کر ملک گیر قصاص تحریک تک پہنچا دیا ہے۔ بات تو ٹھیک ہے کیونکہ پاکستان کے عوام 70 برس سے قتل ہو رہے ہیں مگر ان کی سانس چلتی رہتی ہے۔ قصاص کا حق تو لوگ رکھتے ہیں بشرطیکہ کوئی ایک نمبر دلوانےوالاہو۔ شیخ رشید اس تحریک کی ریلی میں شامل ہوئے اور دھمکی دی کہ قصاص سے بچنے کے لئے وزرا کو بھاگنے نہیں دیاجائے گا۔ ڈاکٹر طاہر القادری تقریباً سارے خطابات ویڈیو لنک پر کر رہے ہیں۔قصاص تحریک تاحال ویڈیو پر چل رہی ہے یہ باقاعدہ زمین پر اتاری جائے۔ طاہر القادری قدم قدم چل کر اس کی رہنمائی فرماتے، شیخ رشیدکو خوبصورتی سے چھوڑ دیتے تو یہ تحریک کامیاب ہوسکتی ہے۔ پاکستان خوش قسمتی سے ناکام سیاستدانوں کی جنت ہے۔ یہاں سیاستدان توکوئی بھی بن سکتا ہے اگر اس کے پاس وافر پیسہ ہو مگر وہ اپنے مفاد کی خاطر دانستہ کامیاب سیاستدا ن نہیں بننا چاہتا۔ اسی لئے ملک کا آغاز انجام ایک دکھائی دینے لگا ہے۔ سیاست سے مشاہدہ کیوں رخصت ہو رہا ہے؟ عام آدمی کی حالت زار کا اندازہ کسی کو نہیں جس کے زندہ درگور لاشے پر لیڈرز رقص اقتدارو سیاست کرتے ہیں۔ شیخ صاحب ڈونلڈ ٹرمپ کی کارکردگی بھی دیکھیں ۔ پاکستان میں حکومتی کارکردگی بھی ناکام سیاستدان پیداکرنے میں کافی مددگارثابت ہوتی ہے۔ مذہبی سیکٹر کے سیاستدان دہرا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن ذات کے تو مولوی ہی ہیں لیکن انہوں نے سیاست میں بڑا نام دام پیداکیاہے اب وہ دینی مدارس کا سلوگن لگا کر مزید سیاسی بلندی حاصل کر رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭
کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری
ایک ٹی وی ٹاک شو میں بتایا گیاہے کہ حکومت کو مودی نواز کہنےوالے قادری خود مودی کے مداح رہے۔ 2013 میں گجرات کے دورے میں ریاستی مہمان تھے۔ قیمتی لیموزین پر سفر کرتے رہے۔ پروٹوکول پر بھارت سرکار کا شکریہ بھی ادا کیا۔ اب ایسی صورتحال میں ہم عوام کہاں جائیں؎
کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری
فکر انسانی گم ہے کہ دونوں عیاریاں سچ ہیں تو کون سا الزام جھوٹ، ہمارے سیاستدان شاید کمزور حافظے کے مالک ہوتے ہیں کہ کل کیا کہا یا کیا تھا اور آج کیا کہہ رہے ہیں ، کر رہے ہیں۔ ایک مقولہ ہے کہ ’’دروغ گو را حافظہ بناشد‘‘(جھوٹے کی یادداشت نہیں ہوتی) شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری صاحبِ مقام شخصیت ہیں۔ ان کے بارے میں کیوں اس طرح کی باتیں سامنے آرہی ہیں کہ وہ بھی بھارت نوازی کی حد تک نوازشریف ہیں۔ ہماری اپنی رائے یہ ہے کہ بھارت نواز، نواز شریف ہیں نہ طاہر القادری۔ کسی ملک میں جانااوروہاں کی انتظامیہ کاپروٹوکول دیناکوئی الزام نہیں۔ الزام یہ ہے کہ نواز شریف، مودی سے ایک عدد جپھے پر بھارت نوازی کا الزام دیا جائے۔ ایک دوسرے کے ماضی حال پر حملہ آور ہونےکی بجائے قوم کے مستقبل کی فکر کرنا چاہئے۔ بڑا مسئلہ عوام کے مسائل ہیں۔ کوئی ان کے حل کی طرف نہیں آتا۔ لوڈشیڈنگ ایک روگ بن چکی ہے۔ عام لوگوں کے معمولات زندگی بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ حکومت کی رٹ اتنی بھی نہیں کہ نرخوں میں یکسانیت لے آئے۔ بھارت نوازی کے بجائے مسائل نوازی کا الزام کیوں نہیں دیتے؟ حکومت پر اخلاقی، قانونی، آئینی دبائو تو ڈالا جاسکتاہے مگر لگتایوں ہے کہ ہر لیڈر اپنی سیاسی کنویسنگ کر رہا ہے اور اسی کو اپوزیشن کہتا ہے۔ اللہ کے نام پر نوٹ، ووٹ، اقتدارمانگا جارہا ہے تو ایک بھکاری اور لیڈر میں کیافرق ہوا؟
٭٭٭٭٭
ڈیڑھ انچ کا کنٹینر!
O۔ رحمٰن ملک:کنٹینر پروگرام میں کسی کے ساتھ نہیں ہوں گے۔
گویا اپنا ڈیڑھ انچ کا کنٹینر الگ کھڑاکریں گے۔
O۔ افغانوں کی اشتعال انگیزی، بابِ دوستی اتوار کو بھی بندرہا۔
یہ 30لاکھ افغانوں کی مہماندار ی کا صلہ ہے۔ اب باب ِ واپسی کھول دیناچاہئے۔
O۔ پرویز خٹک کے آبائی گائوں میں بجلی چوری۔
بجلی چوری عام ہے تو پرویز خٹک کے گائوں کو کیوں استثنیٰ دیاجائے؟
O۔ وزیراعظم نےلاہور سیالکوٹ موٹروے کا سنگ ِ بنیاد رکھ دیا۔
نوازشریف نہایت موٹروے نواز وزیراعظم ہیں، اسی لئے تو نندی پور پاور اسٹیشن پروجیکٹ فیل ہو گیا۔
O۔ قائم علی شاہ کا شاہانہ پروٹوکول برقرار۔
وہ پہلے بھی پروٹوکول پر تھے۔
O۔ پرویز رشید:حکومت جمہور کی ہے اور جمہور ہمیشہ شریف ہوتے ہیں۔
پھر تو جمہور بچے ہوئے!
O۔ ذوالفقار مرزا:نادان دوستوں زرداری سے لڑایا۔
عقلمند دوست ہوتے تو یہ نوبت کیوں آتی؟


.
تازہ ترین